اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ

ریاض فردوسی

پڑھ اپنے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔(سورہ۔العلق۔آیت۔1)

فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں، تو حضور ﷺکو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالی کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھیا،اور دوسرا نقطہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا استاد صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو،سیدنا جبرئیل ؑصرف ایک پیغام بر ہیں۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو۔ یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھامعلوم کرادیا۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے (آل عمران: 18)

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (دورِ جاہلیت کے بہترین لوگ  اسلام میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں ) متفق علیہ

 عِلم کا طَلَب کرنا ہر مسلمان مرد (و عورت)پرفرض ہے (سنن ابن ماجہ ج۱ ص۔146 حدیث۔۔۔۔224)

ایک روز رسول ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرام کے دو گروہ الگ الگ دو محفلیں منعقد کیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک محفل میں تسبیحات ہو رہی تھی اور دوسری محفل میں علمی مذاکرہ ہو رہا تھا۔ حضور پر نور ﷺدونوں کو دیکھ کر خوش ہوئے او رخود علمی مذاکرہ کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔‘‘ (ابن ماجہ:94/1)

طلب کرنا علم کا ہر مسلمان (مرد) اور (عورت) پر فرض ہے۔ (مشکوٰۃشریف)

حسن بن الربیع فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک سے پوچھاکہ ارشاد نبوی صل? الل? علي? وسلم ’’علم کا سیکھناہر مسلمان  مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ کا مطلب کیاہے؟تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلاہو تو اس کے بارے میں پہلے جان کار لوگوں سے علم حاصل کرلے۔(آداب المتعلمین)

مردوعورت پر فرض ہے جس کے مشہور الفاظ یہ ہیں ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ‘‘ (مسند ابی حنیفہ) بعض احادیث طیبہ میں لفظ ’’مسلم‘‘ کی بجائے لفظ ’’مومن‘‘ آیا ہے اور بعض میں ’’العلم‘‘ کی جگہ ’’الفقہ‘‘ کا لفظ آیا ہے اور بعض میں ’’فریضہ‘‘ کے مقام پر ’’حق‘‘ اور بعض میں ’’واجب‘‘ کا لفظ آیا ہے (جامع بیان العلم)

طالب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ‘‘ بوجہ کثرت طرق و تعدد مخارج حدیث حسن ہے۔

علمائے کرام نے علم کو امت پر مقرر کردہ فرائض میں سے شمار کیا ہے، اور اس حدیث کی تفسیر میں امام سفیان  بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ سے یوں آیا ہے: علم کا طلب اور جہاد کرنا مسلم جماعت پر فرض ہے،اور یہ  فرض ان  میں سے چند کے کرنے سے کافی ہوگا، اور انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت  میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین  کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں، تاکہ وہ ڈر جائیں۔ التوبہ: 122

ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز پر اقدام نہ کرے سوائے علم کے بارے میں سوال وجانکاری حاصل کرنے کے، تو یہی  علم حاصل کرنے والے لوگوں سے مطلوب ہے۔

اور امام احمد رحمۃ  اللہ  علیہ فرماتے ہیں کہ: جس سے نماز، روزہ،زکاۃ دین کے امور درست ہوسکیں اور اسلام کے شرائع تو ان کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے۔

علم کا ایک باب جسے آدمی سیکھتاہے میرے نزدیک ہزار رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور جب کسی طالب العلم کو علم حاصل کرتے ہو ئے موت آجائے تو وہ شہید ہے۔(الترغیب والترہیب، کتا ب العلم، رقم16، ج ۱، ص۔ 54)

