توبہ و ندامت کے احکامات: قرآن و حدیث کی روشنی میں

غیوراحمد قاسمی

گناہ اور معصیت ایک سنگین او رمہلک ترین روحانی مرض ہے اس کی حقیقت خدائے برتر کی نافرمانی او رحکم عدولی ہے گناہ وہ مضر شئے ہے جس سے انسان کے قلب میں زنگ لگ جاتا ہے او ردل سیاہ ہوجاتا ہے معصیت کا نقد نقصان اور فوری نحوست یہ ہے کہ اس بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق گھٹ جاتا ہے نافرمانی اور گناہوں کی پاداش میں اللہ کی رحمتیں، برکتیں رک جاتی ہیں او رمختلف شکلوں میں مصائب او رتکالیف کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے قرآن وحدیث میں جگہ جگہ گناہ او رمعصیت سے پاک صاف ہو نے کی تدبیریں اور طریقے بتائے گئے ہیں اور توبہ واستغفار کی تاکید کی گئی ہے ماحول کی زیب وزینت عنائی اور خو شنمائی انسان کو غفلت میں ڈالے رہتی ہے اور وہ نفس شیطان سے مغلوب ہوکر لہو ولعب میں مشغول رہتا ہے خوف خدا فکر آخرت او ربارگاہ ا لہٰی میں حاضری اور جوابدہی کا احساس تک نہیں ہوتا کبھی ندامت کے آنسوئوں سے اس کی آنکھیں نم نہیں ہوتی کبھی اپنی ذات سے رذائل خبیثہ کو دور کرنے کا عز مصحم نہیں کرتا اخلاق ذمیمہ جن کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند فرماتا ہے جن سے دور رہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جن کے کرنے والے بارگاہ الہٰی میں مجرم اور گناہگار ہوتے ہیں جن کی برائی اور ذی شعور انسان جانتا اور مانتا ہے جن کی وجہ سے معاشرہ میں فساد جنم لیتا ہے بلکہ یہ رذائل اور بری عادتیں جب عام ہوجائیں تو پوری قوم کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے دینی ودنیوی ترقیوں کی راہیں مسدود اور سعادت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں قرآن وحدیث میں ان کی سخت مذمت آتی ہے ان سے توبہ کرکے ہی خوشگوار زندگی گذاری جاسکتی ہے توبہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے حقیقی معنیٰ رجوع کرنے کے ہیں او راصطلاح شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت جو کچھ مذموم ہے اس سے لوٹ کر قابل تعریف شئے کی طرف آجائے ترک گناہ کا عہد قرآن میں یہ لفظ باربار آیا ہے اور صدق دل سے گناہو ں کی معافی پر زور دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی اور خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ‘‘ (التحریم) خالص اور سچی توبہ یہ ہے کہ انسان پکے سچے دل سے گناہوں سے نفرت کرے اور آئندہ کرنے کا عزم پختہ کرے ندامت ہو اور اللہ سے معافی کا خواستگار ہو اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے جس کی حق تلفی کی ہے اس کا حق ادا کرے ظلم وستم کیا ہے تو اس معافی مانگے۔

دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کو دور کرکے تمہیں جنتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہیں۔ ایک جگہ فرمایا خداوندی ہے ’’ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑدو‘‘

دوسری جگہ ’’ایمان والو اللہ سے سچے دل سے توبہ کرو‘‘ ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے کہ مگر جس نے توبہ کی او رایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا‘‘ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کیوں نہیں کرتے او رمعافی کیوں نہیں طلب کرتے اور اللہ تعالیٰ تو بہت معاف کرنے والا او ربڑا مہربان ہے (المائدہ)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’اے میرے بندوں تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں سب گناہ معاف کرسکتا ہوں لہٰذا تم مجھ سے معافی او ربخشش مانگو میں تمہیں معاف کردوں گا۔

محسن انسانیت نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کو اپنی رحمت اور مغفرت کا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کے گناہگار توبہ کریں اور ہر دن کو ہاتھ بڑھاتا ہے کہ رات کے گناہگار توبہ کریں او راللہ کا یہ معاملہ اس وقت جاری رہے گا جب تک قیامت کے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا۔ (مسلم شریف) فرمان نبوی ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا بالکل اسی آدمی کی طرح ہوجاتا ہے جس نے وہ گناہ کیا ہی نہ ہو (ابن ماجہ) ایک او رحدیث میں آیا ہے جوشخص گناہ کرکے نادم ہوا تو یہ ندامت اس کے گناہ کا کفارہ ہے۔

حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹا توبہ میں کل تک تاخیر نہ کر کیونکہ موت ناگاہ اور اچانک آجاتی ہے حضرت مجاہدؒ فرمتاے ہیں کہ جو شخص صبح وشام توبہ نہ کرے وہ ظالم ہے عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حرام کے ایک پیسے کا لوٹا دینا سو پیسوں کے صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ علماء صالحین نے کہا ہے کہ جب تک انسان دس چیزیں اپنے اوپر ضروری نہ کرلے تب تک کامل مسلمان نہیں اور تقویٰ وورع حاصل نہیں کرسکتا (۱) زبان کو غیبت سے محفوظ رکھے (۲) بدظنی سے بچے (۳) مسخرہ پن سے احتراز (۴)بدنظری سے پرہیز (۵)سچ بولے (۶) ہر حال میں اللہ ہی کا احسان مانے تاکہ اس کا نفس مغرور نہ ہو (۷) اپنا مال راہ حق میں خرچ کرے اور راہ باطل میں صرف کرنے سے بچے (۸) اپنے نفس کے لئے بلندی او ربڑائی طلب نہ کرے (۹) نماز کی محافظت کرے (۱۰) سنت وجماعت پر استقامت اختیار کرے۔

شعوانہ کی توبہ:

مرحوم ملا احمد نراقی اپنی عظیم الشان اخلاقی کتاب ’’معراج السعادۃ‘‘ میں حقیقی توبہ کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کرتے ھیں :

شعوانہ ایک جوان رقّاصہ عورت تھی، جس کی آواز نھایت سریلی تھی، لیکن اس کو حلال و حرام پر کوئی توجہ نھیں تھی، شھر بصرہ کے مالداروں کے یھاں فسق و فجور کی کوئی ایسی محفل نہ تھی جس میں شعوانہ بلائی نہ جاتی ھو، وہ ان محفلوں میں ناچ گانا کیا کرتی تھی، یھی نھیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ لڑکیاں اور عورتیں بھی ھوتی تھیں۔

ایک روز اپنے سھیلیوں کے ساتھ ایسی ھی محفلوں میں جانے کے لئے ایک گلی سے گزر رھی تھی کہ اچانک دیکھا کہ ایک گھر سے نالہ و شیون کی آواز آرھی ھے، اس نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسا شور ھے؟ اور اپنی ایک سہیلی کو حالات معلوم کرنے کے لئے بھیج دیا، لیکن بھت دیر انتظار کے بعد بھی وہ نہ پلٹی، اس نے دوسری سھیلی کو بھیجا، لیکن وہ بھی واپس نہ آئی، تیسری کو بھی روانہ کیا اور ہدایت کردی کہ جلد لوٹ کر آنا، چنانچہ جب وہ گئی اور تھوڑی دیر بعد لوٹ کر آئی تو اس نے بتایا کہ یہ سب نالہ و شیون بدکار اور گناھگارافراد کا ھے!

شعوانہ نے کھا:  میں خود جاکر دیکھتی ھوں کیا ھورھا ھے۔

جیسے ھی وہ وھاں پہنچی اور دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کو وعظ کررھے ھیں، اور اس آیہ شریفہ کی تلاوت کررھے ھیں :

( اِذَا رَایَتھم مِن مَکَانٍ بَعِیدٍ سَمِعْوا لَھا تَغَیّْظًا وَزَفِیرًا۔ وَاِذَا ایْلقْوا مِنھا مَکَانًا ضَیِّقًا مْقَرَّنِینَ دَعَوا ہْنَالِکَ ثْبْورًا)

’’جب آتش (دوزخ) ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو یہ لوگ اس کے بھڑکتے ھوئے شعلوں کی آوازیں سنیں گے۔ اور جب انھیں زنجیروں میں جکڑ کر کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وھاں موت کی دھائی دیں گے‘‘۔

جیسے ھی شعوانہ نے اس آیت کو سنا اور اس کے معنی پر توجہ کی، اس نے بھی ایک چیخ ماری اور کھا: اے واعظ! میں بھی ایک گناھگار ھوں، میرا نامہ اعمال سیاہ ھے، میں بھی شرمندہ اور پشیمان ھوں، اگر میں توبہ کروں تو کیا میری توبہ بارگاہ الٰھی میں قبول ھوسکتی ھے؟

واعظ نے کھا: ھاں، تیرے گناہ بھی قابل بخشش ھیں، اگرچہ شعوانہ کے برابر ھی کیوں نہ ھوں !

اس نے کھا: وائے ھو مجھ پر، ارے میں ھی تو’’شعوانہ ‘‘ھوں، افسوس کہ میں کس قدر گناھوں سے آلودہ ھوں کہ لوگوں نے مجھے گناھگار کی ضرب المثل بنادیا ھے!!

