رب کا گھر بتوں کو بھی کوئی دیتا ہے کیا؟

ڈاکٹر سلیم خان

خالق کائنات کی ودیعت کردہ صلاحتیوں  کے سبب  ہر فرد قابلِ احترام ہے۔اجتماعیت اس کے اندر شامل افراد اور اغراض ومقاصد کی وجہ سے قابلِ تعظیم ہوتی ہے اور مقصد اعلیٰ  اپنی رفعت و بلندی کے لحاظ سے مکرم و محترم  ہوتاہے۔ افراد کی خوبیاں اور خامیاں ان  ذات کی حد تک ہوتی ہیں۔ ان کے باعث ہونے والے فائدے اور نقصانات  کے حدودواربع  بھی متعین  ہوتے ہیں۔ اس لیے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے فرد کا دائرۂ کار محدود ہے۔ کسی  کےانفرادی کارِ خیر میں  کوئی اورشریک نہیں ہوسکتااگر کوئی  تعاون یا اتباع   کرےتو وہ دوسرے  فرد کا اپنا عمل ہوجاتا ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے اور اس کی جزا کا سزا وار ہے۔ عوام و خواص دونوں  اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں الہامی  اصول و ضابطے  کے پابند ہیں۔

اعلیٰ و رفع  مقاصد کے حصول کی خاطر صالح اجتماعیت  کا قیام  عمل میں آتا ہے۔ اجتماعیت کی قدروقیمت کا اندازہ  اس کےنصب العین  کی وسعت و پاکیزگی نیز اس میں شامل افراد کی صلاحیت و صالحیت  سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ فطرتاً ہر اجتماعیت کی طرف  اس کے اغراض و مقاصد میں دلچسپی  رکھنے والے  لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔  اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرنے والے مخلص افراد ازخود باہم منظم ہوجاتے ہیں۔ نظم وضبط کے بغیر  اجتماعیت قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اجتماعی تربیت سےفکری ہم آہنگی جنم لیتی اور صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اللہ کا ہاتھ باہمی مشورے سےچلنے  والی اجتماعیت کو مؤثر اور طاقتور بناتا ہے۔ اس لیے بڑے سے بڑےمتقی و پرہیزگار کا کارنامہ ایک صالح گروہ  کی کارکردگی  کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اجتماعیت کی عمر افراد کی بہ نسبت  طویل تر ہوتی ہے، چونکہ  اس میں  تازہ  خون شامل ہوتا رہتاہے اس لیے وہ تادیر جوان رہتی ہے۔

افراد و اجتماعیت کے لیے مقصد کی اہمیت روح کی ہوتی ہے۔ وہ نظر تو نہیں آتی مگر اس کے نکل جانے سے دونوں بے جان ہوجاتے ہیں۔ مقصد کی وسعت و ہمہ گیری  بے پایاں ہے۔ کسی مقصد جلیل  کی خاطر ایک ہی وقت میں کئی تحریکات  اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوسکتی ہیں۔ کوئی  تنظیم یا تحریک اگر گردشِ زمانہ کا شکار ہوکر ختم  بھی ہوجائے  تب بھی اس کی روح زندہ اور تابندہ رہتی ہے۔ نئے  زمانے میں دائمی نصب العین  کو نئی تحریکات آگے بڑھاتی ہیں۔ قدیم جاوداں مقصد جب جدید تقاضوں  کے سانچے میں ڈھل کر نیا حوصلہ اور امنگ پیدا کرتا ہے۔ زمان و مکان کے حدود اور قیود سے فروتر  ہونے کے سبب مقصدکو فرد اور اجتماعیت  پر سبقت حاصل  ہے۔

امت کے موجودہ خلفشار میں مولانا سلمان ندوی ایک فرد ہیں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حیثیت اجتماعیت کی ہے۔ بابری مسجد شعائر اسلام ہے اور اس کی بازیابی کا مقصد کو ان دونوں پر فائق  ہے۔ رب کائنات اپنے اذنِ خاص سے  مسلم پرسنل بورڈ کے ہاتھوں بھی  مسجد کی تعمیر کرواسکتا ہے  لیکن اگر مشیت کو یہ منظور نہ ہو تب بھی ہماری آئندہ نسلیں اس جدوجہد کو جاری رکھیں گی  اوراس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک اللہ کا گھر دوبارہ  اسی مقام پرتعمیر نہ ہوجائے۔  بابری مسجد کو شہید ہوتے ہوئے  دیکھنے والی آنکھوں کو قلبی سکون اسی وقت ملے گا جب ان کے سماعتیں اسی مسجدکے میناروں  سے اذان  سنیں گی۔  بابری مسجد کی شہادت پر  معروف شاعر پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا یہ نوحہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے؎

یہ مسجد آج بھی زندہ ہے اہل دل کے سینوں میں

خبر بھی  ہے  تجھے مسجد  کا پیکر  توڑنے   والے

ابھی یہ سر زمین خالی نہیں ہے نیک بندوں  سے

ابھی موجود ہیں ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