رمضان: قبولیتِ دعا کا مہینہ
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
اسلام نے دعا کا نہایت تاکیدی حکم دیا ہے، یہاں تک نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ من لم یسأل اللہ یغضب اللہ علیہ ‘‘ ( ترمذی:۳۳۷۳) جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ عزوجل اس پر غصہ ہوجاتے ہیں، اور نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے : ’’ الدعاء ھو العبادۃ‘‘ (ابوداؤد: ۱۴۷۹) دعا ہی عبادت ہے، اور ایک روایت میں فرمایا : ’’ أفضل العبادۃ الدعاء‘‘ (المستدرک للحاکم، حدیث : ۱۸۰۵) بلکہ دعا افضل عبادت ہے، اور نبی کریم ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’من فتحت لہ أبواب الدعاء فتحت لہ أبواب الرحمۃ‘‘ (ترمذی: ۱۵۴۸) جس شخص کے لئے دعا کے دروازے وا کئے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے وا کئے گئے۔
دعا کی افادیت اوراس کی قدر ومنزلت میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا ہے جب کہ اللہ عزوجل نے اپنے کلام پاک میں روزے اوراس سے متعلق احکام کے ذکر کے بیچ دعا کا تذکرہ فرمایا ہے، اللہ عزوجل نے سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۳سے ۱۸۷کے درمیان آیت نمبر ۱۸۶ میں دعا کا تذکرہ فرمایا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :
’’وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ‘ ‘(البقرۃ : ۱۸۶)
(اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں سو بلاشبہ میں قریب ہوں، دعا کرنیوالے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔ سو وہ میرے احکام کو قبول کریں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ نیک راہ پر رہیں۔ )
اللہ عزوجل نے اس آیت کریمہ میں روزہ داروں سے روزے کے ساتھ دعا کے تعلق کو واضح کیا ہے، یعنی روزہ دار کی دعا ء اللہ عزوجل کے یہاں خصوصا مقبول ہوتی ہے، گویاانسان صبح صادق سے وقت افطار تک ماکولات ومشروبا ت اور عورتوں سے مباشرت کو چھوڑ کر دعا اور الحاح واصرار، طلب وبندگی میں لگا رہتا ہے، اور روزہ میں چونکہ ریاکاری اور دکھلاوا نہیں ہوتا، اس لئے روزہ کی حالت میں اللہ کی جانب الحاح واصرار ورجوع اور تعلق مع اللہ اور اخلاص میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بندہ جب اس خالص روزہ کی حالت میں دعا کرے گا تو وہ دعا زیادہ مقبول ہوگی اور اس کی مانگ اور سوال کی تکمیل کی جائے گی۔
دعا کی حقیقت
دعا کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے سامنے اپنے عجز مطلق اور اپنی بے کسی وبے بسی کا اظہار ہو اور اللہ عزوجل کے لطف وکرم، رحمت ورافت اور اس سے خصوصی اعانت وامداد کا طالب ہو، اپنی ہر قسم کی طاقت وقوت سے عاجزی کا اظہار کیا جائے، دعاء عبادت کا مغز ہے، شخص مومن کی شناخت اور انسان کی ذلت وخست کا اظہار ہے، اس کی اصل بنیاد ذلت وعاجزی کا اظہار، جس میں حمد وثناء اور عزوجل کا شکرانہ اور اس کے جود وسخا اور اس کے فضل واحسان اور اس کی قدرت وطاقت، اس کی عفووغفرت اور کی خوشنودی کی طلب ہوتی ہے ۔
دعا تقدیر بدل دیتی ہے
دعا کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے، مقدرات من جانب اللہ طئے شدہ ہوتے ہیں ؛ لیکن دعا اس قدر طاقت وقوت کی حامل ہوتی ہے کہ من جانب اللہ طئے شدہ فیصلے بھی اللہ عزوجل دعا کی بدولت اس میں رد وبدل فرمادیتے ہیں ؛ اسلئے جس کو دعا کی توفیق مرحمت کی گئی اس کو خیر کثیر عنایت کیا گیا۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ’’ لا یرد القضاء إلا الدعاء ولا یزید فی العمر إلا البر‘‘ (ترمذی، حدیث: ۳۵۴۹) دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے اور نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہ بھی نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھولے گئے ‘‘ (ترمذ: ۳۵۴۸)