اے واعظ! میں توبہ کرتی ھوں اور اس کے بعدکوئی گناہ نہ کروں گی، اور اپنے دامن کو گناھوں سے بچاؤں گی اورگناھگاروں کی محفل میں قدم نھیں رکھوں گی۔

واعظ نے کھا: خداوندعالم تیری نسبت بھی’’ارحم الراحمین‘‘ ھے۔

واقعاً شعوانہ نے توبہ کرلی، عبادت و بندگی میں مشغول ھوگئی، گناھوں سے پیدا ھوئے گوشت کو پگھلادیا، سوز جگر، اور دل کی تڑپ سے آہ وبکاکرتی تھی : ھائے ! یہ میری دنیا ھے، تو آخرت کا کیا عالم ھوگا، لیکن اس نے اپنے دل میں ایک آواز کا احساس کیا: خدا کی عبادت میں مشغول رہ، تب آخرت میں دیکھنا کیا ھوتا ھے۔

واقعہ نمبر1: حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غزوئہ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا، نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا:اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی، حتی کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لا کر اپنے دست اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظ۔۔۔ الخ، ۴/۳۱-۴۱، خازن، الانفال، تحت الاٰیت: ۷۲، ۲/۰۹۱)

واقعہ نمبر2: بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں توبہ و رجوع کی ایک دوسری روایت ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں : میں نے ایک ایسابستر خریدا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے۔میں نے آپ کے روئے انور پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عرض گزار ہوئی:یارسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجھ سے جو نافرمانی ہوئی میں اس سے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ارشاد فرمایا: یہ گدا یہاں کیوں ہے؟ عرض کی: میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے لئے خریدا تھا تاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوں اور اس سے ٹیک لگائیں۔ سرکار کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان تصویروں (کو بنانے) والے قیامت کے دن عذاب دئیے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا:جو تم نے بنایا انہیں زندہ کرو۔ اور ارشاد فرمایا:جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب التجار? فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ۲/۱۲، الحدیث: ۵۰۱۲)

واقعہ نمبر3:حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ چالیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جن میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے جمع ہوکر جبر وقدر میں بحث کرنے لگے تو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ باہراپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں انہوں نے ایک نیا کام شروع کردیا ہے۔ چنانچہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ غصہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخی میں اس طرح نمایاں تھا جیسے سرخ انار کا دانہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے رخسار مبارک پر نچوڑا گیا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اس کیفیت کو دیکھ کر کھلے بازو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور ان کا حال یہ تھا کہ ان کے ہاتھ اور بازو کانپ رہے تھے اور عرض کی ’’ تُبنَا اِلَی اللہِ وَرَسُولِہ‘‘ ہم نے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دربار میں توبہ پیش کی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قریب تھا کہ تم اپنے اوپر جہنم کوواجب کرلیتے، میرے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم باہر امت کے پاس تشریف لے جائیں، انہوں نے نیا کام شروع کردیا ہے۔ (معجم الکبیر، ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۹۵، الحدیث: ۳۲۴۱)

باعصمت لڑکی اور کفل کا واقعہ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی بار یہ سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو ہمیشہ رات دن برائی میں پھنسا رہتا تھا۔ کوئی سیاہ کاری ایسی نہ تھی جو اس سے چھو ْٹی ہو۔ نفس کی کوئی ایسی خواہش نہ تھی جو اس نے پوری نہ کی ہو.ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ(60) دینار دے کر بدکاری کیلئے آمادہ کیا . جب وہ تنہائی میں اپنے برے کام کے ارادے پر مستعد ہوتا ہے تو وہ نیک بخت بید لرزاں کی طرح تھرانے لگتی ہے . اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں . چہرے کا رنگ فق پڑجاتا ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کلیجہ بانسوں اچھلنے لگتا ہے، کفل حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ اس ڈر، خوف، دہشت اور وحشت کی کیا وجہ ہے؟

