دینی مدارس اور روزگار کا مسئلہ (3)

محمد عرفان ندیم

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دینی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ یہاں جو وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ ان کے لئے نعمت غیرمترقبہ ہے۔ان کے اہل خانہ کوبھی مطمئن رہناچاہئے کہ مدارس میں ان کے بچوں کو جوتعلیم دی جارہی ہے اس کی اہمیت دنیوی اور دینی دونوں اعتبارسے مسلم ہے۔ عالم دین ہونے کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ وہ صرف مدرس، مسجدکے امام اور مکتب کے استاذ بننے پرہی مجبورہیں بلکہ علم دین حاصل کرنے کا مقصدیہ ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بسرکرسکیں اور اپنے گھروالوں، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کی بھی رہنمائی کرسکیں۔ البتہ علم دین کے حصول کاتقاضہ یہ ہے کہ علماء جہاں بھی رہیں وہاں ان کی عالمانہ شان برقراررہے۔ اگرمدرسہ میں تدریس، مسجدمیں امامت یاکسی مکتب میں پڑھانے کاموقع مل جائے توٹھیک ورنہ انہیں دیگرشعبوں میں قدم رکھنے کے لئے ذہنی طورپرآمادہ رہناچاہئے اور اس کی پیشگی تیاری بھی کرنی چاہئے۔

سماجی صورتحال یہ ہے کہ آٹھ دس سال مدارس میں پڑھنے اور سندحاصل کرنے کے بعد اہل خانہ کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں لیکن دوسری طر ف حال یہ ہوتا ہے کہ ان طلباء اور علماء کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اب کرناکیاہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ حالات کے تقاضوں سے ناواقفیت، زمانہ طالب علمی میں کی جانے والی غفلت، کیریئر کونسلنگ کا فقدان اور دستیاب روزگارکے مواقع سے لاعلمی ہوتی ہے۔عام طورپردینی مدارس میں کونسلنگ کاکوئی انتظام نہیں ہوتاہے اور نہ ہی طلبہ کومستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتایاجاتاہے۔اگرچہ اس سلسلے میں گزشتہ چندسالوں سے معمولی تبدیلی آئی ہے اور کچھ طلباء نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیے مواقع پیدا کیئے ہیں لیکن یہ صورتحال آٹے میں نمک کے برابرہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ ایسا نصاب و نظام مرتب کیا جائے اورایسے شعبوں کوتلاش کیاجائے جہاں علماء اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے اپنے لیے نئے مواقع پیدا کر سکیں۔

ایک عالم دین کو دیگر شعبوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ اس کی صورت کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ درس نظامی کے نصاب کے ساتھ ساتھ وہ انگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم بھی حاصل کرے۔ آج کے دور میں انگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم کے بغیرمستقبل کی راہیں محدودہوتی جا رہی ہیں۔ اس وقت انگریزی زبان کسی مخصوص قوم، ملت یا خطے کی زبان نہیں رہ گئی ہے بلکہ اسے بین الاقوامی زبان کادرجہ حاصل ہے اوراس کی اہمیت روزروشن کی طرح واضح ہے۔ اسلام کی تبلیغ کے لئے بھی اس زبان کاجانناضروری ہے۔اس لئے مدارس کے تمام طلبہ کوانگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم بہرصورت حاصل کرنی چاہئے۔اس لیے مدارس کے فارغین خواہ وہ کسی بھی شعبے میں مصروف عمل ہوں وہ انگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم کے لئے لازماًاپناوقت نکالیں۔ مساجدکے ائمہ کوخصوصی طورپراس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد وہ خوداپنے اندرایسی تبدیلی محسوس کریں گے، جس کاتصور وہ اس کے بغیرنہیں کرسکتے ہیں۔ تبلیغ دین کے نقط نظرسے بھی دیکھیں توانگلش اور کمپیوٹرکی تعلیم کے بعدعلماء اپنے آپ کودنیاسے جوڑنے میں کامیاب رہیں گے اوران کادائرہ کارکافی وسیع ہوجائے گا۔ساتھ دنیا میں کہاں کیاہورہاہے اس کے بارے میں بھی وہ باخبرہوسکیں گے۔انگریزی اور کمپیوٹرکی تعلیم کے بعد وہ اسلام کی تعلیمات کوبین الاقوامی سطح پرعام کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ کمپیوٹرکیسے سیکھا جا سکتا ہے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اب صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے اس کے لئے جگہ جگہ مراکزقائم کررکھے ہیں۔ ان مراکزسے استفادہ کیاجاسکتاہے۔ اس کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے ادارے موجودہیں جہاں بہت کم خرچ میں کمپیوٹر اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔

انگریزی اور کمپیوٹرکی مناسب واقفیت کے بعد فوری طورپرجوفائدہ ہوگاوہ یہ کہ اس وقت بہت سے اسکولوں میں اسلامک اسٹڈیز پڑھانے کے لئے اساتذہ رکھے جارہے ہیں، کئی اسکولوں میں یہ نصاب انگلش میڈیم میں پڑھایا جاتاہے۔ اگر علماء انگلش اور کمپیوٹر سے واجبی سی مناسبت رکھتے ہوں تووہ ان اسکولوں میں آسانی کے ساتھ تدریس کے فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ اس طرح انگلش میڈیم اسکولوں کے طلبہ کوآسانی کے ساتھ اسلامیات کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے بے شمارفوائدہیں جن کااندازہ آپ کو یہ صلاحیت حاصل کرنے کے بعد ہوجائے گا۔

گرمیوں کی طویل چھٹیوں کوبھی استعمال میں لایاجاسکتاہے۔ موسم گرما میں تقریباً دو سے تین ماہ کی تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس موقع پراگرسمرکلاسیزکاانتظام کر لیاجائے اورسمر کیمپ برائے اسلامی تعلیمات   Studies  Islamic  for  Camp  Summerکااہتمام کیاجائے تو یہ ایک مصروفیت اور روز گار کااچھاذریعہ ثابت ہوسکتاہے۔ کوئی بھی اسکول کرائے پرلے کراس کا ااہتمام کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے فیس بھی وصول کی جا سکتی ہے لیکن یہ کام منظم طریقے سے کرناہوگا اور اسکولوں میں تعلیم وتعلم کاجوطریقہ ہے اس کواپناناہوگا۔ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ دینی اداروں کے فضلاء اگرکسی میدان میں سال دوسال کاتربیتی کورس یاڈپلومہ وغیرہ کرلیں تو اس سے انہیں روز گار کے مواقع ملنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔آج کل ٹیوٹا اور نیو ٹیک کے زیر اہتمام ملک بھر میں تربیتی اور پروفیشنل کورسز کروائے جا رہے ہیں۔ محترم ذوالفقار چیمہ صاحب اس ادارے کے سربراہ تھے مگر سیاسی اور حکومتی پالیسیوں کے سبب اب وہ اس ادارے سے ا لگ ہو چکے ہیں۔ ان اداروں میں کمپیوٹر، ڈیجیٹل کلاسیز، پروفیشنل کورسز اور ان جیسے دیگر تربیتی کورسزکا انتظام ہے۔اس طرح کے کورسزکرنے کے بعدطلبہ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ دنیاکتنی وسیع ہے اور ان کے لئے کہاں کہاں کیسے کیسے مواقع دستیاب ہیں۔

موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے اور کوئی ذی شعور اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ علماء اگرچاہیں تووہ اس میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ایک مشن کے طورپرکام کرناہوگا۔ میڈیا میں گھسنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ آپ اخبارات میں کسی بھی عہدے پرکام کرسکتے ہیں۔ ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، رپورٹر، ٹرانسلیٹر(مترجم)، پروف ریڈر، کمپیوٹرآپریٹر، مارکیٹنگ ایگزیکٹواورسرکولیشن آفیسروغیرہ۔ اخبارات کے تمام شعبوں میں مدارس کے فضلاء کیلئے یکساں مواقع موجود ہیں۔ کچھ اردواخبارات میں مدارس کے فارغین پہلے ہی کام کررہے ہیں، اگراس شعبے پر تھوڑی توجہ دی جائے تواس کے اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ریڈیومیں ایف ایم ریڈیو چینل کی اجازت لی جاسکتی ہے۔ ایف ایم چینل کے ذریعے سماج اور معاشرے میں اسلامی تعلیمات کاسلسلہ شروع کیاجاسکتاہے۔ یہ ایسامیدان ہے جوپوری طرح خالی  پڑاہے۔ بس سوچنے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔الیکٹرانک میڈیا میں بھی جگہ بنائی جا سکتی ہے لیکن یہ تھوڑا مشکل ہے اور اس کے لیے باقاعدہ تیاری کرنے اور منظم ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔

مدارس کے فارغین کے لیے ترجمہ نگاری کافن بھی کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔عام طورپرمدارس کے فارغین اردوزبان جانتے ہی ہیں اس لئے وہ عربی، انگلش، چینی اور ترکی زبانوں میں سے کوئی ایک زبان سیکھ کر ترجمہ نگاری کے میدان میں بہ آسانی آسکتے ہیں۔ دوزبانوں پرمہارت ہواور ترجمہ نگاری کوپیشہ بنا لیا جائے توروزگار کے لئے یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سفارت خانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، بین الاقوامی کمپنیوں، بڑے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، یونی سیف، یونیسکو، سیاحتی مقامات اوربیرونی ملکوں سے آنے والے تاجروں اوربے شمارسرکاری وغیرسرکاری اداروں کے لئے ترجمہ نگاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مدارس کے طلبہ اگرعربی زبان بولنے، عربی سے ترجمہ کرنے، عربی میں مضامین لکھنے کی صلاحیت پیداکرلیں توپورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتاہے کہ انہیں ادھرادھرہاتھ پیرمارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔قابل غورپہلویہ ہے کہ دینی اداروں میں جب ساری کتابیں عربی میں پڑھائی جاتی ہیں توآخرکیاوجہ ہے کہ ان میں عربی زبان لکھنے، بولنے اور اظہارمافی الضمیرکی صلاحیت پیدانہیں ہوتی۔ طلبہ تودور اکثر اساتذہ عربی زبان لکھنے بولنے پرقادرنہیں ہوتے۔ اس کے برعکس جوطلبہ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں انہیں ہائی اسکول تک انگریزی زبان بولنے، انگریزی میں بحث ومباحثہ کرنے اورانگریزی میں مضامین لکھنے کی صلاحیت پیداہوجاتی ہے۔ وہاں کے اساتذہ انگلش بولنے اور انگلش میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخردینی مدرسوں میں آٹھ دس برسوں میں یہ صلاحیت کیوں نہیں پیداہوپاتی ہے، آخرکمی کہاں رہ جاتی ہے؟ اس پرمدارس کے ذمہ داران، وفاق کے مسولین اور اساتذہ کومل کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مدارس کے فضلاء کے لیے ایک اہم میدان اسلامک بینکنگ کا ہے۔ اسلامک بینکنگ کامیدان کئی اعتبارسے اہم ہے، اس وقت پوری دنیامیں اسلامک بینکنگ سسٹم تیزی سے رائج ہورہاہے، ظاہرہے جیسے جیسے اس کادائرہ کار بڑھے گاویسے ویسے اسلامی اقتصادیات کے ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔علماء اگراسلامی اقتصادی نظام پراپنی گرفت مضبوط کرلیں اور اس میں مہارت حاصل کرلیں تو اس میدان میں ان کے لئے بے شمار امکانات موجود  ہیں۔ اس کیلئے اسلامی تجارت کے علاوہ ریاضی، اکنامکس اور کامرس وغیرہ کی ضروری تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

