افغانستان : کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ڈاکٹر سلیم خان

21ویں صدی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سوا دو سو سال بعد امریکہ کا قومی دن بدل دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے فی الحال ۱۱ ستمبر کو4؍جولائی سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ قارئین پریشان ہوں گے کہ درمیان میں 4؍جولائی کہاں سے آگیا ؟ جبکہ ۱۱ ستمبر کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس  کی بابت تو اتنا کچھ لکھا ، پڑھا ، بولا، سنا  اوروہ سب بھی   منسوب کیا جاچکا ہے جس کا اس سے کوئی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ 15؍ اگست کی مانند 4؍جولائیریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی کا دن ہے۔ 1776 کواسی دن امریکہ نے برطانویغلامی  کا قلاوہ اپنی گردن سے نکال کر پھینک دیا تھا۔  اس دن برطانوی نسل پرستانہ، سرمایہ دارانہ اور استحصالی استعمار سےنجات حاصل کرکے ایک  آزاد ریاست عالم وجود میں آئی لیکن چونکہ وہ خود بھی انہیں فرسودہ نظریات کی حامل تھی اس لیے پرانی شراب کو ایک نیا پیمانہ میسر آگیا۔ آگے چل کرامریکی سامراج نے برطانوی استعمار کی جگہ لے لی  اور ایک ناقابل ِتسخیر طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

11؍ ستمبر 2001 کو دنیا کے نقشے سے امریکہ کی شناخت سمجھے جانے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کےجڑواں ٹاور زمین بوس ہوگئے۔  امریکہ نے اس رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر فوج کشی کردی اور 20؍ سال کے بعد سوویت یونین کی مانند اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے لوٹ رہا ہے۔ کاش کہ سوویت یونین  کے تباہ کن  انجام سے عبرت پکڑ کر  وہ اپنے کو روکتا تو آج اس رسوائی سے بچ جاتا۔ امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں اپنا فوجی مشن 31؍  اگست تک ختم کر چاہتے ہیں تاکہ  اس  سال  گیارہ ستمبر کی نوعیت بدل جائے اور جو تاریک رات  20؍ سال قبل شروع ہوئی  تھی  اس کی صبح کا اعلان کردیا جائے۔  اس موقع پر بائیڈن نے اعتراف کیا کہ،”ہم افغانستان میں ملک کی تعمیر کرنے نہیں گئے تھے۔ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا افغان رہنماوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ ایک ساتھ مل کر فیصلہ کریں کہ انہیں اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔‘‘ کاش کے یہ بات جارج ڈبلیو بش کو 20؍ سال قبل سمجھ میں آجاتی تو عالم انسانیت اس  عظیم تباہ کاری سے بچ جاتی جس کو ایک فرضی  رقابت اور انتقام کی آگ نے جنم دیا تھا۔

اس وقت کسے خبر تھی کہ  یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ثابت  ہو گی اور کس کے خواب و خیال میں یہ بات تھی کہ اس میں امریکہ کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تھک ہار کر اقتدار انہیں لوگوں کو سونپنا پڑے گا جن کو بے دخل کرنے کی خاطر وہ سارے یوروپ کت ہمراہ ناٹو کے پرچم تلے افغانستان  میں داخل ہواہے۔ اللہ کی مشیت کا یہ عظیم معجزہ ہے کہ  طالبان کو دوبارہ  اقتدار سے نواز ہ جارہا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے ‘‘، ساری دنیا ماسکو میں طالبان کے اس اعلان پر ایمان لارہی ہے کہ 85 فیصد افغانستان ان کے قبضے میں آچکا ہے۔ ’’ (کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے ) عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے‘‘۔ان لوگوں کے اقتدار کا راستہ ہموار ہوگیا جو کبھی طورہ بورہ کی سنگلاخ پہاڑیوں میں روپوش ہونے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ اسی کی بابت آگے فرمایا :’’بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

گردش ایام کے اس الٹ پھیر کے دوران  یہ تلقین بھی کی گئی :’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں،جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔ امریکہ اور ناٹو کو  جن لوگوں نے اپنا رفیق و دمساز بنایا تھا آج وہ تنہا ہو گئے ہیں۔  ان کے دوست بھاگ کھڑے ہوئے اور اقتدار 15فیصد تک سمٹ گیا اور مزید سمٹتا جارہا ہے  بعید نہیں کہ بہت جلد صفر پر آجائے۔ اس کے ساتھ یہ رعایت ضرور دی گئی  تھی کہ :’’ ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ‘‘۔ ساری دنیا سے بے خوف ہوکر  باطل سے سینہ سپر ہونے والے طالبان کو   اللہ تعالیٰ نے عظیم  کامیابی و کامرانی سے نواز  کر بتا دیا کہ بھلائی  اسی کے  اختیار میں ہے اور  بیشک وہ  ہر چیز پر قادر ہے۔

 پھولوں کا سیج نظر آنے والی یہ فتح 20؍ سال قبل کانٹوں کا تاج تھی۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے مطابق سن 2001 میں شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 2448؍ امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میںیہ جنگ اب تک دو لاکھ 41 ہزار سے زیادہ انسانی جانیں نگل چکی ہے، جس میں 71 ہزار سے زیادہ عام شہری ہیں۔ ان اعدادو شمار کا اگر 11 ستمبر کے دن  نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے سے موازنہ کیا جائے کہ  جس میں مجموعی طور پر 2996 لوگ مارے گئے تو انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ امریکہ نے اس جارحیت پر  دو ٹریلین سے زیادہ رقم صرف کی ہےاور  حالیہ رائے عامہ کے جائزے گواہی دے رہے  کہ بیشتر  امریکی افغانستان سے انخلاء   کی تائید کرتے ہیں یعنی نہ صرف سرکاری  بلکہ عوامی سطح پر اس شکست کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔

 سال2001؍ میں  8 ؍اکتوبر کو جب  امریکہ نے افغانستان میں  فضائی حملے شروع کیے تو طالبان اپنے شہروں سے یکے بعد دیگرے  بے دخل ہوتے  چلے گئے یہاں تک کہ آخری مضبوط گڑھ قندھار  بھی ہاتھ سے نکل گیا ۔ اسلام سے پرخاش رکھنے والے یار دوستوں  نے تو  طالبان کا فاتحہ پڑھ دیا اور طرح طرح کے لطیفے گھڑنے لگے لیکن کشمکش کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ 20 سال گزر جانے کے بعد  بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں کی  وہ  توقعات پوری نہیں ہو سکیں جن کا خواب دیکھا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ منتشر  طالبان پھر سے منظم ہوگئے۔ افغانستان کے مختلف حصوں میں ان کا  اثر و رسوخ بڑھتے بڑھتے  اب 85 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ان 20؍سالوں میں امریکی سیاست خوب قلابازیاں کھاتی رہی۔ اس عرصے میں  چار مختلف امریکی صدور  اقتدار پر فائز ہوئے۔ان میں جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ریپبلکن پارٹی نیز براک اوباماوموجودہ صدر جو بائیڈنڈیموکریٹ سے  ہے۔

  افغانستان کے حوالے سے ان  سب میں عقلمند ترین    جارج بش تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے بھانپ لیا کہ افغانیوں کو ہرانا ناممکن ہے  اور امریکی عوام شکست خوردہ صدر کو  دوبارہ منتخب نہیں کریں گے اس   لیے عمومی تباہیکے ہتھیار  کا الزام لگا کر اپنے اتحادیوں کی مدد سے عراق کے خلاف جنگ چھیڑ دیتاکہ  افغانستان کا معاملہ پس منظر میں چلا جائے۔ صدام حسین جیسے نرم چارہ کو شکست دے کر  وہ دوبارہ انتخاب  جیت گئے۔  ان  کے بعد ڈیموکریٹ صدر براک اوباما آئے تو امید تھی عقل کے ناخن لیں گے لیکن   انہوں  نے خلاف توقع فوجیوں  کی تعداد بڑھا کر  ایک لاکھ سے زیادہ کردی۔  براک اوبامہ  جیسے پڑھے لکھے انسان نے دوبارہ منتخب ہونے کی خاطر  سب سے زیادہ مضحکہ خیز حرکت کی۔ ان کے ذریعہ اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ  اگر سچ ہوتا اور مہلوک  شخص واقعی اسامہ ہوتے  تو ان کی لاش کو    سمندر میں غرقاب کرنے کے بجائے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نمائش گاہ کے اندر شیشے کے تابوت میں   رکھا جاتا تاکہ  ساری  دنیا کو دکھایا جاسکے کہ  امریکہ کس طرح انتقام لیتا ہے لیکن  اس جھوٹ کر دریا برد کردیا گیا۔

اوباما کے بعد آنے والے صدر ٹرمپ نے شروع میں افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلا  نے کا ارادہ رکھتے تھے  لیکن سیاسی نقصان کے خوف سے بہانے بازی کرتے  رہے۔ صدر جو بائیڈن نے بالآخر  8 ؍جولائی 2021 کو اعلان کردیا کہ افغانستان میں امریکہ کا مشن 31؍ اگست کو ختم ہو جائے گا۔ اس طرح گویا انہوں نے  11 ستمبر 2021 سے پہلے افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کی  وطن واپسی کا  وعدہ نبھا دیا۔ اس موقع پر ان کی شکست خوردگی کا یہ عالم ہے کہ مایوس صدر بائیڈن کہہ رہے ہیں ’’  ہم افغانستان میں انخلا کے لیے سازگار حالات پیدا ہونے کی توقع پر اپنی فوجی موجودگی کی مدت یا تعداد بڑھانے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ میں چوتھا امریکی صدر ہوں جس کے دور میں افغانستان میں امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔ میںیہ ذمہ داری پانچویں امریکی صدر کو سونپ کر نہیں جاؤں گا۔افغانستان میں مزید ایک سال لڑائی اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے ہم وہاں ہمیشہ کے لیے لڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔”  انہوں نے مزید کہا،” میں ایک مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں بھیجوں گا۔ آپ مزید کتنے، کتنے ہزار بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔“ یہ واضح  اعترافِ شکست نہیں تو اور کیا ہے؟

ایک زمانے میں طالبان کے خلاف جن لوگوں نے امریکہ پر بھروسا کیا تھا ان کے لیے  جو بائیڈن کا پیغام یہ ہے کہ وہ  طالبان پر اعتبار   نہیں کرتے  لیکن انہیں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کی فوجی صلاحیت پر بھروسا ہے۔ اس  بات کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی صدر نے ان  اطلاعات کی تردید کی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس قریب 75 ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ چار گنا زیادہ امریکی تربیت یافتہ فوج کا قبضہ امریکی موجودگی کے باوجود  صرف 15 فیصد علاقہ تک کیوں سمٹ گیا؟اسی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وہ تین لاکھ تربیت یافتہ فوج کی حامل   افغان حکومت  کو  طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کی تلقین کیوں کرتے ہیں۔ قصر ابیض کی  پریس سیکریٹری جین ساکی کو اب کہنا پڑ رہا ہے چونکہ  صدر جو بائیڈن کے نزدیک  اس 20 سالہ جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہےاس لیےامریکہ  افغانستان کے تنازعے کو سفارتی گفتگو سے حل کرنے کا حامی ہے۔ اس  احساسِ  ندامت پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

تبصرے بند ہیں۔