مذہبی منافرت کا خاتمہ ضروری ہے!

ڈاکٹر ظفر دارک

ہندوستان کثرت وجود رنگا رنگی اور تعدد ادیان کا  شاندار مرکز و محور ہے، نیز مختلف قوموں فرقوں طبقات  کے باہم متحد رہنے کی روایت  ہندوستان کی تہذیب میں چار چاں د لگاتی ہیں ، گویا مختلف لسانی، تہذیبی، نسلی، مذہبی اور معاشرتی تعدد ہندوستان کی صدیوں پرانی پہچان ہے  ہمارا یہ امتیاز  دنیا کی تمام انسانیت کی نظروں کو خیرہ کررہا ہے۔ ہمارے اس عجیب و غریب ملک میں سات سو سے زائد بولیاں بولی جاتی ہیں ۔ سینتالیس سے زیادہ زبانوں میں اعلی ادب کی تخلیق ہوتی ہے اور قومی سطح پر پندرہ زبانیں تسلیم شدہ ہیں ۔ ہندوستانی کہلانے والی ہر چیز چاہے وہ لفظ ہو، خیال ہو، فنون لطیفہ کی کوئی شکل ہو، سیاسی ادارہ ہو یا سماجی تہذیبی روایت یا معاشرتی چلن، ہر وہ چیز جسے ہم ہندوستانی سے تعبیر کرتے ہیں مختلف النوع عناصر سے مرکب ملے گی۔ عید کا تہوار ہو، دیوالی اور ہولی کی خوشیاں ہوں، کربلا کا ماتم ہو، پونگل اور دسہرا ہو۔ ہر ایک خوشی، غم، رسم، تہوار، ہندوستانیت کے رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔

ہندوستان میں اختلافات کی کثرت ہے۔ اس کے باوجود تاریخ کے مختلف ادوار میں ہمیں ہندوستانی کلچر کی تعمیر و تزئین میں ایک نمایاں جذبہ اتحادہے جو یہاں کی درو دیوار میں مضمر ہے جس سے زندگی کے مراحل باہمی تعاون ہمدردی خوش اسلوبی اور انسانیت کی بنیاد پر استوار کرنا ہمارے ملک کی اعلی قدریں ہیں ان پاکیزہ عناصر سے سماج کے تمام طبقات میں مضبوطی آتی ہے اور رشتوں میں خیر خواہی کا احساس جا گزیں ہوجاتا ہے۔ یہی اندرونی جذبہ اتحاد  ہندوستان کی تعمیر ترقی  کا امتیازی وصف ہے  ہندوستان جیسا وسیع و عریض ملک، اتنی کثیر آبادی جو انگنت طبقات واقوام میں  بٹی ہوئی ہیں اور  لسانی و جغرافیائی  اختلافات کے باوجود ایک ملک اسی لئے کہلاتا ہے کہ اس ملک میں ہندوستانیت کا ایک غیر مرئی احساس پایا جاتا ہے، جو انیکتا میں ایکتا پیدا کرتا ہے ۔ رنگارنگی میں یک رنگی کی شان لاتا ہے اور اسے اس طرح جاذب نظر بناتا ہے کہ اختلاف کے تمام  شعلے بجھ جاتے ہیں اور بقائے باہم انسان دوستی کی درخشاں روایت قائم ہو جاتی ہے۔