پاک باطن، شریف النفس، باعصمت لڑکی اپنی لڑکھڑاتی زبان سے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیتی ہے . مجھے اللہ کے عذابوں کا خیال ہے اس زبوں کام کو ہمارے پیدا کرنے والے اللہ نے حرام کردیا ہے. یہ فعل بد ہمارے مالک ذوالجلال کے سامنے ذلیل و رسول کرے گا. منعم حقیقی محسن قدیمی کی یہ نمک حرام ہے. واللہ! میں نے کبھی بھی اللہ کی نافرمانی پر جرات نہ کی. ہائے حاجت اور فقر و فاقہ، کم صبر اور بے استقلالی نے یہ روز بد دکھایا کہ جس کی لونڈی ہوں اس کے سامنے اس کے دیکھتے ہوئے اس کی نافرمانی کرنے پر آمادہ ہوکر اپنی عصمت بیچنے اور اچھوت دامن پر دھبہ لگانے پرتیار ہوگئی. لیکن اے کفل ! بخدائے لایزال، خوف اللہ مجھے گھلائے جارہا ہے. اس کے عذابوں کا کھٹکا کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے. ہائے آج کا دو گھڑی کا لطف صدیوں خو ن تھکوائے گا اور عذاب الہٰی کا لقمہ بنوائے گا. اے کفل ! اللہ کیلئے اس بدکاری سے باز آ اور اپنی اور میری جان پر رحم کر . آخر اللہ کو منہ دکھانا ہے.

اس نیک نہاد اور پاک باطن اور عصمت بآب خاتون کی پر اثر اور بے لوث مخلصانہ سچی تقریر اور خیر صوابی نے کفل پر اپنا گہرا اثر ڈالا اور چونکہ جو بات سچی ہوتی ہے دل ہی میں اپنا گھر کرتی ہے. ندامت اور شرمندگی ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور عذاب الہٰی کی خوفناک شکلیں ایک دم آنکھوں کے سامنے آکر ہر طرف سے حتیٰ کہ در و دیوار سے دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جسم بے جان ہوجاتا ہے، قدم بھاری ہوجاتے ہیں، دل تھرا جاتے ہیں . سو ایسا ہی کفل کو معلوم ہوا. وہ اپنے انجام پرغور کرکے اپنی سیاہ کاریاں یاد کرکے رو دیا اور کہنے لگا . اے پاکباز عورت ! تو محض ایک گناہ وہ بھی ناکردہ پر اس قدر کبریائے ذوالجلال سے لرزاں ہے . ہائے میری تو ساری عمر اپنی بدکاریوں اور سیہ اعمالیوں میں بسر ہوگئی میں نے اپنے منہ کی طرح اپنے اعمال نامے کو بھی سیاہ کردیا. خوف اللہ کبھی پاس بھی نہ بھٹکنے دیا. عذاب الہٰی کی کبھی بھولے سے بھی پرواہ نہ کی. ہائے میرا مالک مجھ سے غصے ہوگا. اس کے عذاب کے فرشتے میری تاک میں ہوں گے. جہنم کی غیظ و غضب اور قہر آلودہ نگاہیں میری طرف ہوں گے. میری قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہوں گے. مجھے تو تیری نسبت زیادہ ڈرنا ڈچاہیے. نہ جانے میدان محشر میں میرا کیا حال ہوگا. اے بزرگ عورت گواہ رہ. میں آج سے تیرے سامنے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ رب کی ناراضگی کا کوئی کام نہ کروں گا. اللہ کی نافرمانیوں کے پاس نہ پھٹکوں گا. میں نے وہ رقم تمہیں اللہ کے واسطے دی اور میں اپنے ناپاک ارادے سے ہمیشہ کیلئے باز آیا. پھر گریہ زاری کے جناب باری تعالیٰ توبہ واستغفار کرتا ہے. اور رو رو کر اعمال کی سیاہی دھوتا ہے. دامن امید پھیلا کر دست دعا دراز کرتا ہے کہ یا الہٰا العالمین میری سرکشی سے درگزر فرما. مجھے اپنی دامن عفو می میں چھپالے . میرے گناہوں سے چشم پوشی کر مجھے اپنے عذابوں سے آزاد کر . حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی رات اس کا انتقال ہوگیا. صبح کو لوگ دیکھتے ہیں اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا ہے. ان اللہ قد غفر الکفل . یعنی اللہ تعالیٰ نے کفل کے گناہ معاف کردئیے.(ترمذی،صحیح اسلامی واقعات، صفحہ نمبر 106-103)

حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک آدمی تھا۔وہ اپنی توبہ کے اوپر جمع نہیں رہتا تھا۔۔اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کے اوپر وحی نازل فرمائی کہ اس نوجوان کو کہہ دو اپنی توبہ کو نہیں توڑنا، اگر تو اپنے گناہ کی طرف لوٹا تو میں تجھے سزا دوں اور تیری توبہ بھی قبول نہیں کروں گا۔۔۔موسی علیہ السلام نے پیغام پہنچا دیااس نوجوان نے کچھ دن تو صبر کیا لیکن پھر گناہ کر بیٹھا۔اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی "اسے کہہ دو میں اس سے ناراض ہوں "۔۔موسی علیہ السلام نے پیغام پہنچا دیاوہ بندہ صحرا کی طرف نکل گیا اور کہنے لگا۔