دعا خیر اور بھلائی کی باعث
دعاء دشمن سے نجات، رزق کی بکثرت فراہمی کی باعث ہوتی ہے، یہ ایسا ہتھیار ہے جس سے معرکہ حیات کوسر کیاجاسکتا ہے، دین ودنیا کی بھلائی کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’کیا میں تم کو دشمن سے نجات دلانے والی، تمہارے لئے بکثرت رزق فراہم کرنے والی چیز کی نشاندہی نہ کروں ؟ رات دن دعا کیا کرو، چونکہ ’’ الدعاء سلاح المؤمن‘‘ (دعا مؤمن کا ہتھیار ہے )(جمع الفوائد، حدیث: ۶۹۹)
دعا ضرور قبول ہوتی ہے :
دعا اگر میں اس میں قطع رحمی اور گناہ کا مطالبہ نہ ہو تو ضرور قبول ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
’’اگر کوئی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی نہیں ہوتی تو اللہ عزوجل تین چیزوں میں کوئی ایک مرحمت فرمادیتے ہیں، یا تو فورا اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے، یا اس کے آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہے، یا اس کے مثل کوئی برائی اس سے دور کردی جاتی ہے، صحابہ نے عرض کیا : اگر ہم دعا کی کثرت کریں تو؟تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل بھی بکثرت عطا فرمائیں گے ’’اللہ أکثر‘‘ (مسند احمد، حدیث: ۱۱۱۳۳)
اور ایک روایت میں فرمایا: ’’روئے زمین پر جب کوئی شخص دعا کرتا ہے، تو اللہ عزوجل اس کی مانگ کو پوری فرمادیتے ہیں، یا اس سے کسی برائی کودور فرمادیتے ہیں، البتہ یہ کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کا مرتکب شخص نہ ہو ’’ما لم یدع بمأثم أو قطیعۃ رحم ‘‘ (ترمذی، حدیث: ۳۵۷۳)
دعا کے آداب اور شرطیں
قبولیت دعا کے لئے دعا کے کچھ آداب اور شرائط ہیں ان کا لحاظ کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر قبولیت دعا کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
۱۔ اکل حلال(حلال کھانے ) کا اہتمام کرے:
یعنی آدمی کا کھانا پینا اور پہنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اکل حلال سے ہوں، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ اللہ عزوجل پاک ہے اور وہ پاکی کو پسند کرتا ہے، اللہ عزوجل نے مؤمنین کو وہی حکم کیا ہے جس کا حکم انبیاء ومرسلین کو کیاتھا، چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ’’ یا أیّھا الرسُلُ کُلُوْ مِنَ الطیِّبات واعْمَلُوا صالِحًا‘‘(اے رسولو! پاکیزہ کھاؤ اور نیک عمل کرو) اور اللہ عزوجل کا یہ بھی ارشاد ہے ’’یا أیَّھا الذیْنَ آمنوا کلُوا من طیّپات ما رزقناکم‘‘( اے مومنوا! پاکیزہ رزق کھاؤ ) پھر فرمایا ایک نہایت پراگندہ حال اور پراگندہ بال طویل اور تھکادینے والا سفر کرتاہے، آسمان کی جانب ہاتھ اٹھاتا ہے اور کہتاہے ’’یا رب یا رب ‘‘ (اے میرے رب، اے میرے رب ) اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، حرام غذا سے اس کی پرورش ہوئی، کیوں کر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے ؟ (مسلم : حدیث: ۱۰۱۵)
۲۔ قبلہ رو ہو کرہاتھ اٹھاکر دعا کرے
دعا کا ایک ادب یہ ہے کہ قبلہ رو کر اور اٹھا کر دعا کرے، کیوں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ’’ إن اللہ حی کریم یستحیی إذا رفع الرجل یدیہ أن یردّھما صفرا خائبتین‘‘ تمہارا رب بہت باحیا اور کریم ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے(ابوداؤد : حدیث: ۱۴۸۸)
۳۔ آواز بلندی اور پستی کے مابین ہو
آواز بھی زیادہ بلند نہ ہو اور نہ زیادہ پست ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں : اللہ عزوجل کے ارشاد ’’وَلَا تَجْھَر بصلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھا وابتَغُوا بینَ ذلک سَبِیْلا‘‘( نہ دعا بلند آواز سے کرو اور نہ پست آواز، اس سلسلے میں درمیانی راہ اختیار کرو‘‘ میں ’’صلاۃ‘‘ سے مراد دعا ہے (تفسیر ابن کثیر)
