افتخار راغبؔ
راہِ گماں کے پاس، دیارِ یقیں سے دور
کیا شہرِ اہلِ عقل ہے دل کی زمیں سے دور
۔
حزن و ملال سے بھی ہو سرشار میرا دل
امید کا دِیا نہ ہو قلبِ حزیں سے دور
۔
جاتا نہیں میں کوے رفاقت کو چھوڑ کر
ہوتا نہیں یہ داغِ ملامت جبیں سے دور
۔
ہو کر بھی دور چاند سے لپٹی ہے چاندنی
کس طرح اپنے دل کو کروں دل نشیں سے دور
۔
حیران اس قدر نہ ہو اے فاصلہ پسند
چشمِ خیال کی ہے پہنچ دور بیں سے دور
۔
نازل ہوں کچھ انوکھے خیالات قلب پر
بھر پاؤں ایک جست زمان و زمیں سے دور
۔
دل میں ہے روشنی تو منوّر ہے دو جہاں
شوقِ مکانِ دل نہ ہو قلبِ مکیں سے دور
۔
راغب کہاں ہے رخنہ کوئی راہِ دید میں
گوشہ کوئی زمیں کا کہاں اب کہیں سے دور
تبصرے بند ہیں۔