 مختلف قوموں اور لسانی گروہوں کے ارتباط باہمی اور اختلاط و اشتراک کے براہ راست نتیجہ کے طور پرگنگا جمنی تہذیب  وجود میں آئی ہے اس  میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی  خلوص وفا کی  لچک موجود ہے جس سے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحا د میں مزید اضا فہ ہوتا ہے،اور ایک دوسرے کے لئے  جی داری امن و امان کا قیام اور بھائ چارگی کو فروغ دینا مقصود ہے، یہ صفات از منۂ قدیم سے ہندوستانی تمدن کا طرہ امتیاز رہی ہیں ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تمدن (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) میں فرق ہے۔ ڈاکٹر ہمایوں کبیر کے الفاظ میں تہذیب زندگی کی وہ تنظیم ہے جو مہذب معاشرہ کو ممکن بناتی ہے اور کلچر یا تمدن اسی قسم کی تنظیم کا نتیجہ ہے اور یہ نتیجہ (تمدن) زبان، فن، فلسفہ، مذہب، سماجی عادات، معاشرتی رسوم و رواج، سیاسی اداروں اور اقتصادی و تعلیمی تنظیم کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔ علحدہ علحدہ ان میں سے کوئی بھی کلچر (تمدن) نہیں ہے لیکن وہ سب مل کر کلچر (تمدن) کی تعمیر کرتے ہیں ۔ تمدن تہذیب کا ثمر ہے۔ اسی لئے تہذیب کے بغیر تمدن کا تصور ناممکن ہے لیکن ایسی تہذیبوں کا وجود ممکن ہے جن کا کلچر ابھی تک ترقی نہ کرپایا ہو۔

جب ہم ہندوستانی تمدن کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ ترقی یافتہ تہذیب کا نتیجہ ہے اور اس تمدن میں جو رنگارنگی و یگانگت، رواداری اور برداشت و تحمل کی روایات ہیں وہ صدیوں کے تہذیبی اختلاط کا نتیجہ ہیں اور اسی ہندوستانی تمدن کی واحد مظہر ہمارے ملک کی جمہوریت  ہے۔ اس میں نہ تو مبالغہ آرائی ہے اور نہ ہی طرف داری ہے کیونکہ یہ ایک تہذیبی تاریخی حقیقت کا اظہار ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ وہ ملک ہے    جہاں قدم قدم پر الگ الگ زبانوں، تہذیبوں ، نسلوں، ذاتوں اور مذہبوں سے واسطہ پڑتا ہے، چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی روادار ی کو فروغ دیا جائے باہم مذاب کا احترام کیا جا ئے کسی بھی طبقہ کے افراد کے ساتھ ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار نہیں کیا جائے کیونکہطرف داری  سے  ملک کی جمہوری قدریں متائثر ہوتی ہیں جوملک کی بقائو  سالمیت کے لئےمفید نہیں ہے نیز معاشرہ کا امن وامان  بھی سوالوں کے گھیرے میں آجاتا ہے اس لئے  تعمیری فکر اور عدل و انصاف کا رویہ اپنا نا ملک کے فلاح بہبود میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے حکمراں طبقہ کی اولیں ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کے ساتھ برابری اور تحفظ کے لئے فضا کو ہموار کرے تاکہ ہندوستانی معاشرہ میں تحمل برداشت رواداری  کی فضا ہموار ہو اور ایک دوسرے کے نظریات کو انگیز کیا جاسکے جو ہماری صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے

 آج ایسے افراد کی سخت ضرورت ہے جو ہندوستان کے غیر متجانس، کثیر الثقافتی معاشرہ میں وحدت کے گیت عام کریں، تاکہ اتحاد کا درس عام ہو   اور دلوں کوالفت و محبت کی   زنجیر میں پرویا جاسکے یہ اوصاف حمیدہ معاشرہ میں جمہوری قدروں کو استحکام بخشنے میں معین و مددگار ثابت ہونگے۔

   ہندوستانی تمدن کے نمائندہ رجحانات کے  علمبردار افراد کو متحد ہو کر نفرت عدم رواداری زیادتی اور ظلم کے خلاف بر سر پیکار ہو نے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ آج ملک میں بڑی تیزی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو پاش پاش کرنے کی کو شش کیجا رہی ہے_ افسوس اس بات کا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کا گندا کارو بار کیا جارہا ہے جومعاشرہ کی بھائ چارگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اسی پر بس نہیں بلکہ سنگھی نظریات کو معاشرہ کے تمام افراد پر تھوپنے کی سازش رچی جارہی ہے تصور کیجئے اگر ملک کی رنگا رنگی ایک رنگ میں رنگ جائے تو بھلا بتاؤ ملک کا جمہوری نظام کیسے چل سکتا ہے موجودہ نظریات کے خلاف سیکولر افراد کو ایک بار پھر یکجا ہو نا ضروری ہے۔