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : اے لوگوں ! جس سے تم مانگتے اور دعا کرتے ہو وہ بہرا یاغائب نہیں ہے ‘‘ ’’لیس بأصم ولا غائبا‘‘ (ابوداؤد: ۱۵۲۸)
۴۔ دعا میں حدود کو تجاوز نہ کرے
مطلب یہ ہے کہ جلد سزا کے لئے یا جو عادۃ یا عقلا یا شرعا نا ممکن چیز ہے اس کی دعا کرنا، یا جو کام ہوچکا ہے اس کی دعا کرنا، یا گناہ یاقطع رحمی کی دعا کرنا، اس طرح کی دعائیں نہ کی جائیں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’أُدْعُو ربَّکُمْ تَضَرُّعًا وخُفْیَۃً، إِنَّہ لا یُحِبُّ المعْتَدِیْنَ‘‘(اللہ عزوجل سے خشوع وخضوع کے ساتھ خفیہ طور پر دعا کرو، وہ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الاعراف : ۵۵)۔
۵۔ خشوع وخضوع اور پوشیدگی کیساتھ دعا کرے
دعا میں خشوع وخضوع، خوف وخشیت اور اخفاء اور پوشیدگی کو اختیار کرے اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :
اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :’’’’أُدْعُو ربَّکُمْ تَضَرُّعًا وخُفْیَۃً‘‘ (الاعراف : ۵۵)۔
۶۔ نہایت الحاح وزاری کے ساتھ دعا کرے :
بار بار، مکر ر دعا کرے، نہایت الحا ح وزاری کے ساتھ دعا کرے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں : ’’ جب آپ ﷺ دعا فرماتے تو تین تین مرتبہ دہراتے، اور جب کسی چیز کو مانگتے تو تین تین دفعہ ‘‘ ’’کان إذا دعا دعا ثلاثا‘‘(مسلم، حدیث: ۱۷۹۴)
حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ فرماتے ہیں : ’’ جدوا بالدعا‘‘ دعا میں محنت اور کوشش کرو، چونکہ جب دروازہ کو بار بار کھٹکھٹایا جاتا ہے تو قریب تر ہے کہ دروازہ کھول دیا جائے ‘‘’’ویوشک أن یفتح لہ ‘‘ (جامع معمر بن راشد : ۱۹۶۴۴)
۷۔ اللہ عزوجل سے پکی وسچی توبہ کرے
اللہ عزوجل کی جانب سچے طریقے سے رجوع ہو، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : ’’مجھے دعا کی قبولیت کا غم نہیں ہوتا؛ لیکن دعا کا غم ہوتا ہے‘‘ (کہ توفیق ملے گی یا نہیں ) جب دعا کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کے ساتھ قبولیت بھی حاصل ہوجاتی ہے ‘‘’’فإذا ألہمت الدعاء، فإن الإجابۃ معہ‘‘ ( فی ظلال القرآن: ۱؍۳۷۱)
اورایک روایت میں انہیں سے مروی ہے :’’ اللہ کے حرام کردہ امور سے اجتناب کی وجہ سے اللہ عزوجل دعا اور تسبیح کو قبول فرماتے ہیں ‘‘ ’’ بالورع عما حرم اللہ یقبل اللہ الدعاء ‘‘ ( جامع العلوم والحکم : ۱؍۱۰۷)
اور ایک روایت میں حضرت حذیفہ بن الیمان سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں : ’’ ایسے ایسا زمانہ آئے گاکہ جس میں صرف اور صرف ڈوبنے والے شخص کی طرح دعا کی قبولیت حاصل کرسکے گی ‘‘’’کدعاء الغریق‘‘ ( مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث: ۳۷)
۸۔ دعا کی قبولیت کا یقین ہو
دعا کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ دعا کی قبولیت کا یقین، نہایت یقین کامل کے ساتھ دعا کرے اور اللہ عزوجل کے ساتھ یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے دعاکو قبول کرے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ تم قبولیت دعا کے یقین کے ساتھ دعا کرو، اللہ عزوجل غافل اور بے توجہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتے ‘‘’’من قلب لاہ غافل‘‘ ( مستدرک حاکم : حدیث: ۱۸۱۷)
اور ایک موقعہ سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یوں نہ کہے : اے اللہ ! اگر آپ چاہیں تو معاف کردیں، بلکہ قبولیت دعا کے لئے اپنے شوق ورغبت کا اظہار کرے، اللہ عزوجل نے تو بدترین مخلوق شیطان کی دعا قبول کر لی اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : ’’قَالَ رَبِّ فانظِرْنِیْ إلی یومِ یُبعثُون، قالَ فإنَّک مِنَ المُنْظَرِیْن ‘‘ (کہا: اے اللہ مجھے روز قیامت تک مہلت دیجئے، اللہ عزوجل نے فرمایا : تمہیں اس کی مہلت ہے‘‘ (الحجر: ۳۶=۳۷) (اللباب فی علم الکتاب : ۳؍۳۰۰)
