جھوٹا ہے تیرا وعدہ! وعدہ تیرا وعدہ 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

وقت کے ساتھ دن اور حالات بدلتے ہیں، لیکن انتخابی موسم کے صبح و شام، رنگ اور تیور بدلنے کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر تب جب برسرِ اقتدار جماعت کے پاس اپنی کارکردگی کے نام پر بتانے اور کہنے کے لئے کچھ نہ ہو۔ موجودہ الیکشن اس کا گواہ ہے۔ 2014 کے انتخاب میں نریندرمودی بار بار کہتے تھے، آپ نے کانگریس کو 60 سال دیئے، ہمیں60 مہینے دے کر دیکھئے۔ یعنی وہ اپنے لئے  عام لوگوں سے ایک موقع مانگ رہے تھے کہ ہمارے ہاتھ میں ملک کی کمان سونپئے، ہم سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ عوام نے ان کے وعدوں پر بھروسہ کر اکثریت کے ساتھ انہیں پارلیمنٹ بھیجا۔ وہ وزیر اعظم بن گئے، 60 ماہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر مودی ایک اور موقع کے لئے عوام سے روبرو ہیں۔ انہوں نے اپنے پانچ سال کے دوران ایسا کوئی کام تو کیا نہیں جس سے عام آدمی کی مشکلیں کچھ کم ہوتیں، اس لئے اب وہ ساری کمیوں کے لئے نہرو جی اور ان کے خاندان کو ذمہ دار ٹھہرا کر اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

نریندرمودی نے ڈینگ ہانکنے اور 70 سال میں کچھ نہیں ہوا کا راگ الاپنے میں پانچ سال گزار دیئے۔ ان کے اور بی جے پی کے ذریعہ عوام کو دکھائے گئے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اس لئے وعدوں اور حکومت کی کارکردگی کے رپورٹ کارڈ پر ووٹ مانگنے کے بجائے انہوں نے اپنی انتخابی مہم کو اپوزیشن کو کوسنے، مذہب، ذات، طبقہ و فرقہ کی بنیاد پر پولرائزیشن کرنے، ملک کی حفاظت، سرجیکل سٹرائیک، پاکستان، فوجیوں کا سمان، دہشت گردی، پلوامہ حملہ، مندر، مسجد، نہرو پریوار وغیرہ کے ارد گرد محدود رکھا۔ انہوں نے نہرو جی کے بہانے کانگریس کی شبہ کو بگاڑ کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن پانچ سال میں نہ ملک کانگریس مکت ہوپایا، نہ اس کی شبہ خراب ہو پائی۔ الٹے ملک میں مودی بنام راہل گاندھی کا ماحول بن گیا۔ اسی لئے نریندرمودی نے نہرو جی کے بجائے راجیوگاندھی کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مخالفت میں ساری حدیں پار کر دیں۔ آنجہانی راجیو گاندھی کے بارے میں کہا کہ” ان کا خاتمہ بدعنوان نمبر ایک کے طور پر ہوا”۔ بھلے ہی انتخابی کمیشن نے اس معاملہ میں مودی کو کلین چٹ دے دی ہو لیکن حساس لوگوں نے اس بیان پر تنقید ہی کی ہے۔

سیاسی گراوٹ اور چناوی وعدوں کے پورا نہ ہونے سے عام آدمی مایوس ہوا ہے۔ مثلاََ 2014 میں نعرہ دیا گیا تھا "بہت ہوا ناری پر وار، اب کی بار مودی سرکار” آپ کو نربھیہ کا ہولناک واقعہ یاد ہوگا، اس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ وسیع پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے اور کانگریس کی اگوائی والے یو پی اے کے خلاف ماحول بنا تھا۔ جس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے عورتوں کے سمان کا نعرہ گڑھا تھا۔ نربھیہ کی ماں آشا دیوی نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ووٹ دینا ہمارا حق ہے تو…. یہ بھی ہمارا حق ہے کہ ہمیں انصاف ملے۔ ہم نے پانچ سال صبر کے ساتھ انتظار کیا۔ ہمیں بھروسہ تھا کہ ہمیں انصاف ملے گا لیکن عورتوں کی تکلیفوں کو دیکھیں تو آج بھی ہم 2012 میں کھڑے ہیں۔ آشا دیوی مایوس ہوکر کہتی ہیں۔ اتنی بچیاں مر رہی ہیں، اتنے جرائم ہو رہے ہیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہمارے ایک ووٹ نہ دینے سے ان کو کیا فرق پڑے گا ؟ ان کے اس بیان سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

