ایک اور درندگی

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

پھر سے خبر سننے کو ملی کہ واقی دارالحکومت میں وطن کی ننھی کلی کو مسل دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کل سے فیس بک پر ایک پیر کا کارنامہ بھی گردش میں ہے جس نے ایک معصوم بچی کو حبس بے جا میں رکھ کر درندگی کا نشانہ بنایا اور پھر چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔ اس سے قبل حذیفہ، زینب، قصور کے ڈھائی سو معصوم بچے، روزانہ اخباروں کے کالے حروف میں  چھپی ہوئی دردناک چینخیں، میرے وطن کی ماؤں بہنوں بیٹیوں سے درندگی، حوس پرستی، قتل، تیزاب کے قیامت نما واقعات، تین سال کی معصوم بچی سے لے کر نوے سال کی بوڑھی ماؤں کی سکول، مدرسہ، کھیل کے میدان، پیروں کے آستانوں سے لے کر انسانیت کے نام پر بنے ڈاکٹروں کے ہسپتالوں تک میں فضاء میں گم ہوتی آہیں، تار تار ہوتے آنچل، ہوس پرستی کے بعد موت کے گھاٹ اتار کر گندے نالوں، کھیتوں، قبرستانوں میں پھینکی گئی لاشیں۔۔۔ یہ اسلام کا قلعہ کہلوانے والے ملک پاکستان کی ایک تصویر ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ مسلی ہوئی کلیوں پر انا للہ پڑھوں یا مسلنے والے مسلمانوں پر؟؟؟ پیر کے آستانے پر انا للہ پڑھوں یا وطن کی مظلوم بیٹی پر؟؟؟

ہم صبح و شام فلسطین، عراق، ایران، کشمیر کا رونا روتے ہیں اور اپنی حالت یہ ہے کہ پاکستان عورت ذات کیلئے دسواں غیرمحفوظ ملک ہے۔ وطن میں بسنے والے مردوں اور قصائی کی دوکان پر کھڑے کتوں میں کوئی فرق نہیں۔ قصائی کی دوکان کا کتا گوشت کو تاڑ رہا ہوتا ہے کہ کب بس چلے اور وہ گوشت اٹھا لے اور اس قوم کے مرد بازاروں، گلیوں، میدانوں، سکولوں، آستانوں، ہسپتالوں میں تین سال کی ننھی پری سے لے کر نوے سال کی بڑھیا کو اس کتے سے زیادہ بدتر تاڑ رہے ہوتے ہیں، کسی طرح بس چلے اور یہ مرد کتے کی طرح قوم کی بہن بیٹی کو نوچ لیں۔

میں نے زینب کے واقعہ پر سوری زینب کے نام سے تحریر لکھی تھی جو دلیل میں شائع ہوئی، اس تحریر سے ایک رپورٹ دوبارہ پیش کرتا ہوں؛

اگر ہم رپورٹس دیکھیں تو روزانہ 18 بہنیں بیٹیاں درندگی کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں تو پچھلے ایک سال میں 5660 کیسز (عورتوں کے خلاف جرائم) دائر ہوتے ہیں۔ ایک سال میں قوم کی 274 بہنوں بیٹیوں کو مرد اپنی غیرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، 206 سے اجتماعی زیادتی اور 2840 سے زیادتی ہوتی ہے، 681 کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ صرف پنجاب میں 3400 ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے آنچل تار تار ہوتے ہیں۔ ٹی وی اینکر ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار کی رپورٹ کے مطابق روزانہ 11 معصوم پھول اور کلیاں درندگی کا شکار بنتے ہیں۔

آخر میں کس پر انا للہ پڑھوں؟؟؟ ان معصوم کلیوں کے نوچے گئے جسموں پر یا اپنے وطن کے مردوں پر؟؟؟

میں ان مظلوموں کا مجرم کس کو ٹھہراؤں، درندگی کرنے والے درندوں کو یا ان کی درندگی پر کمیٹیاں بنا کر ان پر ہوئے ظلم کا مذاق بنانے والے صاحبان اقتدار و ججز کو؟؟؟

آخر کیا کیا ہے آج تک؟؟ کیوں پولیس مجرم پکڑنے میں ناکام ہے؟؟؟ عدالتیں ایسے درندوں کو سزا دینے میں کیوں ناکام ہیں؟؟؟ سیاسی لیڈر و صاحبان اقتدار ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟؟؟ صبح و شام دوسروں کو دین سکھانے والوں، تبلیغ و سنت کا نام لینے والوں، مذھب کے علمبرداروں، معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کی زبانوں پر آبلے کیوں پڑ جاتے ہیں؟؟؟

کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟؟ کیا یہ واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟؟ کیا ہمیں اب بھی دشمن کے خلاف اللہ کی مدد کی امید رکھنی چاہئے؟؟ کیا ہم اب بھی اسلام کے محافظ اور اسلام کا قلعہ ہیں؟؟ بقول شاعر:

کیا تقدیر نے اس لئے چنوائے تھے تنکے

بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

میری دانست میں ان معصوم پھولوں، کلیوں، وطن کی مظلوم ماؤں بہنوں بیٹیوں کے تار تار آنچلوں، مسخ کئے چہروں، درندگی کا نشانہ بنی لاشوں پر انا للہ پڑھنے کی بجائے ملک کے طاقت ور مردوں، مذھب کا نام لیتے دین داروں، اخلاقیات سکھاتے پیروں، قانون کا پرچار کرتی عدالتوں، قانون نافذ کرواتے پولیس والوں، ایوانوں میں بیٹھے عوام کا درد رکھنے والے سیاست دانوں پر

انا للہ و انا الیہ راجعون

تبصرے بند ہیں۔