’’ الہی ! آپ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف کیسا پیغام بھیجا ہے؟ کیا آپ کے مغفرت کے خزانے ختم ہو گئے؟میرے مولا! کون سا میرا گناہ تیری رحمت سے بڑا ہے جو معاف ہونے کے قابل نہیں۔ ۔۔آپ نے کہا! تیری مغفرت نہیں کروں گا۔اللہ کیسے میری مغفرت نہیں کریں گے کہ اللہ تیری صفات میں سے ہیں آپ بڑے کریم ہیں۔ ۔اے اللہ! آپ اپنے بندے کو اپنی رحمت سے مایوس کریں گے تو وہ کون سے دروزے پر جائیں گے۔۔اے اللہ! اگر آپ انھیں دھکے دیں گے وہاں کہاں کا قصد کریں۔ ۔اللہ! اگر آپ کی رحمت ختم ہو گئی ہے تو اے اللہ مجھے عذاب دے دیجیے۔اے اللہ اپنے باقی ساریبندوں کے گناہ بھی میرے سر ڈال دے۔۔اے اللہ میں سب کی طرف سے فدیہ بن جاوں گا۔مجھ کو عذاب دے دے باقی سب کو معاف کر دے۔‘‘

اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو وحی کی:

’’اس بندے کو کہہ دیجیے اگر تیرے گناہ آسمان اور زمین کے فاصلے کو بھر دیتے میں تیری اس دعا کے بعد تیرے سارے گناہ معاف کر دیتا تو نے میرے عفو اور میری رحمت کو سمجھ لیاگناہوں سے توبہ کی فضیلت اور اجر و ثواب حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالی رحمہ اللہ علیہ توبہ کی بنیاد پشیمانی ہے۔ پشیمانی کی علامت یہ ہے کہ توبہ کرنے والا ہمیشہ حسرت میں مبتلا رہے۔ گریہ و زاری اور تضرع اس کا کام ہو جائے، اس لیے کہ جو اپنے آپ کو ہلاک ہوتے دیکھتا ہے وہ غم و حسرت سے کیسے خالی ہو گا۔ اگر کسی کا لڑکا بیمار ہو اور کوئی طبیب کہہ دے کہ بیماری خطرناک ہے، امیدِ زیست کم ہے تو باپ کا جو حشر ہو گا وہ سبھی کو معلوم ہے اور ظاہر ہے کہ اپنی جان تو بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم طبیبِ حاذق سے زیادہ سچے ہیں اور آخرت کی ہلاکت کا خوف مو ت کے خوف سے زیادہ ہے۔ اللہ کے غصہ پر گناہ کی دلالت موت پر بیماری کی دلالت سے بڑھ کر ہے۔ پھر آدمی کو ان امور سے خوف و حسرت پیدا نہ ہوتو مطلب ہے کہ گناہ کے نقصان ابھی اَلَم نَشرح نہیں ہوئے اور جس قدر یہ آگ تیز ہوتی ہے اسی قدر گناہوں کو سیاہ مٹی بنانے میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے، کیونکہ گناہوں کے سبب آدمی کے آئینی دل میں جو زنگ لگ جاتا ہے اور جو تاریکی چھا جاتی ہے، حسرت و ندامت کی آگ کے سوا کوئی چیز اسے دور نہیں کر سکتی۔ اس کی سوزش سے آدمی کا دل صاف اور رقیق ہو جاتا ہے۔ حدیث شریف میں توبہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا کیونکہ ان کا دل رقیق ہوتا ہے۔

پیدائش سے موت تک گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کا کام ہے اور تمام عمر گناہوں میں غرق رہنا شیطان کا۔ جب کہ نادم ہو کر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ عبادت میں قدم دھرنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا کام ہے۔ جس آدمی نے توبہ کر کے پچھلے گناہوں کی تلافی کر لی، اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنی نسبت درست کر لی اور جس نے مرتے دم تک گناہوں پر اصرار کیا اس نے شیطان سے اپنی نسبت مضبوط کر لی۔

توبہ کی شرائط:

علماء کرام نے فرمایا ہے کہ توبہ ہر ایک گناہ سے ضروری ہے، پس اگر معصیت اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ہو اور کسی آدمی کا حق اس کے ساتھ وابستہ نہ ہو، تو پھر اس کی تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ معصیت سے باز آ جائے، دوسرے یہ کہ اپنے کیے ہوئے پر نادم ہو۔ اور تیسرے اس بات کا پختہ ارادہ کرے، کہ پھر کبھی اس قسم کی معصیت میں مبتلا نہ ہوں گا۔ لہٰذا ان تینوں شرطوں میں سے اگر ایک بھی نہ پائی جائے گی تو توبہ درست نہ ہو گی اور اگر معصیت کسی انسان کے ساتھ وابستہ ہے تو پھر علماء  نے چار شرطیں بیان فرمائیں ہیں، مندرجہ بالا تینوں شرطیں اور چوتھی شرط اس کے علاوہ کہ اس شخص کے حق سے اپنی برکت ظاہر کرے۔ مثلا: اگر اس کا مال لیا ہے یا اور کوئی اسی قسم کی چیز ہے تو اس کو واپس کر دے اور اگر کسی قسم کی تہمت وغیرہ لگائی ہے تو اس کو بھی اجازت دے یا معاف کرائے اور اگر غیبت ہو تو غیبت کو اس سے درگزر کرائے اور تمام گناہوں سے توبہ واجب ہے۔

پس اگر بعض گناہوں سے توبہ کی، تو اہل حق (اہل سنت) کے نزدیک ان گناہوں سے توبہ درست ہو جائی گی اور باقی گناہوں سے توبہ کرنا اس کے ذمہ باقی رہے گی۔ توبہ کے فرض ہونے پر کتاب اللہ اور احادیث رسول کے دلائل شاہد ہیں۔

ارشاد باری ہے:

تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ جَمِیعًا اَیّْہَا المُؤمِنْونَ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ۔

ترجمہ: اے مسلمانو! اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ فلاح و کامیابی حاصل کرو (سورۃ النور)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اِستَغفِرُوا رَبَّکْم ثُمَّ تْوبْوا اِلَیللہِ۔

ترجمہ: تم اپنے رب سے اپنے گناہ معاف کراؤ اور توبہ کرو(سورۃ الہود)

ایک جگہ اورشاد فرمایا:

یٰاَیّْہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوباً نَّصُوحًا۔

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو (سورۃ التحریم)

توبہ کی فضیلت:

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ ان فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں جنھوں نے وہ گناہ لکھنے ہوتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں کو بھلا دیتے ہیں جن سے گناہ کیے تھے اور اس جگہ کو بھی بھلا دیتے ہیں جہاں وہ گناہ سرزد ہوئے تھے، تاکہ جب وہ شخص احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہو تو اس کے گناہ کا کوئی گواہ نہ نکلے۔

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا دستِ کرم اس شخص کے لیے پھیلائے ہوئے ہیں جس نے دن کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ رات کو توبہ کرے اور میں قبول کر لوں اور اس شخض کے واسطے جس نے رات کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ دن کو توبہ کرے اور میں قبول کروں۔ یہ دستِ شفقت اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص گناہ سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا ہے جس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں اور فرمایا کہ گناہ سے توبہ کا معنی یہ ہے کہ پھر اس گناہ کے قریب بھی نہ جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مغرب کی طرف سے آفتاب نکلنے سے پہلے توبہ کر گیا تو اس کی توبہ ضرور قبول ہو گی اور فرمایا کہ پشیمانی و ندامت ہی توبہ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو گناہ پر نادم جانتا ہے اسے بخشش مانگنے سے پہلے بخش دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے کی توبہ پر خوشی ہوتی ہے:

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اس بدوی کی نسبت زیادہ خوش ہوتے ہیں جسے خطرناک جنگل میں نیند آ جائے، اس کے پاس ایک اونٹ ہو جس پر اس کا زادِ راہ اور سرمایہ لدا ہو۔ جب جاگے تو اونٹ موجود نہ ہو، گھبرا کر اٹھے اور سرگرمی سے اس کو تلاش کرنا شروع کر دے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ حال ہو جائے کہ بھوک پیاس کے سبب موت کا خطرہ لاحق ہو جائے۔ وہ بیزار ہو کر اپنی جگہ پلٹ آئے کہ مرنا ہے تو وہیں مرا جائے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر بازو پر سر رکھ کر سو جائے۔ اچانک آنکھ کھلے تو اونٹ اسی طرح لدا پھندا سامنے موجود ہو۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہے اور خوشی میں یہ کہنے کے بجائے کہ تو میرا رب اور میں تیرا بند ہ ہوں، یہ کہنے لگے کہ اے اللہ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ یہ اعرابی بدوی اپنے لٹے ہوئے سرمایہ کو پا کر جتنا خوش ہوتا ہے اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے کی توبہ سے خوشی ہوتی ہے۔

بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُم وَ کَانُوا شِیَعًا۔(سورۃ الانعام)وہ جنھوں نے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہو گئے)اس سے اہلِ بدعت مراد ہیں۔ ہر گناہ گار کی توبہ قبول ہوتی ہے لیکن بدعتی قبولِ توبہ سے محروم رہتا ہے، میں ان سے بیزار ہوں وہ مجھ سے بیزار ہیں۔

