سود اور اس کی حرمت (قسط 3)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

ربا الفضل کی حقیقت

      خرید و فروخت میں یا ویسے ہی ایک ہی جنس کی دو اشیاء کے باہمی تبادلہ کے وقت ان میں کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا یا کسی ایک طرف سے سامان کا تبادلہ نہ کرنا سود میں داخل ہے۔ ایک ہی جنس کی دو اشیاء کی خرید و فروخت یا باہمی تبادلہ دست بدست نقد کی شکل میں اور مماثل و برابر ہونی چاہیے، اگر کمی بیشی کی جائے گی تو یہ سود میں داخل ہوگا اور اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہوگا تب بھی یہ شکل سود میں شمار کی جائے گی۔ اور شریعت نے ان دونوں صورتوں کو حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

      اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے (سواد بن غزیہ نامی) ایک آدمی کو خیبر کا عامل مقرر فرمایا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بہت عمدہ کھجوریں لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا : ’’کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح ہیں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا : ہم دو صاع اور کبھی تین صاع کھجوروں کے عوض اس کھجور کا ایک صاع لیتے ہیں۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((لَا تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا.))

     ترجمہ : ’’ایسا نہ کرو بلکہ ردی کھجوریں درہموں سے بیچ دو اور پھر درہموں کے بدلے عمدہ کھجوریں خرید لو۔‘‘ (کہتے ہیں) اور تولی جانے والی چیزوں کے بارے میں بھی اسی طرح فرمایا۔

[بخاری الوكالۃ باب الوكالۃ فى الصرف و الميزان]

      سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بَرنی (عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا : ’’یہ کہاں سے لائے ہو؟‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ہمارے پاس ردی کھجور تھے تو میں نے اس میں سے دو صاع دے کر ایک صاع خرید لیا تاکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کھلائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((أَوَّهْ أَوَّهْ، عَيْنُ الرِّبَا، عَيْنُ الرِّبَا، لَا تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ.))

      ترجمہ : ’’توبہ! توبہ! یہ تو بالکل سود ہے، بالکل سود ہے۔ ایسا نہ کرو، البتہ جب تم خریدنے کا ارادہ کرو تو اس کھجور کو بیچ دو اور اس (قیمت) سے (عمدہ کھجور) خرید لو۔‘‘

[صحيح بخاری کتاب الوکالۃ باب إذا باع الوکیل شیئا فاسدا فبیعہ مردود]

      نیز سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ((الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.)) و في رواية : ((فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ.))

      ترجمہ : ’’سونا سونے سے، چاندی چاندی سے، گیہوں گیہوں سے، جو جو سے، نمک نمک سے، اور کھجور کھجور سے ایک دوسرے کی طرح، برابر برابر، نقد بنقد اور ہاتھوں ہاتھ (فروخت کرو) اور اگر ان اجناس میں اختلاف ہو تو جس طرح چاہو بیچو مگر وہ دست بدست بیچی جائے۔‘‘ ایک روایت میں ہے : ’’جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا تو اس نے سودی لین دین کیا، اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔‘‘ [مسلم کتاب المساقاۃ باب الصرف و بیع الذھب بالورق]