جہاں تک قومی یکجہتی کا تعلق ہے تو ہاں اس حقیقت کا بخوبی سمجھ لینا ضروری ہے  کہ قومی یکجہتی سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایک غالب اکثریت کی تہذیب میں دوسری اقلیتوں کی تہذیبوں کو مدغم کردیا جائے اور اس طرح ان کی انفرادیت کو ختم کرکے ہم آہنگی اور یکجہتی کو قائم کرنے کا دعوی کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ دعوی باطل ہے۔ کیونکہ  ساتوں رنگ الگ الگ اپنی بہار دکھاتے ہوئے بھلے لگتے ہیں ۔ اگر ساتوں رنگوں کو زبردستی ملادیا جائے تو سیاہی کے علاوہ کیا حاصل ہوگا؟

قومی یکجہتی سے مراد تو یہ ہے کہ مقصد یت کو مد نظر رکھتے ہوئے ربط و اتحاد کی تابناک فضا ہموار کیجائے تاکہ  بھائی چارگی کو مضبوط مستحکم کیا جاسکے اور   مختلف تہذیبی و ثقافتی طبقات واقوام کی انفرادیت اورجدا گانہ حیثیت کا امتزاج نہ صرف باقی رہے  بلکہ انسانیت کے دشمنوں کو منھ توڑ جواب مل سکے۔  اور ہمارے ملک میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے-  کہ وہ اس ملک میں بسنے والی مختلف تہذیبی، نسلی، لسانی، مذہبی اور علاقائی اکائیوں کے درمیان جوڑنے والی کڑی کا کام دے سکتی ہے اور اسی لئے وہ قومی یکجہتی کی حقیقی مظہر ہے۔

ہندو مذہب کے ممتاز دانشور اور  بلند پایہ اسکالر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے  لکھا ہے:

’’ہندوستان کی کئی ہزار سال کی تہذیبی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ارباب قوت کے جبر و تشدد سے نہیں بلکہ عارفوں کے وجدان سے، فلسفیوں کی فکر سے، زاہدوں کی ریاضت سے اور فنکاروں کے تخیل سے پیدا ہوا ہے‘‘۔

جناب رادھا کرشنن کا یہ نظریہ  عدم برداشت و عدم تحمل کے حامیوں کے لئے اور ملک میں سیکولر نظام کے مخالفوں پر کاری ضرب ہے-

