ریل کا سفر بنام حفاظت
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ایک بار پھر دیش شدید ریل حادثہ کے دکھ سے گزررہا ہے۔ اترپردیش میں کانپور کے پاس اندور سے پٹنہ جارہی اندور ۔ پٹنہ ایکسپریس پٹری سے اتر گئی۔ یہ حادثہ اتنا بھیانک تھاکہ 147لوگوں کے مرنے اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہریانہ کے سورج کنڈ میں ریلوے کے ذریعہ منعقدہ کیمپ میں خود وزیر اعظم’’ زیروایکسیڈنٹ‘‘ کے ٹارگیٹ پر زوردے رہے تھے۔ ’’زیرو ایکسیڈنٹ پالیسی‘‘ کے باوجود ریل حادثہ میں اتنا بڑا جانی نقصان ہوتا ہے تویہ انڈین ریل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ حادثہ کئی لوگو ں کی زندگی میں برسوں تک خوفناک خواب کی طرح بنا رہے گا۔ جو لوگ موت کے منہ سے بچ کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ہر طرف خون ، مانس کے ٹکڑے بکھرے تھے اور چیخ پکار مچی ہوئی تھی۔ ایک لڑکی جس کی ابھی شادی ہونی ہے، وہ خود زخمی ہے اوراپنے والد کو تلاش رہی ہے۔ ایک بیٹے کو ماں مل گئی لیکن باپ کا پتہ نہیں چل رہا۔ کوئی لڑکی اپنے گھر والوں کو فون پر بتارہی ہے کہ اس کا پیر پھنسا ہواہے اور بہت درد ہورہا ہے۔ گھر والوں کو تسلی ہے کہ وہ بچ گئی لیکن کچھ دیر بعد اس کی موت ہوجاتی ہے۔ ایک خاندان کے تین ممبران کو دس گھنٹے بعد بچالیا گیا، لیکن ان کے سب سے چھوٹے بچے کا کہیں پتہ نہیں ہے،سیٹ بدلنے کی وجہ سے بچنے کی مثالیں بھی سامنے آئیں، وہیں کتنے بچے ایسے ملے ہیں جن کے ماں باپ کا پتہ نہیں ہے۔ درد اور تکلیف کی ایسی کئی کہانیاں اس حادثے کے بعد درج ہوگئی ہیں،جہیں کچھ دنوں کی چرچا کے بعد سبھی بھول جائیں گے۔
وکی پیڈیا پر ریل حادثوں کی تاریخ دیکھنے پر ایک بھی سال ایسا نہیں ملا جس میں کوئی حادثہ نہ ہوا ہو۔ 2000سے پہلے ریلوے تکنیک کی کمی کے بہانے بچ جاتا تھا۔ آج تمام تکنیکی ترقی کے بعدوہ اتنے شدید حادثے کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا۔ مرکزی وزیر ریل سریش پربھو نے اس حادثے کی جانچ کا حکم جاری کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سفر کے لحاظ سے جو ٹرینیں محفوظ ہیں لوگ ان میں سفر نہیں کرتے۔ ان میں ایل ایچ بی (لنک ہاف مین بش)کوچ لگے ہیں۔ راجدھانی اور شتابدی جیسی ٹرینوں میں ان کوچوں کو لگایا گیا ہے لیکن ان کا کرایہ اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی ان میں سواری کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ وزارت ریل کے ذریعہ راجدھانی اور شتابدی ایکسپریس کے سرج پرائزنگ اعلان نے ان ٹرینوں میں سفر کو اور بھی مہنگا بنادیا۔ یہ پوری طرح اعلیٰ طبقے کی ٹرینیں بن گئی ہیں۔ درمیانی طبقے کیلئے بھی ان میں سفر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ریلوے نے دعویٰ کیا تھاکہ ریل حادثے کی صورت میں کم سے کم نقصان کیلئے راجدھانی ایکسپریس کی طرح ساری گاڑیوں میں ایل ایچ بی کوچ لگائے جائیں گے۔