زندگی کا ہر سانس قیمتی موتی ہے:

حضرت سلیمان درانی نے فرمایا کہ انسان اگر کسی چیز پر نہ روئے اور فقط اْس زمانے کا ماتم کرے جو اس نے ضائع کیا تو مرتے دم تک یہی رنج کافی ہے تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو گزرے دور کی طرح آئندہ وقت بھی ضائع کرتا ہے۔ جو شخص اس عزیز وقت کو گناہوں میں صرف کرے گا جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو تو اگر اُسے مستقبل کی مصیبت کی خبر ہو تو اس کا کیا حال ہو گا مگر یہ مصیبت ایسی ہے کہ آدمی اس وقت مطلع ہوتا ہے جب حسرت و ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ نے کتنی صحیح بات فرمائی:

وَ اَنفَقْوا مِمَّا رَزَقنٰکْم مِن قَبلِ اَن یَّتِیَ اَحَدَکُمُ المَوتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَو لَا اَخَّرتَنِی اِلٰی اَجِلٍ قَرِیبٍ۔(سورۃ المنافقون)

ترجمہ: اور خرچ کر لو اس رزق سے جو ہم نے تمھیں دیا۔ اس سے قبل کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آ جائے پھر وہ کہے کہ اے میرے رب مجھے تھوڑی دیر کی مہلت دے دے۔‘‘

اہلِ علم نے کہا ہے کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مرتے وقت بندہ ’’ملک الموت‘‘ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوچ کا وقت آ گیا تو اس کے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے، اتنی جس کی کوئی حد نہیں اور کہتا ہے: اے فرشتہ اجل! مجھے ایک دن کی مہلت دے دے کہ میں توبہ کر لوں۔ فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے بہت مہلت دی گئی اور اب تیری زندگی کا کوئی دن باقی نہیں۔ وقتِ مقررہ آ پہنچا، وہ ایک ساعت کی مہلت مانگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑی ساعتیں گزریں اب کوئی ساعت نہیں۔

فرائض ادا کرنا اور گناہوں سے بچنا:

فرائض کے بارے میں چاہیے کہ آدمی جس دن سے بالغ ہوا ہے اس دن سے ایک ایک دن کا خیال کرے، اگر نماز فوت ہو گئی ہے یا کپڑا پاک نہیں رکھا، یا اس کی نیت میں فتور تھا اور یہ لا علم تھا یا عقائد میں خلل تھا تو جتنی نمازیں ہوئیں سب کی قضا کرے۔ اور جس تاریخ سے مال دار ہوا ہے اس تاریخ سے حساب کر کے جتنی زکوٰۃ نہیں دی زکوٰۃ دے، یا دی تو ہو لیکن مستحق کے حوالہ نہ کی ہو تو حساب کر کے زکوٰۃ دے۔ یا اگر رمضان کے روزں میں کوتاہی کی یا نیت بھول گیا یا اس کی شرط ادا نہیں کی تو روزوں کی بھی قضا کرے۔ جن میں شک ہے ان میں جس طرف ظن غالب ہو اسے اختیار کرے اور غور و تامل کر کے جس قدر یقینی ہو اس کا حساب کر لے، باقی قضا کرلے۔

رہ گئے گناہ تو انھیں ابتدائے بلوغ سے دیکھنا چاہیے کہ آنکھ، کان، ہاتھ، زبان، معدہ وغیرہ اعضاء سے کیا کیا گناہ کیے ہیں۔ اگر کبیرہ گناہ ہیں جیسے زنا، لواطت، چوری، شراب نوشی اور دوسرے گناہ جن پر شرعی حد واجب ہے تو ان سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ حاکم کے سامنے جا کر اقرار کرنا ضروری نہیں کہ وہ حد جاری کرے بلکہ گناہوں کو پوشیدہ رکھے۔ توبہ اور کثرت عبادت سے ان کی تلافی کرے اور ضعائر ہوں تو بھی ایسا ہی کرے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّہ حَسَنَاتِ یُذہِبنَ السَّیِّئاتِ۔(سورۃ الھود)