اگر ہم  ہندوستان کی  تاریخ، اس کی ابتدا اور اس کے عہد بعہد ارتقاء پر نظر ڈالتے  ہیں تو اس حقیقت سے بخوبی آشکار ہوتے ہیں کہ ہندوستان کا خمیر  جن ہاتھوں نے گوندھا ہے وہ عارفوں ، فلسفیوں ، زاہدوں ، سنیاسیوں ، صوفیوں اور فقیروں کے ہاتھ تھے، ارباب قوت و سیاست، بادشاہوں اور حکمرانوں کے ہاتھ نہیں تھے۔ یعنی ہندوستان کا رنگ تو مرہون منت ہے یہاں  کی گنگاجمنی تہذیب پر جس پر عمل پیرا ہو کر شیخ و برہمن ایک دوسرے کے امتیازی اوصاف کا احترام کرتے ہوئے زندگی گذارنے کا سلیقہ رکھتےہیں ۔ ہندوستان دنیا کا وہ  واحد ملک  ہے جو جغرافیائ، مذہبی، نسلی اور ذات پات کی حد بندیوں کے با وجود تمام مذاہب و مسالک کی قدر واحترام کا ضامن ہے حیرت اس بات کی ہے آج ساورکر جیسے متشدد افکار وخالات کے حامی ہمارے اکابر کی پاکیزہ روایات کو اپنے مفادات اور تعصب کی بھٹی میں جھنک رہے ہیں  ۔  یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی تمام اقوام  کسی نہ کسی علاقے سے یا مذہب سے وابستہ ہیں اس کے باوجود ہماری تاریخ میں کہیں بھید بھاؤ اونچ نیچ نہیں ملتی  ہے البتہ کچھ عرصے سے ہندوستان جیسی مقدس سر زمین میں یہان کی عوام کو ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے کی کاوش کی جارہی ہے در اصل ان زعفرانی طاقتوں کا پورا کارو بار ہندو مسلم نفرت میں ہی منحصر ہے آج کل جس طرح کا ماہحول پیدا کیا جارہا ہے اس کو ملیا میٹ کرنی کی سخت ضرورت ہے  ۔ ادھر ملک میں لو جھاد کے نام پر اقلیت خصوصا مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے جو انتہائ غلط طریقہ ہے مگر اب یہ اصطلاح  پرانی ہوگئ ہے اس لئے وشو ہندو پریشد نے ایک نیا شوشہ لینڈ جہاد کا چھو ڑا ہے اس کے مطابق اب کوئ مسلمان ہندو کی زمین نہیں خرید سکتا ہے اور نہ کوئ مسلمان ہندو محلہ میں رہا ئش اختیار کرسکتا ہے کیونکہ سنگھ پریوار کو لگتا ہے کہ اس طرح مسلمان ہندوئو ں کی زمین پر قابض ہو جائنگےاس کی مثال شہر میرٹھ میں سامنے آئ جب سنجو رستوگی نے اپنا پرانا مکان کسی مسلمان کو فروخت کرنا چاہا تو وشو ہندق پریشد کے  افراد نے ہنگامہ کھڑا کردیا جس کی وجہ سے گھر فروخت نہیں ہو سکا حالانکہ پولس معاملہ میں لیپا پوتی کررہی ہے اس کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا- اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس حد تک ہندو مسلم نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں – اسی طرح گزشتہ دنوں مسیحی برادری پر حملے ہوئے وہ بھی کافی تکلیف دہ ہیں 14 دسمبر کو مدھیہ پردیش کے ستنا میں مبینہ تبدیلی مذہب کے الزام میں کرسمس کی تیاریوں میں مصروف عیسائ کمیونٹی اور پادری کو نفرت کا شکار بنایا گیا حد تو یہ کہ یہاں حملہ آوروں نے پولس اسٹیشن کے احاطہ میں پادری کی گاڑی کو آگ کے حوالے کردیا تھا اس کے با وجود پولس نے مجرموں کے بجائے بے گناہ اور غریب لوگوں کو گرفتار کیا یقینا یہ حالات ملک کی اقتصادی تعمیری اور معا شی ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہیں اور ملک میں بد امنی بے چینی خوف و ہراس پیدا کر نے کے لئے کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ اکثر طبقہ یہان کی رنگا رنگی اور بقائے باہم کے اصولوں پر ایما رکھتا ہے مثلا آج بھی  ہندو مسلم نفرت کے خلاف  ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، بودھ، جین، آریہ سماج  وغیرہ سبھی اقوام  مل جل کر نفرت کی کھیتی کے خلاف خوب کام کر رہے ہیں ۔

قو می یکجہتی کو مستحکم کر نے کے لئے قرآن کے تراجم و تفاسیر  ہندی میں موجود ہیں ، اسی طرح گیتا اور اپنیشد، انجیل، گروگرنتھ صاحب اور سیتارتھ پرکاش غرض کہ ہر مذہب اور عقیدے کی مقدس کتابیں اردو میں موجود ہیں ۔ جوگندر پال لکھتے ہیں :’’میں نے اپنی رامائن اور مہابھارت اردو میں ہی پڑھی ہے اور میرا یقین ہے کہ میں نے اس میں سنسکرت کی پختگی کا مزہ اٹھایا ہے۔ اردو میں جپ جی کرنا اتنا ہی اچھا لگتا ہے جتنا پنجابی میں ‘‘۔ ۔ہندوستان میں قومی یکجہتی اور تہذیبی تنوع کی  جو مثا ل پائ جا تی اسکو  نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔

جھگڑا نہ کرے ملت و مذہب کا کوئی یاں

جس راہ میں جو آن پڑے خوش رہے ہر آن

زنار گلے میں یا کہ بغل بیچ ہو قرآن

عاشق تو قلندر ہے نہ ہندو نہ مسلمان

کافر نہ کوئی، صاحبِ اسلام رہے گا

آخر وہی اللہ کا ایک نام رہے گا

نظیر اکبرآبادی ہوں یا اور کوئی اردو شاعر، نظم ہو یا غزل یا کوئی اور صنف سخن، اللہ کے سداباقی رہنے والے نام کے گن ہر ایک نے گائے ہیں ۔ اسی طرح  منشی چھنولال دلگیر سے لے کر جگن ناتھ آزاد اور چندر پرکاش بجنوری تک نہ جانے کتنے غیر مسلم شعراء نے حمد، نعت اور منقبت لکھی۔ مرثیے اور سلام لکھے اور ان سبھی میں عقیدت اور جذباتی وابستگی کی وہی فراوانی نظر آتی ہے جو کہ حفیظ جالندھری، حسرت موہانی تک نے رام کی عظمت کے گیت گائے، کرشن کنھیا کے پریم کی بانسری بجائ، ارجن کے بان کے تذکرے کئے۔ کاشی اور ورنداون کے پاکیزہ ماحول کی عکاسی کی۔ غرض کہ ہندوستان میں ہمیشہ  ہمہ گیر انسانیت کے گیت گائے گئے ہیں اور دل کی کدورتوں کو دور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہندو مسلمان میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے والی شاعری نے ملک بھر میں ایک عجیب دلکش روحانی فضا پیدا کردی تھی۔ اردو کے شاعر کو بت خانے سے کعبہ کی راہ ملتی ہے اور بتوں کا حسن دیکھ کر اسے خدا یاد آتا ہے۔ رادھے شیام کا بھجن حسرت موہانی کو بھی مستانہ کردیتاہے اور کہہ اٹھتے ہیں    ؎

متھرا سے اہل دل کو وہ آتی ہے بوئے انس

دنیائے جاں میں شور ہے اس کے دوام کا

مخلوق ہے اک نگاہ کرم کی امیدوار

یہی وجہ ہیکہ امریکا کے سابق صدر بارک اوبامہ نے کہا   کہ مسلمان ہندوستان کی دولت ہیں طاقت ہیں ہندوستان کو ہندوستا کو ہندوستانی مسلمنوں کی قدر کرن چاہئے اور ان کا دھیان رکھنا چاہئے یہ الفاظ طمانچہ ہیں اس سوچ پر جو ہر دن ملک کے مسلمانوں کی حب الوطنی سوال اٹھاتی ہے اور جو مسلما نوں کو غدار کہتی ہے اوبامہکی اس سوچ اور موقف کی قدرکرنے کی ضرورت ہے نیز اس کو مسلسل مستحکم کیا جا نا چاہئے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہیکہ 2009 سے 2017 کے درمیان امریکا کے صدر رہے اوبامہ اپنے پہلے دور ہ ہند کے آخری دن بھی مذہبی روادار کا سبق دے گئے تھے جو اس بات کی مکمل علامت ہے کہ ہندوستا ن میں مذہبی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ے ۔

آخر میں می صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج نشانہ پر صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو ہندوستان سے محبت کرتا ہے ہندوستان کے آئین اور جمہوریت میں یقین رکھتا ہے اسلئے ملک کی سالمیت کے لئے ضرورہے کہ ملک کے تمام افراد وطبقات کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے خوف ہراس کا ماحول بپا کر نے سے گریز کیا جائے مذاہب کی کہکشا ں کو نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ ہر مذہب کی عبادت گاہوں انکی مقدس ہستیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تب جاکر ہندوستان کی رنگا رنگی تہذیب کی روح مجروح ہونے سے محفوظ رہےگی  اگر ملک میں نفرت کی سیاست کو مزید بڑھا وا دیا گیا تو یقین جانئے  ملک کا امتیاز  اور قدیم تہذیب داغدار ہو جائے گی آج ہمیں ملک میں بھائ چار اخلاقی قدروں کو فروغ دینےکی ضرورت ہے تاکہ ہندوستانی سماج شکشت وریخت  سے بچ سکے اور ہمارا سماج فتنہ پروروں کے شر سے محفوظ ومامون ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