2009میں پوری دنیاکومعاشی بحران کاسامناکرناپڑاتھا، دنیا کا سارا بینکنگ سسٹم اس بحران  سے متاثر ہوا تھا لیکن اسلامک بینکنگ کواس کانقصان نہیں ہوا، وجہ غیرسودی نظام تھا۔ یہ پہلاموقع تھاجب عالمی برادری نے اسلام کے غیرسودی نظام کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس کے بعدکئی بڑے بینکوں نے اپنے ہاں اسلامک بینکنگ کے ڈیپارٹمنٹ کھولے، علماء کئی طریقوں سے اس کافائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس لئے وفاق کے مسولین اور ارباب مدارس کوچاہئے کہ وہ اپنے ہاں اسلامی طریقہ تجارت کی تعلیم پرخاص توجہ دیں۔ اس کے لئے الگ سے ڈیپارٹمنٹ قائم کریں اورماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرکے ایسے کورسیزڈیزائن کریں جنہیں پڑھ کر علماء آسانی کے ساتھ بینکوں میں ملازمت حاصل کرسکیں۔ ساتھ ہی تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں وہ شرعی نقطہ نظرسے دنیاکی رہنمائی کرنے کی صلاحیت اپنے اندرپیداکرسکیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے اور علماء اس میدان میں دنیا کی راہنمائی کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو یقینی طورپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کوبھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔اس کے علاوہ وراثت، ترکہ، خریدوفروخت، تجارت اور تمام طرح کے لین دین شرعی نقطہ نظرسے ہونے لگیں گے۔ ان مسائل کے حوالے سے اب تک جوفتوے دئے گئے ہیں اگرعلماء ان کامطالعہ کریں، انہیں سہل اندازمیں عام لوگوں کے سامنے پیش کریں اورعوام کی رہنمائی کافریضہ سر انجام دیں توسماج کی بہتری کا بہت سا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ایک اہم میدان حلال مصنوعات کی انڈسٹریزکاہے۔ ہم آئے دن سوشل میڈیاپر دیکھتے ہیں کہ فلاں پروڈکٹ میں حرام اشیاء استعمال کی گئی ہیں، فلاں مصنوعات میں الکحل کی آمیزش پائی جاتی ہے اور فلاں مصنوعات میں حرام اشیاء کااستعمال کیاجاتاہے۔ اس طرح کی ناجائزاشیاء سے مسلمانوں کوبچنے کامشورہ بھی دیاجاتاہے لیکن اس سلسلے میں کوئی منظم کوشش نہیں کی جاتی۔ اس طرح کے شکوک وشبہات سے بچنے کے لئے حلال مصنوعات کی انڈسٹریزکومتعارف کروایا جا سکتا ہے۔ یورپی ملکوں میں اس کارواج عام ہے اور وہاں کے مسلمان ہم سے زیادہ بیدارہیں۔ برصغیرپاک و ہند میں ابھی تک اس حوالے سے بیداری نہیں آئی، یہاں اگراس سلسلے میں بیداری پیداکردی جائے توحلال انڈسٹریزکے قیام کے لئے غیرمسلم تاجروں کوبھی اسلامیات کے ماہرین کی ضرورت پڑے گی جوانہیں مشورے دے سکیں گے کہ اسلامی نقطہ نظرسے کیاجائزاور کیاناجائزہے۔اس کے علاوہ حلال وحرام کے فرق کو واضح کرنے کے لئے کوئی ایساشعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں سے اس بات کی تصدیق کی جاسکے کہ کن مصنوعات میں حرام اجزاء پائے جاتے ہیں اور کن میں نہیں۔ یہ تحقیق طلب اورانتہائی اہم کام ہے جس کی طرف علماء کی توجہ بالکل نہیں ہے۔ اگرعلماء یہ فریضہ سر انجام دیں تو یہ ان کے روزگار کاایک مستقل ذریعہ بن سکتاہے۔