      اس حدیثِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا چھ اشیاء میں سود پایا جاتا ہے یعنی باہم ان کے فروخت میں اگر کمی بیشی پائی گئی یا کسی ایک کے قبضے کو مؤخر کیا گیا تو یہ سود ہوگا۔ اور ان چھ اشیاء کے اندر سود کے پائے جانے پر امت کا اجماع و اتفاق ہے۔ لیکن اگر سود کی یہی علت دیگر اور ہم جنس اشیاء میں پائی جائے تو کیا ان کا شمار بھی سود میں ہوگا یا نہیں؟ چوں کہ اس سلسلے میں کوئی صریح نص نہیں پائی جاتی ہے اس لیے اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ، اہلِ ظاہر اور کچھ دیگر اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ صرف مذکورہ چھ چیزوں میں کمی و بیشی کو سود میں شمار کیا جائے گا اور باقی دیگر اجناس اس حکم سے خارج ہوں گی کیوں کہ انھیں ان چھ اجناس کے ساتھ ملانے کی کوئی واضح دلیل نہیں پائی جاتی ہے اس لیے ان اجناسِ ربویہ پر دیگر اور چیزوں کا قیاس کرنا بندوں پر ایسے معاملے میں تنگی کرنا ہوگا جس میں شریعت نے سکوت اختیار کر کے وسعت دے رکھی ہے۔ جب کہ دیگر جمہور فقہائے امت اور بیشتر اہلِ علم اسی بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ اجناس کے علاوہ اور دیگر ہم جنس چیزوں میں اگر یہ علت پائی جاتی ہے تو اس کا شمار بھی سود میں ہوگا، انھوں نے قیاس کر کے دوسری تمام چیزوں کو اس میں شامل کیا ہے۔ سونے اور چاندی پر قیاس کرکے تمام طرح کی کرنسی نوٹ اور سکوں کو اس میں شامل مانا ہے اور گندم وغیرہ پر قیاس کر کے تمام طرح کی کھانے والی اور نانپنے والی چیزوں یا کھانے والی اور تولنے والی چیزوں کو اس میں شامل کیا ہے۔ چناں چہ جنس اور صفت دونوں متحد ہوں گی تو اس کا حکم الگ ہوگا، جنس اور صفت مختلف ہوں گی تو اس کا حکم دوسرا ہوگا نیز جنس میں اتحاد اور صفت میں اختلاف یا صفت میں اتحاد اور جنس میں اختلاف ہوگا تو اس کا حکم بدل جائے گا۔ اس کو اس طرح سمجھیں کہ ہر دو چیزوں کے تبادلے کے وقت ان میں ’’ناپ، وزن اور خوراک‘‘ تینوں صفات میں سے ہر ایک صفت بیک وقت پائی جائے یا تینوں صفات میں سے دو صفات بیک وقت پائی جائیں اور دونوں ہم جنس ہوں تو ان میں کمی بیشی اور ادھار کرنا سود ہوگا، اور اگر بیک وقت تینوں صفات میں سے کوئی صفت نہ پائی جائے اور دونوں کی جنس بھی الگ الگ ہو تو کسی بھی طرف سے کمی بیشی یا ادھار سود نہیں ہوگا، اور اگر دونوں کی جنس ایک ہوں مگر تینوں صفات میں سے صرف ایک صفت پائی جائے یا کوئی صفت نہ پائی جائے یا یہ کہ دونوں کی جنس الگ الگ ہوں مگر تینوں صفات میں سے کوئی دو صفت پائی جائے تو کمی بیشی تو سود نہیں ہوگی مگر کسی طرف سے ادھار درست نہیں ہوگا۔ جمہور اہلِ علم ہی کا موقف راجح اور درست معلوم ہوتا ہے کیوں کہ بعض حدیثوں میں مطلق طعام کا ذکر ملتا ہے اور صحیح بخاری میں مذکورہ اجناس کے علاوہ منقی کو بھی اس میں شمار کیا گیا ہے۔ مگر علتِ قیاس میں جمہور اہلِ علم کے مابین بھی اختلاف ہے، چوں کہ یہ مشتبہ امر ہے اس لیے عام علمائے امت کے موقف کو سامنے رکھ کر اس کی مزید تفصیل پیش کی جا رہی ہے تاکہ اگر کوئی شخص دیگر تمام مشتبہ امور سے بچنا چاہے تو اسے سمجھنے اور اس سے بچنے میں آسانی ہو۔ وباللہ التوفیق

ہم جنس یا مختلف الجنس سرمائے کا باہمی تبادلہ

      اس لیے خرید و فروخت میں سود اور اس کے وبال سے بچنے کے لیے مختلف الجنس اور ہم جنس وغیرہ چیزوں کے باہمی تبادلے کے وقت درج ذیل امور پر دھیان دیا جانا ضروری ہے :

⓵ جب دو ایسی چیزوں کا باہمی تبادلہ کیا جائے کہ دونوں کا جنس الگ الگ ہو مگر وصف اور نوعیت میں ملتے ہوں یا پھر دونوں کا جنس تو ایک ہو مگر دونوں وصف اور نوعیت کے اعتبار سے بدلے ہوئے ہوں یعنی ان اصناف میں سے ہوں جن میں سود کی علت پائی جاتی ہے تو دونوں کے آپسی تبادلے میں کمی بیشی تو جائز ہوگی مگر فوری طور پر دو طرفہ قبضہ ضروری ہوگا لہذا اگر کسی طرف سے ادھار ہوگا تو یہ بیع درست نہیں ہوگی۔ مثلاً گیہوں کا تبادلہ چاول سے کرنا، چاندی کا تبادلہ سونے سے کرنا، جو کو گیہوں کے بدلے لینا، روپے کو ڈالر سے بدلنا وغیرہ۔ اس میں تفاضل جائز ہے مگر کسی طرف سے ادھار کرنا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس میں جنس تو بدل رہی ہے مگر سود کے پائے جانے کی علت موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.))

      ترجمہ : ’’اور اگر ان اجناس میں اختلاف ہو تو جس طرح چاہو بیچو مگر وہ دست بدست بیچی جائے۔‘‘ [صحيح مسلم کما مرً]

      گویا جن اصناف میں سود کی علت پائی جا رہی ہے اگر ان کا تعلق دو مختلف جنسوں سے ہو تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہوگی یعنی برابر برابر والی شرط مفقود ہوگی مگر نقد بہ نقد والی شرط بدستور باقی رہے گی۔ ابو منہال عبد الرحمن بن مطعم رحمہ اللہ کہتے ہیں :

      میرے ایک شریک نے موسمِ (حج) تک یا حج تک چاندی کو ادھار میں بیچا، پھر وہ میرے پاس آیا اور مجھے بتایا تو میں نے کہا : یہ معاملہ درست نہیں۔ اس نے کہا : میں نے اسے بازار میں بیچا ہے اور کسی نے مجھ پر نکیر نہیں کیا۔ تو میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے جب کہ ہم اس طرح بیع کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَهُوَ رِبًا.))