ترجمہ: ’’نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ‘‘

حکایت: بنی اسرائیل میں ایک شخص بڑا گنہگار تھا۔ اس نے توبہ کرنی چاہی یہ معلوم نہ تھا کہ توبہ قبول ہو گی یا نہیں۔ لوگوں نے ایک عابد کا پتہ بتایا۔ یہ عابد کے پاس گیا اور کہا کہ میں بڑا گنہگار ہوں۔ ننانوے آدمیوں کو بلا وجہ قتل کیا ہے۔ میری توبہ قبول ہو گی؟ عابد نے کہا نہیں۔ اس شخص نے اس عابد کو بھی قتل کر کے سو کا عدد پورا کر دیا۔ پھر لوگوں نے ایک عالم کا پتہ دیا۔ اس نے اس عالم سے پوچھا تو اس نے کہا ضرور ہو گی مگر اپنی زمین سے نکل جا کہ یہ فساد کی جگہ ہے اور فلاں جگہ چلا جا۔ وہاں صالح لوگ رہتے ہیں، وہ چلا تو راستے میں مر گیا۔ رحمت و عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا۔ ہر ایک نے کہا کہ اس پر ہماری ولایت ہے۔ ارحم الراحمین کا حکم ہوا کہ اس کی زمین ناپو۔ زمین جو ناپی تو وہ صالح لوگوں کی طرف بالشت بھر بڑھ چکا تھا۔ پس رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔اس سے معلوم ہوا کہ نجات کے لیے یہ شرط نہیں کہ گناہوں کا پلہ بالکل خالی ہو بلکہ نیکی کا پلہ بھاری ہونا چاہیے، اگر تھوڑا سا ہی جھکا ہو تو انشاء اللہ نجات ہو جائے گی۔(ماخوذ:کیمیائے سعادت)

شریعت اسلامیہ نے انسانیت کی تکمیل کے لئے بہت سارے طریقے بتائے جن کو زندگی میں داخل کرکے انسان معاشرہ اور خاندان کے لئے بہترین فرد ثابت ہوسکتا ہے اور کچھ چیزوں کو زندگی سے نکال کر اپنی شخصیت کو نکھار سکتا ہے دل اور زبان میں یکسانیت ہو، جھوٹ نسبت، وعدہ خلافی، بہتان تراشی، بدگمانی، مال ودولت سے بے پناہ، محبت حرص وہوس، طمع، بغض، کینہ، چوری، رشوت خوری، سود خوری، خیانت، ناپ تول میں کمی۔ حسد تکبر، ظلم وستم ان تمام سے پکی سچی توبہ کرے نفس کی بے جا خواہشیں سے بچے گالی گلوچ، فحش گوئی، بے ایمانی سے کلی طور پر پرہیز کرے حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے اس کے لئے صاحب معاملہ کو حق پہنچانے سے نجات ہوتی ہے صدق دل سے نیت ہوکر اگر کسی کا حق ہمارے ذمہ ہے تو اس کو جلد از جلد ادا کریں گے چاہے مال کی قبیل سے ہو یا اخلاقیات سے حقوق العباد کو معمولی خیال نہ کریں اس کی اہمیت کو سمجھیں اگر آپ کی کسی نے حق تلفی کی ہے تو بہتر یہی آپ اس شخص کو صدق دل او رخلوص نیت سے رضائے الہٰی کے لئے معاف کردیں یہ فعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدلہ لینے سے یقینا بہتر ہے حقوق العباد کی ادائیگی کس قدر اہم ہے اپنے والدین بیوی شوہر بچوں عزیزوں رشتہ داروں پڑوسیوں اہل محلہ یتیموں مسکینوں بیوائوں بیماروں معذوروں کے حقوق کے لئے فکر مندی کا مظاہرہ کریں توبہ میں جلدی کریں آج ہی اللہ کی طرف رجوع کریں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں ندامت کے آنسو بہائیں جو ہوگیا سوہوگیا جو باقی ہے اس کو اللہ کی اطاعت میں گذاریں جو روحانی قلبی سکون کا ذریعہ ہے اور دنیوی ضرورتوں کی تکمیل کا سبب بھی حقوق اللہ او رحقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھیں ایک مسلسل کوشش کریں مضبوط قوت ارادی ہو چاہے حالات کیسے بھی ہو لالچ کیسا ہی رشوت کتنی ہی بڑی ہو برائیوں کے قریب نہیں جانا ہے ہر فعل ہر عمل کو اللہ کے منشا اور مرضی کے مطابق کرنا ہے پھر زندگی میں خوشگوار اثرات کا ظہو رہوگا سکون قلبی حاصل ہوگا۔

جو بندہ استغفار کو لازم پکڑے (یعنی اللہ تعالیٰ سے برابر معافی مانگتا رہے) اس کو اللہ تعالیٰ ہر مشکل سے نجات دیں گے اور اس کی ہر فکر اور پریشانی دور فرمائیں گے اس کو (اپنے خزانہ غیب سے) اس طرح رزق دیں گے جس کا خود اس کو وہم وگمان نہ ہوگا۔اللہ ہم سب کو پکی سچی توبہ کی توفیق دے۔

تبصرے بند ہیں۔