تمہاراکسی کو کتابُ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ایک آیت سکھانے کے لئے جانا تمہارے لئے سو رکعتیں ادا کرنے سے بہتر ہے اور تمہارا کسی کو علم کا ایک باب سکھانے کے لئے جانا خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے تمہارے لئے ہزار رکعتیں اداکرنے سے بہترہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ، الحدیث ۹۱۲، ج ۱، ص۔۔142)۔۔حضرت ِسیِّدُنا ابودَردَاء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :’’علم کا ایک مسئلہ سیکھنا میرے نزدیک پوری رات قیام کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں :’’جو یہ کہے کہ علم کی جستجو میں رہنا جہاد نہیں اس کی رائے اور عقل ناقص ہے۔‘‘(المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح،ص۲۲)

:گھڑی بھر علم دین کے مسائل میں مذاکرہ اور گفتگو کرنا ساری رات عبادت کرنے سے افضل ہے۔ (الدرالمختاروردالمحتار،ج۹،ص۔۔482)

حضرت عمر ؓ  کا قول ہے کہ’’ہزار شب بیدار، روزہ دار عابدوں کا مر جانا ایسے عالم کی موت سے کم ہے جو خدا تعالیٰ کے حلال اور حرام کا ماہر ہو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے وہ قیامت کے دن علماء کی قدرومنزلت دیکھ کر اس کی تمنا کریں گے کہ کاش! اللہ تعالیٰ انہیں علماء کی صف میں اٹھاتا‘‘۔حسن بصری کا قول ہے کہ’’علماء کی قلم کی روشنائی شہداء کے خون کے مقابلے میں تولی جائے،تو علماء کے قلم کی روشنائی کا پلڑا بھاری نکلے گا‘‘۔حضرت ابو دردا ؓ  فرماتے ہیں ’’جویہ سمجھے کہ علم کی جستجو میں آناجانا جہاد نہیں ہے،اس کی عقل اور رائے میں نقص ہے۔‘‘ایک صحابی کاقول ہے کہ ’’اگر علم کے حصول کی کوشش کے دوران طالب علم کی موت آجائے،تو وہ شہید ہے۔

حضرت ابن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ ’’انسان کون ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’علماء‘‘۔ پھر پوچھا، ’’بادشاہ کون ہیں ؟‘‘ فرمایا: ’’زاہد‘‘ تیسری دفعہ پوچھا کہ ’’کمینے کون ہیں ؟‘‘ فرمایا: جو لوگ اپنے دین کو بیچ کر کھاتے ہیں۔ ‘‘

حسن بصری کا قول ہے: ’’اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہوتے۔ امام غزالی بے علم انسان کو تو انسان قرار دینے کے لیے تیار ہی نہیں، فرماتے ہیں : ’’بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا کہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ علم ہی ہے، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے اس کی جسمانی طاقت کی وجہ سے نہیں، انسان کے مقابلے میں اونٹ اور ہاتھی کہیں زیادہ بڑا جسم رکھتے ہیں، شیر وغیرہ اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔ بیل کا پیٹ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے او رمعمولی گوریا بھی اس سے کہیں زیادہ جنسی طاقت رکھتی ہے۔ انسان کو تو علم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم:12/1)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” اگر حصول علم سے صرف قرب الہی ملے، عالم ملائکہ  سے تعلق بنے اور ملأ الاعلی کی صحبت ملے تو یہی علم کی قدر و منزلت اور شان کے لیے کافی تھا، لیکن یہاں تو دنیا و آخرت کی عزت بھی حصول علم کیساتھ منسلک اور مشروط ہے”

تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے  لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کی زیادتی کی دعا کی تعلیم دی ہے، فرمایا’’اور کہیے اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔امام قرطبی لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی چیز علم سے افضل اور برتر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتے کہ وہ اس میں اضافہ کی دعا کریں، جیسا کہ علم طلب کرنے کا حکم دیاگیا ہے‘‘۔

سیدنا علی کرم اللہ وجہ ارشاد فرماتے ہیں، اپنے علم کو جہل میں اور یقین کو شک میں تبدیل نہ کرو۔ جب کسی چیز کے بارے میں علم ہو جائے تو اسی کے مطابق عمل کرو اور جب یقین کی منزل تک پہنچ جاؤ تو اقدام کرو۔