اس وقت زیادہ تر ریل گاڑیوں میں آئی سی ایف (انٹگرل کوچ فیکٹری) کوچ لگے ہوئے ہیں۔ یہ کوچ اگر پٹریوں سے نیچے اترتے ہیں تواس میں مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ پٹریوں سے اترنے کے بعد یہ کوچ کافی دور گرتے ہیں اورایک کوچ کے دوسرے پر گرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑانقصان ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ وزیرریل سریش پربھو نے لوک سبھا میں بتایا کہ پرانے کوچوں کو مرحلے وار بدلا جارہاہے۔ اب اس کام میں تیزی لائی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوچ بدلنے کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ حالانکہ ریلوے نے اس کیلئے ایک مدت مقرر کی ہے۔ 2020تک تمام ریل گاڑیوں میں ایل ایچ بی ڈبے لگانے کا کام پورا کرنا ہے۔ ایل ایچ بی کوچ بھارت میں بنائے جارہے ہیں۔ ان میں لگنے والا اسپرنگ بھی باہر سے منگانے کے بجائے بھارت میں ہی بن رہا ہے۔ پھر بھی پانچ سے چھ ہزار ایل ایچ بی کوچ ہی گاڑیوں میں لگ سکے ہیں۔ جبکہ آئی سی ایف کوچوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس لئے ڈبوں کو اتنی جلدی بدلا جانا آسان نہیں ہوگا۔ وزارت ریل اس سچائی کو چھپا جاتا ہے کہ بھارت میں ریل کوچ فیکٹریوں کی کوچ بنانے کی صلاحیت فی الحال اتنی نہیں ہے کہ وہ اگلے تین سال میں پچاس ہزار آئی سی ایف کوچ کو ایل ایچ بی سے بدل دیں۔
بھارت میں 1990کے بعد کئی بڑے ریل حادثے ہوئے ہیں۔ ریل حادثوں کی جانچ کیلئے کمیٹیاں بنیں۔ ان کی رپورٹ بھی آئی، اس حادثے کی بھی جانچ ہوگی، ریل منتری کہہ رہے ہیں کہ اعلیٰ سطح کی فورنسک جانچ کی جائے گی، ملزموں کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اس پر کچھ نہیں کہا، نہ ہی وہ آگرہ کی ریلی میں اس پر کچھ بولے۔ ریلوے کے افسران کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جانچ کے دوران ریلوے کی کمیاں اجاگر نہ ہوں۔ مرکز میں اکثریت والی سرکار ہے، وہ چاہتی تو پارلیمنٹ میں اس پر صحت مند چرچا کراکر حفاظت کے پختہ انتظامات کی راہ نکال سکتی تھی۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ ریل منترالے کی دلچسپی ریلوے کا نجی کرن کرنا بھر ہے۔ وہ ریلوے کی اہم جائیدادوں کو نجی زمرے کے حوالے کر ان کے منافع کا بندوبست کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے سوسالوں میں ریلوے نے جتنی ترقی کی ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی وزارت ناکام ثابت ہورہی ہے۔اسٹیشنوں کو خوبصورت بنانے کی بات کرکے، انٹرنیٹ کے ذریعہ کھانا پہنچاکر ریلوے اپنی پیٹھ تھپتھپارہاہے۔ ریل کوچوں کے اندر کی گندگی، ان کے رکھ رکھاؤ کی طرف ریلوے کا دھیان نہیں ہے۔ نہ کمزور ہوتی ریل پٹریوں کو مضبوط بنانے پر اورنہ ہی گھستے ہوئے پہیوں پر۔
موجودہ سرکار پچھلے سال سے ہائی اسپیڈ اور بلٹ ٹرین چلانے کی بات کررہی ہے۔ دہلی آگرہ کے بیچ ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی گئی۔ دہلی ممبئی کے بیچ اس کا ٹرائل ہوچکا ہے۔ ریلوے انجینئروں کا کہناہے کہ ریل پٹریاں کمزور ہیں، پرانی ہوچکی ہیں اور حادثے کا امکان ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ ان پٹریوں پر ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی ریل گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کانپور کے پاس جو اندور۔پٹنہ ایکسپریس حادثے کا شکار ہوئی اس کی رفتار ایک سودس کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ ریل افسران نے مانا ہے کہ جس پٹری پرریل گاڑی آرہی تھی وہ اتنی تیز رفتار کے لائق نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پٹری اتنی رفتار برداشت نہیں کرسکتی تھی تو پھر اس پر سے گاڑی کو کیوں گزارا گیا؟ اس سے پہلے جو گاڑی اس پٹری پر سے گزری تھی کیا اس نے پٹری کے کمزور ہونے کی کوئی شکایت کی تھی؟