اس وقت جواشیائے خوردونوش مارکیٹ میں دستیاب ہیں، ان کے ریپرپراجزائے مشمولات کی فہرست ہوتی ہے، کبھی کوڈورڈ کااستعمال بھی کیاجاتاہے، مشمولات کی فہرست دیکھ کراور کوڈورڈ سے کیامراد ہے اس کی صحیح تعلیم حاصل کرکے مسلمانوں کی رہنمائی ایک اہم مسئلہ ہے۔ برطانیہ کے متعدد شاپنگ مالز میں حلال اشیاء کے لئے الگ سے سیکشن مختص کئے جاتے ہیں اور صاف لفظوں میں لکھاہوتاہے’’HALAL‘‘۔ غورطلب امریہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جواس سلسلے میں محتاط ہیں، حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ موجودہ دورمیں بہت سی چاکلیٹ، چونگم، مشروبات، بسکٹ اور کھانے پینے کی اشیاء میں شرعی طورپرحرام اجزاکااستعمال کیاجاتاہے۔اس کے علاوہ دیگراشیاء میں بھی حرام جانوروں کی چربی اور الکحل وغیرہ کااستعمال کیاجاتاہے۔چین اور دیگرغیرمسلم ملکوں سے جواشیائے خوردونوش آتی ہیں ان کے بارے میں تصورکرکے ہی کلیجہ منہ کوآنے لگتاہے۔ کیایہ عام مسلمانوں کے لئے اہم مسئلہ نہیں ہے او راس کی طرف ہمیں توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر ارباب مدارس اور مسولین وفاق اس سلسلے پر توجہ دیں توعام مسلمانوں کی راہنمائی سمیت علماکے لیے روز گار کے وسیع مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

ایک اہم طریقہ این جی وز کے ذریعے فلاحی سرگرمیوں کا ہے، علماء این جی اواور ٹرسٹ بناکرتعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی، معاشی اورادبی ہرطرح کی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسامیدان ہے جس میں آکروہ فلاحی سرگرمیوں کے علاوہ خودکفیل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر این جی اوزکی اہمیت مسلم ہے، قومی اور ریاستی حکومتوں کوہمیشہ این جی اوزکی ضرورت پڑتی ہے، قدرتی آفات کے علاوہ بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں تعلیم، صحت اور روزگار کے لئے علاقائی این جی اوزکو مدد دیتی ہیں۔ چندعلماء اور ائمہ آپس میں مل کربھی این جی اوبناسکتے ہیں اور کام کاکوئی بھی میدان منتخب کرسکتے ہیں۔ علماء اپنے فلاحی کاموں کوصرف مسلمانوں تک محدودرکھتے ہیں لیکن اگران کاموں کادائرہ دوسروں تک وسیع کردیا جائے توبرادران وطن کے مابین جودوریاں ہیں ان میں کمی آسکتی ہے اور علماء کے تعلق سے لوگوں میں جوغلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کا ازالہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

ایک میدان سیاست کا بھی ہے۔ سیاست کامیدان ایمانداراورملک و ملت کے لئے اخلاص کاجذبہ رکھنے والے علماء کے لئے پوری طرح خالی ہے۔ اگر علماء اس میدان میں نہیں آئیں گے اور ملک و قوم کی قیادت نہیں کریں گے توظاہرہے دوسرے لوگ اس پر قابض ہوجائیں  گے۔اس لئے علماء کوبہرحال  میدان میں آنا چاہئے اور کونسلرسے لے کرپارلیمنٹ تک کاسفرطے کرناچاہئے تب جاکرملک میں صاف ستھری سیاست کی بنیادرکھنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔

ان سب میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے منظم ہونااور وقت کی پابندی ازحد ضروری ہے۔ مدارس کے فارغین جب مدارس  سے نکل کردوسرے میدانوں میں جاتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتاہے کہ وہ اب تک کس دنیامیں تھے اور اب کس دنیامیں آگئے ہیں۔ اس ماحول میں جگہ بنانے کے لئے وسعت قلبی کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن عام طورپر دینی اداروں کے فارغین کچھ محدود سوچ لے کرنکلتے ہیں اورانہیں نئی جگہ ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