افتخار راغبؔ
چھوڑیے پیچھا مرا غالب سے جا کر پوچھیے
"نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا”
…
لگ رہا ہے آگئے ہیں آج ہم سنسد بھون
"کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا”
…
آج کل کے شاعروں کی شاعری سنتے ہوئے
"صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا”
…
جان لے گی کیا حیا داری کی اب عریانیت
"سینہء شمشیر سے باہر ہے دَم شمشیر کا”
…
کام ہے پرچار میرا دیش کا سیوک ہوں میں
"مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا”
…
گھر جمائی بننے سے پہلے نہ تھی راغبؔ خبر
"موے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا”
تبصرے بند ہیں۔