غزل

جلیل عالی

بھلا کب لوگ اپنے اپنے ڈھب کے چاہئیے ہیں

وہ جیسے چاہتا ہے اس کو ویسے چاہئیے ہیں

۔

بہاو موسماتی فیصلوں کا کہہ رہا ہے

کسی کو اپنی مرضی کے نتیجے چاہئیے ہیں

۔

دکھائی دے نہ پائیں جو کھلی آنکھوں کسی کو

کچھ اس انداز کے سوچوں پہ پہرے چاہئیے ہیں

۔

یہ پھر بہتی ندی کا رخ کیا تبدیل کس نے

درختوں اور دریچوں کو نتارے چاہئیے ہیں

۔

سمجھنے سوچنے والوں کو بستی سے نکالو

جو چابی سے چلیں ایسے کھلونے چاہئیے ہیں

۔

وہ امن اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے سو اس کو

بہم دست و گریباں رہنے والے چاہئیے ہیں

تبصرے بند ہیں۔