      ترجمہ : ’’جو دست بدست یعنی نقد بہ نقد ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جو ادھار ہو وہ سود ہے۔‘‘ [صحيح مسلم کتاب المساقاۃ باب النھي عن بيع الورق بالذهب دينا]

⓶ جب دو ایسی چیزوں کا باہمی تبادلہ کیا جائے جو جنس کے اعتبار سے بھی مختلف ہوں اور وصف و نوعیت کے اعتبار سے بھی الگ الگ ہوں تو دونوں کے آپسی تبادلے میں تفاضل یعنی کمی بیشی کرنا بھی جائز ہے اور کسی طرف سے ادھار کرنا بھی جائز ہوگا کیوں کہ اس صورت میں جنس بھی بدل گئی اور سود پائے جانے کی علت بھی باقی نہیں رہی۔ مثلاً جانور کا تبادلہ مطعومات سے کرنا، روپے پیسے سے گیہوں لینا، کھجور کا تبادلہ جانور سے کرنا وغیرہ۔ بیع کی اس صورت میں کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہے۔ جیسے بیس روپے میں ایک کلو چاول خریدی جائے تو اگر چاول لے لی جائے مگر روپیہ ادھار کر دیا جائے یا بیس روپے میں ڈیڑھ کلو چاول خریدا جائے وغیرہ تو بیع کی یہ صورت جائز ہے، اسی طرح کسی متعین سامان کے لیے مقررہ وزن یا ناپ کی قیمت پیشگی ادا کر دی جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

⓷ جب دو ایسی چیزوں کا تبادلہ کیا جائے جو جنس اور نوعیت دونوں اعتبار سے ایک ہی ہوں تو دونوں کے باہمی تبادلے کے وقت ان کا برابر برابر ہونا اور دست بدست ہونا ضروری ہے یعنی ان کے تبادلے میں نہ کمی بیشی کرنا جائز ہے اور نہ ادھار ہی کرنا جائز ہے۔ مثلاً گیہوں کا تبادلہ گیہوں سے کرنا، کھجور کا تبادلہ کھجور سے کرنا، چاول کا تبادلہ چاول سے کرنا، روپے کا تبادلہ روپے سے کرنا، ریال کا تبادلہ ریال سے کرنا وغیرہ۔ اس طرح کے لین دین کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دونوں طرف سے برابر برابر ہوں اور فوری قبضہ ہو کسی طرف سے ادھار نہ ہو۔

      ہمارے معاشرے میں یہ چیز عام طور پر رائج ہے کہ اگر ہمیں کسی بڑے نوٹ کے چینج کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم کمی بیشی بھی کر لیتے ہیں اور کبھی کسی طرف سے ادھار بھی کر لیتے ہیں، حالانکہ لین دین کی یہ صورت صریح سود کی ہے۔ مثلاً یہ شکل بہت عام ہے کہ سو روپے دے کر چینج کی شکل میں نوے یا پنچانوے روپے دیا لیا جاتا ہے یعنی ایک ہی جنس کی نقدی کو نقد کے بدلے کمی بیشی کر کے بیچا جاتا ہے، اسی طرح یہ عام بات ہے کہ کسی بڑے نوٹ کے چینج کی ضرورت ہوئی تو ایک طرف سے تو مکمل ادا کر دیا جاتا ہے مگر دوسری طرف سے فوری ادائیگی نہیں ہوتی ہے، معاشرے میں رائج یہ دونوں شکلیں جائز اور درست نہیں ہیں کیوں کہ رقم کے آپسی تبادلے میں برابر برابر اور نقد بہ نقد ہونا شرط ہے۔ لہذا ان سے بچنا بیحد ضروری ہے، ہم اس طرح کے تبادلے کو معمولی سمجھتے ہیں مگر یہ لین دین سودی ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے وبالِ جان اور باعثِ ہلاکت ہو سکتی ہے۔

      یہاں ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر ہم کوئی سودا انڈین کرنسی میں کریں اور پھر اسی مجلس میں اس دن کے ریٹ کے مطابق انڈین روپیہ کے بجائے نیپالی روپیہ یا ڈالر وغیرہ لیں تو یہ جائز ہے اور اس میں کسی طرح کے سود کا عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع میں اونٹوں کا کاروبار کرتا تھا، اس طرح میں دیناروں کے عوض سودا کرتا تھا اور درہم لے لیتا تھا۔ میں (اپنی بہن) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں بقیع میں اونٹوں کا سودا کرتا ہوں تو دینار سے بیچتا ہوں اور درہم لے لیتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

((لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا، مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ.))

      ترجمہ: ”کوئی حرج نہیں اگر اسی دن کی قیمت (بھاؤ) کے مطابق تم لو، بشرطیکہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے وقت تمہارے درمیان کچھ باقی نہ ہو۔“ [نسائی کتاب البیوع، بیع الفضۃ بالذھب…….]       (جاری)

تبصرے بند ہیں۔