کٹھوا، بلاسپور، شملہ اور اب الور جیسے واقعات سماج کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ مودی جی کے چہرے پر شکن پڑ جائے۔ بلکہ وہ الور کے واقع کو سیاسی رنگ دے کر اپوزیشن پر جم کر برسے۔ انہوں نے مایا وتی سے سوال کیا کہ کیا وہ راجستھان کی کانگریس حکومت سے اپنی حمایت واپس لیں گی ؟  سوال مودی جی سے بھی بنتا ہے کہ مظفرپور بہار کے شیلٹر ہوم معاملہ میں کیا وہ جے ڈی یو حکومت کا ساتھ چھوڑیں گے ؟ کیا کٹھوا کے معاملہ میں مجرموں کو بچانے کی کوشش کرنے والے اپنے پارٹی ممبران کا اخراج کریں گے؟  کیا اناؤ کیس کے مجرم کو بچانے کی کوشش کرنے والی اپنی یوپی حکومت کو برخاست کریں گے؟ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پانچ سالوں میں خواتین کے خلاف تشدد اور جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

روزگار، تعلیم و صحت کے گرتے معیار، کسانوں کی حالت زار، مہنگائی کی مار، بھک مری اور غریبی کی بات نہ کر کے صرف گڈ گورننس اور ملک کی حفاظت کی بات ہی کی جائے تو اس فرنٹ پر بھی مودی سرکار پوری طرح ناکام رہی ہے۔ ہجومی تشدد جو انتخابات کے دوران بھی جاری رہا اور پلوامہ حملہ اس کی مثال ہے۔ مودی حکومت نے فوجیوں کی حفاظت میں ہوئی چوک کے لئے کسی کی ذمہ داری طے نہیں کی۔ بلکہ دہشت گردانہ حملہ میں شہید ہوئے جوانوں کے نام پر بھی ووٹ مانگے گئے۔ شہیدوں کی آخری رسومات کو چناوی سبھاوں میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف مودی جی دہشت گردی سے لڑنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کے الزامات کا عدالت میں سامنا کر رہی پرگیہ ٹھاکر کو اپنی پارٹی کا امیدوار بناتے ہیں۔ یہ وہی پرگیہ ٹھاکر ہے جو متنازعہ بیانات کے لئے جانی جاتی ہے۔ اس نے ہیمنت کرکرے جیسے فرض شناس پولیس آفیسر کی شہادت کی بے عزتی کی اور گاندھی جی کے قاتل کو محب وطن بتایا ہے۔ وہیں اسیمانند کو سرکاری ایجنسیاں گواہ و ثبوت پیش نہ کرکے بچا دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ جج کو انتہائی افسوس کے ساتھ انہیں رہا کرنا پڑتا ہے۔ رافیل جیسے اہم معاملہ کی فائلیں وزارت دفاع سے چوری ہو جاتی ہیں۔ ادھر جے این یو کے طالب علم نجیب کی والدہ لمبے عرصے سے پولیس، انتظامیہ، عدلیہ اور وزارتوں میں اپنے بیٹے کی تلاش کے لئے دھکے کھا رہی ہیں لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا۔ ان واقعات سے ملک کی حفاظت اور گڈ گورننس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ملک کا بنیادی ڈھانچہ نہرو جی کا مرہون منت ہے۔ اگر آج ملک ایٹومک طاقت بنا ہے یا خلا میں اس نے مصنوعی سیارہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے تو اس کی بنیاد میں نہرو موجود ہیں۔ پاکستان سے اگر ہم سینا تان کر بات کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ اندرا گاندھی کو جاتا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کا خواب راجیو گاندھی کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ الیکٹرانک انقلاب راجیوگاندھی کی ہی دین ہے۔ این ڈی اے اول نے نہرو گاندھی کے بنائے ہوئے اداروں اور انڈسٹریز کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا کام کیا۔ این ڈی اے دوئم مطلب مودی جی نے اپنے پورے پانچ سال کارپوریٹ کی خدمت میں لگا دیئے۔ ملک کے سارے وسائل ان پر نچھاور کر دیئے گئے۔ یہاں تک کہ بڑے ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشن، لال قلعہ تک کارپوریٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان کے فائدہ کے لئے آدی واسیوں تک کو جنگل سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ رافیل جیسے لڑاکو جہاز کو بنانے کا کام ہندوستان ایرونوٹک لمیٹڈ (سرکاری کمپنی کے بجائے) انل امبانی کی کمپنی کو سونپا گیا ہے۔ ایم ٹی این ایل کی قیمت پر جیو کو کھڑا کیا گیا۔ پے ٹی ایم کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں اقتصادی نابرابری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