ایک دفعہ حضرت عمرنے نافع بن عبدالحارث کو مکہ مکرمہ کا والی بنایا تھا۔ وہ ایک بار حضرت عمرکے پاس آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ ’’اپنا نائب کس کو بنا کر آئے ہو؟‘‘ انہو ں نے بتایا: ’’ابن ابزی کو‘‘ حضرت عمرنے دریافت کیا:’’ابن ابزیٰ کون ہے؟‘‘ انہوں نے بتایا: ’’ہمارا ایک مولیٰ ہے۔‘‘ تو حضرت عمر نے فرمایا: ’’تم نے ایک مولیٰ کو نائب بنایا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’وہ قرآن کریم پڑھنے والے اور مسائل وراثت کے عالم ہیں۔ ‘‘ تب حضرت عمر نے فرمایا: ’’ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ فرماچکے ہیں اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو اوپر اٹھائے گا اور کچھ کو پست کرے گا۔‘‘ (مسلم)

 ایک دفعہ حجاج بن یوسف نے خالد بن صفوان سے پوچھا:’’بصرہ کا سردار کون ہے‘‘؟ خالد نے جواب دیا: ’’حسن‘‘ حجاج نے تعجب سے کہا:’’یہ کیوں کر ممکن ہوا حسن تو غلاموں کی اولاد ہے؟‘‘ خالد نے کہا کہ ’’حسن اس لیے سردار ہیں کہ لوگ اپنے دین میں اس کے محتاج ہیں اور وہ علم کی دنیا میں کسی قسم کے محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم!میں نے بصرہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو حسن کے حلقے میں پہنچنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔ سب کو ان کا وعظ سننے او ران سے علم حاصل کرنے کی آرزو رہتی ہے۔‘‘ یہ سن کر حجاج نے کہا: ’’واللہ! یہی سرداری ہے۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کمیل بن زیاد سے فرمایا:

’’علم مال دولت سے بہتر ہے،علم تمہاری نگہ داشت کرتا ہے، جب کہ مال و دولت کی نگہبانی تمہیں کرنی پڑتی ہے۔علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ جب کہ دولت خرچ کرنے سے کم ہوتی ہے۔ علم حاکم ہے جب کہ مال ودولت کی حیثیت محکوم کی ہے۔علم سے عالم کو زندگی میں سکون حاصل ہوتا ہے اور وفات کے بعد ذکر خیر،جب کہ مال و دولت کا کام آدمی کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔مال و دولت کے ذخیرے رکھنے والے پردہ گم نامی میں چلے گئے،جب کہ علماء زندہ و پائندہ ہیں۔ اور جب تک دنیا باقی رہے گی ان کے نام بھی باقی رہیں گے اور وہ خود تو انتقال کر چکے، لیکن ان کے علمی کارنامے زندہ ہیں ‘‘۔

 اہل بصرہ میں باہم مذاکرہ ہونے لگا۔ بعض نے کہا علم مال سے افضل ہے۔اور بعض نے کہا کہ مال علم سے افضل ہے۔ بالآخر حضرت ابن عباسؓ کی طرف آدمی بھیج کر فیصلہ چاہا گیا۔آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ’’علم افضل ہے‘‘۔قاصد بولا:اگر ان لوگوں نے دلیل مانگی تو کیا کہوں گا؟‘‘ انہوں نے فرمایا:’’کہہ دینا کہ ’’علم انبیاء کی میراث ہے اور مال فرعون کی،علم تیری حفاظت کرتا ہے۔اور مال کی تجھے حفاظت کرنی پڑے گی،اللہ تعالیٰ علم کی دولت اپنے محبوب بندوں کو ہی دیتا ہے اور مال میں یہ تخصیص نہیں۔ محبوب و مبغوض دونوں کو دیتا ہے، بلکہ مبغوض کو عموماًزیادہ دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام آدمی ایک ہی طریقے پر ہو جائیں، تو جو لوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کردیتے اور زینے بھی، جس سے وہ چڑھا کرتے ہیں۔ ‘‘علم خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا، بلکہ بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے۔مال دار جب مرجاتے ہیں، تو ان کا تذکرہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور صاحب علم مرنے کے بعد بھی زندہ جاوید رہتا ہے۔صاحب مال سے ایک ایک درہم کا سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں پر لگایا؟ اور صاحب علم کا ایک ایک حدیث پر جنت میں درجہ بڑھے گا‘‘۔

آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا

   شیخ ابراہیم ذوقؔ

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ

علم کی انتہا ہے خاموشی

 فردوس گیاوی

اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں نے علم حاصل کیا۔(سورۃ المجادلہ آیت 11)

(اے نبی ﷺ)کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (سورۃالزمر آیت9،)

آپ ﷺ کہ دے کیااندھا اور آنکھ والے برابر ہیں، کیا اندھیریاں اور روشنیاں  برابر ہو سکتی ہیں۔ ( سورۃالرعد:آیت 16)

کہہ دیجیے، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھااور دیکھنے والایا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا؟۔ (سورۃالفاطر آیت 19,20)

اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور مہاتما بدھ یا شری رام  کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم  سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت وغیرہ لیے جاتے ہیں۔ دینی تعلیم اگر پورے درس نظامیہ کے طور طریقے اور اصول و ضابطے کے ساتھ نہ دئے جائے تو طالب علم صرف بحث اور مباحثوں میں الجھ کر اپنی علمی لیاقت برباد کر دیتا ہے۔مذہبی تعلیم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت شرط اول ہے۔کیوں کہ چراغ کے ذریعے ہی تاریکی ختم کی جاتی ہے۔اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ نہ ہو تو وہ تعلیم،

تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال    

تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیاہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بے چار ے دو رکعت کے امام

اقبال کو دینی عالموں سے جو توقع ہے اور ان کے علم کا جو تقاضا ہے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح اور صحیح تعلیم و تربیت ہے اسی لیے وہ تمام تر مایوسی کے باوجود دعوت دیتے ہیں،

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت

دی ان کو سبق خود شکنی خود نگر ی کا

اس کے بر عکس جو عصری تعلیم دینی جذبے کے بغیر ہے اسے صرف گمراہ کہا جا سکتا ہے۔جوتعلیم سراسر مادیت پر مبنی ہے اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ اقبال کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی جو اب مکمل طور پر کامیاب ہو چکی ہے۔جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر چکی ہے(الا ماشاء اللہ)۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ  ہے،اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفر ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

۔

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب االعین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔ یہ تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گرفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ دنیا جھوٹے معیار زندگی، باطل  نظریات اور گمراہ اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس کے نتائج میں فطری حریت، دلیری، شجاعت اور بلند پروازی ہمارے کردار سے ناپید ہوجاتی ہے۔اور ہمارے درمیان احساس کمتری اور بزدلی فروغ پاکر ملت کا شیرازہ تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے

قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش

فیض فطر ت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا

جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش

۔

اٹھا کے پھینک دو ساقی یہ ساغر و مینا    

    یہ سب فضول ہیں آنکھوں میں جب خمار نہیں

متاع دین و دنیا کو نیلام ہی کرنا ہے تو چند دن کی زندگی کے عوض کیوں ؟ ہمیشہ ہمیش کی آخروی زندگی پر اسے فروخت کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے جنّت کا وعدہ ہے، اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے (سورۃ توبہ۔آئت۔111)

بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں۔ آپ ﷺنے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جنت! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑپر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ ؑپر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔

عطار ہو، رومی ہو رازی ہو غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی 

(ماخوذ۔۔۔تفسیر ابن کثیر،تفسیرجلالین، تفہیم القرآن۔ نہج البلاغہ۔ادارئہ دائرہ المعارف، مضمون۔۔مولانامحمدسمیع الحق جدون و دیگر مضامین سے)

تبصرے بند ہیں۔