۹۔ قبولیت دعا کی گھڑیاں
٭جمعہ کے دن آخری وقت میں ’’ آخر ساعۃ بعد العصر ‘‘( ابواداؤد،حدیث: ۱۰۵۰) ٭اذان کے وقت’’إذا نادی المنادی‘‘ (مسند أبی یعلی، حدیث: ۴۰۷۲)٭اذان اور اقامت کے مابین ’’ الدعاء بین الاذان والاقامۃ مقبولۃ‘‘ ( مسند أبی یعلی، حدیث: ۳۶۸۰) ٭ بارش کے وقت ’’عند نزول المطر‘‘ (المستدرک، حدیث: ۲۵۳۴)٭دشمن سے مد بھیڑ کے وقت ’’ عند الباس حین یلجم بعضہم بعضا‘‘ (المستدرک، حدیث: ۷۱۲) ٭سجدہ کی حالت میں ’’ أما السجود فاجتہدوا فی الدعاء‘‘ (مسلم، حدیث: ۱۱۰۲)٭رات کے آخری حصہ میں ’’ فی جوف اللیل الآخر‘‘( ترمذی، حدیث: ۳۵۷۹) ٭یوم عرفہ میں ’’دعاء یوم عرفۃ ‘‘( ترمذی:، حدیث: ۳۵۸۵)٭ جمعہ کی رات ’’ إذا کان لیلۃ الجمعۃ‘‘ ( ترمذی، حدیث: ۳۵۷) ٭ امام کے ’’ولا الضالین‘‘ کہتے وقت (مسلم، حدیث: ۴۱۰)٭شب برات میں ’’ فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب‘‘ ( ترمذی:، حدیث: ۷۳۹)٭فرض نمازوں کے بعد ’’ ودبر الصلوات المکتوبۃ ‘‘( ترمذی، حدیث: ۳۴۹۹) ٭ ختم قرآن کے بعد ’’ من ختم القرآن فلہ دعوۃ مستجابۃ‘‘ (الطبرانی : ۶۴۷) ٭زمزم کے پانی کے پیتے وقت ’’ ماء زمزم لما شرب لہ ‘‘ (المستدرک، حدیث: ۱۷۳۹) ٭ اقامت کے وقت ’’ دعاء المسلم عند إقامۃ الصلاۃ‘‘ (الطبرانی : ۷۶۲۱)٭ کعبہ کو دیکھنے کے وقت ’’ وعند رویۃ الکعبۃ‘‘ (السنن الکبری : حدیث: ۶۲۵۲) ٭ ملتزم کے پاس ( السنن الکبری : ۹۵۴۷) ٭میزاب کعبہ کے نیجے٭ کعبہ کے اندر ٭ زمزم کے کنویں کے پاس ٭ صفا ومروہ کے پاس ٭ مسعی کے پاس٭ مقام ابراہیم کے پیچھے ٭ منی میں ٭ جمرات ثلاثہ کے پاس ٭ روضہ اقدس کے پاس جس کی وضاحت امام جزری نے کی ہے۔
۱۰۔ جن کی دعا قبول ہوتی ہے
۱۔ مجبور کی دعا قبول ہوتی ہے :جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے جس میں تین اشخاص کا غار میں ڈھکنا جانا اور اپنے اعمال کے وسیلے سے باہر آنا ثابث ہے (بخاری: ۲۲۷۲)
۲۔ مظلوم کی دعا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’دعوۃ المظلوم مستجابۃ ‘‘مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے، گرچہ وہ فاجر وفاسق شخص ہو، چونکہ اس کا فسق وفجور خود اس کے ساتھ ہے (مسند احمد : ۸۷۹۵)
۳۔ والد کی دعا اولاد کے حق میں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تین اشخاص کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے ’’ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اولاد کے حق میں دعا ‘‘’’ودعوۃالوالد لولدہ‘‘(ترمذی: حدیث: ۳۴۴۷)
۴۔ عادل بادشاہ کی دعا :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اشخاص کی دعا رد نہیں کی جاتی، انصاف پرور امام، روزہ دار کی دعا افطار کے وقت، اور مظلوم کی دعا ‘‘ (ترمذی: حدیث: ۲۵۲۶)
۵۔ مسلمان کی اپنے بھائی کے لئے ا سکی عدم موجودگی میں دعا : حضرت ابو درداء فرماتے ہیں : مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں اس کی عدم موجودگی میں دعا مقبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے، جب بھی یہ شخص اپنے بھائی کے لئے خیر وعافیت کی دعا کرتا ہے تو یہ آمین کہتا ہے اور اور کہتا ہے تمہارے لئے بھی اسی کے مثل ہے’’ ولک مثلہ ‘‘ (مسلم : حدیث: ۲۷۳۲)
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان اور روزہ کو دعا کے ساتھ خصوصی نسبت ہے، رمضان میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، جس کو اللہ عزوجل روزہ کے احکام کے ذکرکے درمیان واضح فرمایا کہ میرے بندے کی دعا کو حالت روزہ میں میں زیادہ قبول کرتا ہوں، اس لئے رمضان المبارک میں دعاؤں کا خوب اہتمام کیا جائے، اپنی حاجیات اور ضروریات کا دعا کے آداب وصول اور شرائط کی رعایت کے ساتھ کی جائے، اس طرح اپنی ہر جائز مراد اور اپنی دنیا وآخرت کی کامیابی کو اللہ عزوجل سے مانگا جائے۔
تبصرے بند ہیں۔