اس سب کے باوجود ساری کمیوں کے لئے اپوزیشن ذمہ دار ہے۔ اس کا گٹھ بندھن مہا ملاوٹی مگر بی جے پی کے ساتھی راشٹر وادی ہیں۔ جبکہ پاسوان سے لے کر رام کرپال یادو، اٹھاولے سے لے کر ریتا بہوگنا، امر سنگھ، نریش چندر اگروال تک سارے موقع پرست بھاجپا میں شامل ہیں۔ اسی طرح مودی جی اپوزیشن کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حامی بتا کر چڑھاتے ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی کئی تخریب کار جماعتیں این ڈی اے کا حصہ ہیں۔ مثلاََ مہاراشٹر میں مراٹھوں کے علاوہ کسی کو رہنے کی اجازت نہ ہو، کی بات کرنے والی شیو سینا، خالصتان کی مانگ کرنے والا اکالی دل، بوڈولینڈ کی جدوجہد کرنے والا بوڈولینڈ پیپلز فرنٹ، گورکھا لینڈ کے لئے لڑنے والا گورکھا جن مکتی مورچا، گرانڈ ناگا لینڈ بنانے کی خواہش رکھنے والا ناگا پیپلز فرنٹ، اسمی بھاشا بھاشی آندولن کا پیش رو اسم گن پریشد اور تریپورہ  کا شدت پسند گروپ  این ایل ایف ٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ٹائمز میگزین نے اپنی کور اسٹوری میں مودی جی کو انڈیاز ڈوائیڈر ان چیف کا سلوگن دیا ہے۔

پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے میں ابھی وقت باقی ہیں لیکن الیکشن ختم ہوتے ہی بھکت میڈیا این ڈی اے کی حکومت بنانے پر اتارو ہے۔ جبکہ گزشتہ بیس میں ایکزٹ پول غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اس مرحلہ میں عوام کو گمراہ کرنے اور بھرم  پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ یہ سمجھ سے پرے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس سروے کے نتائج کی بنیاد پر این ڈی اے کی واپسی کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ اس کے اعداد وشمار ازی ڈوینگ بزنس اور بے روزگاری کے آنکڑوں کی طرح جھوٹے تو نہیں۔ اس صورتحال پر ایک پرانی فلم کا گانا یاد آ رہا ہے…..

جھوٹا ہے تیرا وعدہ! وعدہ تیرا وعدہ، وعدہ تیرا وعدہ

وعدے پہ تیرے مارا گیا، بندہ میں سیدھا سادھا 

وعدہ تیرا وعدہ، وعدہ تیرا وعدہ   

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