پٹریوں کے خراب ہونے کی وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ اوور لوڈ مال گاڑیوں نے بنیادی ڈھانچے کو برباد کیا ہے۔ ریلوے بورڈ کا کمائی بڑھانے کیلئے ایک دہائی پہلے مال گاڑیوں کو ایکسل لوڈ بڑھانے کا فیصلہ اب مسافروں کی زندگی پر بھاری پڑرہا ہے۔ اوور لوڈ مال گاڑیوں کے دوڑنے سے ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ، ٹریک، ویگن اور پل جرجر ہوتے جارہے ہیں۔ ریلوے ان کی نگرانی، مرمت اور بدلنے کا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرپارہا ہے۔ وہیں پہیوں کے گھسنے کو بھی گاڑیوں کے پھسلنے اور پٹریوں کے کمزور ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ لوک لیکھا کمیٹی نے دسمبر2011میں پارلیمنٹ میں پیش اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ ریلوے پیسے اور اسٹاف کی کمی کے باعث ویگنوں کی مرمت اور ان کی دیکھ بھال نہیں کرپا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں ریلوے میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں خالی ہیں۔ اکیلے نارتھ سینٹرل ریلوے میں 8705 آسامیاں خالی ہیں۔ دیش بھر میں 16000لوکو پایلٹ ہیں پھر بھی 30فیصد اسٹاف کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے انہیں آٹھ گھنٹے کی جگہ 16گھنٹے کام کرنا پڑ رہاہے۔ ٹریک مین میں 24سے 40فیصد کی کمی ہے۔ اسی طرح اسٹیشن ماسٹر آٹھ کی جگہ بارہ گھنٹہ کام کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں ریلوے حفاظت پر کتنی توجہ دے پائے گا، اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حادثوں کے مد نظر 1980کے بعد ہوئے واقعات پر ریلوے نے سدھار کو لے کر کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کا بھروسہ دلایاتھا۔ 1981میں بہار میں طوفان کی وجہ سے ٹرین ندی میں جاگری تھی جس سے آٹھ سو لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ایک اور شدید حادثہ اترپردیش کے فیروز آباد کے پاس ہواجس میں پرشوتم ایکسپریس کالندی ایکسپریس سے ٹکراگئی تھی۔ اس میں 250لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ جبکہ 26نومبر1998کو لدھیانہ کے پاس کھنہ میں فرنٹیر میل اور سیالدہ ایکسپریس ٹکرائی تھی اس میں 108لوگ مرے تھے۔ کھنہ کے حادثے کے بعد ریلوے نے سابق جج جی سی گرگ کی صدارت میں جانچ کمیشن بنایا تھا۔ اس نے 2004میں سرکار کو اپنی رپورٹ سونپی۔ رپورٹ میں ریلوے کے حفاظتی انتظامات پر سوال اٹھائے گئے تھے ساتھ ہی مشورہ دیا تھا کہ پٹریوں کی جانچ ہر ماہ کی جائے۔ ساتھ ہی اس جانچ کو الٹراسونک فلاڈیکٹیٹر(یوایس ایف ڈی) کی تکنیک سے کرنے کو کہاگیا تھا۔ٹھنڈ کے موسم میں پٹریوں پر گشت بڑھانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی گن مینوں کی نگرانی کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔
دنیا کے بڑے ریل نیٹ ورکوں میں بھارت کی ریل چوتھے نمبر پر ہے۔ پورے ملک میں سبھی ریل گاڑیاں 30لاکھ کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔ یہ دوری زمین سے چاند کے بیچ چارچکر لگانے کے برابر ہے۔ دوکروڑ لوگ روزانہ سفر کرنے کیلئے ریل پر منحصر ہیں۔ ایسی صورت میں دیش کی بے حسی کا حال یہ ہے کہ جہاں کہیں حادثہ ہوتا ہے آس پاس کے لوگ مسافروں کو بچانے کے بجائے انہیں لوٹنے آجاتے ہیں۔ ریلوے میں کرپشن کا حال یہ ہے کہ بھرتی سے لے کر تبادلوں تک میں پیسے لئے جاتے ہیں اور کتنوں کو پیسے لے کر مفت میں سفر کرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ریلوے دولاکھ کروڑ روپے کاریونیو اکٹھا کرکے دیتا ہے۔ پھر بھی اس میں مسافر محفوظ نہیں ہیں۔ کانپور میں ہوئے حادثے کے متاثرین کی مدد کیلئے یوپی سرکار آگے نہیںآئی۔ پوری سپا آگرہ کانپور ہائی وے کے افتتاح میں لگی رہی۔ بی جے پی کے ورکروں نے ضرور دو دوہزار (پرانے نوٹ) متاثرین کو تقسیم کئے۔ اس میں بھی مدد کے مقابلے دکھاوا زیادہ تھا۔ سرکار بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری کررہی ہے جس کیلئے پانچ سو کلو میٹر کا ٹریک بنانے میں ایک لاکھ کروڑ روپیہ خرچ ہوگا۔سرکار اسے ضرور چلائے لیکن عوام بلٹ ٹرین نہیں بلکہ وقت پر پہنچانے والی، آرام دہ اور محفوظ ریل گاڑی چاہتے ہیں۔ کیا کوئی دن ایسا آئے گا جب عوام کیلئے ٹرین کا سفر محفوظ ہوگا اور ریلوے ان کی حفاظت کیلئے ذمہ دار۔(یو این این)
وکی پیڈیا پر ریل حادثوں کی تاریخ دیکھنے پر ایک بھی سال ایسا نہیں ملا جس میں کوئی حادثہ نہ ہوا ہو۔ 2000سے پہلے ریلوے تکنیک کی کمی کے بہانے بچ جاتا تھا۔ آج تمام تکنیکی ترقی کے بعدوہ اتنے شدید حادثے کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا۔ مرکزی وزیر ریل سریش پربھو نے اس حادثے کی جانچ کا حکم جاری کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سفر کے لحاظ سے جو ٹرینیں محفوظ ہیں لوگ ان میں سفر نہیں کرتے۔ ان میں ایل ایچ بی (لنک ہاف مین بش)کوچ لگے ہیں۔ راجدھانی اور شتابدی جیسی ٹرینوں میں ان کوچوں کو لگایا گیا ہے لیکن ان کا کرایہ اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی ان میں سواری کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ وزارت ریل کے ذریعہ راجدھانی اور شتابدی ایکسپریس کے سرج پرائزنگ اعلان نے ان ٹرینوں میں سفر کو اور بھی مہنگا بنادیا۔ یہ پوری طرح اعلیٰ طبقے کی ٹرینیں بن گئی ہیں۔ درمیانی طبقے کیلئے بھی ان میں سفر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ریلوے نے دعویٰ کیا تھاکہ ریل حادثے کی صورت میں کم سے کم نقصان کیلئے راجدھانی ایکسپریس کی طرح ساری گاڑیوں میں ایل ایچ بی کوچ لگائے جائیں گے۔
اس وقت زیادہ تر ریل گاڑیوں میں آئی سی ایف (انٹگرل کوچ فیکٹری) کوچ لگے ہوئے ہیں۔ یہ کوچ اگر پٹریوں سے نیچے اترتے ہیں تواس میں مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ پٹریوں سے اترنے کے بعد یہ کوچ کافی دور گرتے ہیں اورایک کوچ کے دوسرے پر گرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑانقصان ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ وزیرریل سریش پربھو نے لوک سبھا میں بتایا کہ پرانے کوچوں کو مرحلے وار بدلا جارہاہے۔ اب اس کام میں تیزی لائی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوچ بدلنے کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ حالانکہ ریلوے نے اس کیلئے ایک مدت مقرر کی ہے۔ 2020تک تمام ریل گاڑیوں میں ایل ایچ بی ڈبے لگانے کا کام پورا کرنا ہے۔ ایل ایچ بی کوچ بھارت میں بنائے جارہے ہیں۔ ان میں لگنے والا اسپرنگ بھی باہر سے منگانے کے بجائے بھارت میں ہی بن رہا ہے۔ پھر بھی پانچ سے چھ ہزار ایل ایچ بی کوچ ہی گاڑیوں میں لگ سکے ہیں۔ جبکہ آئی سی ایف کوچوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس لئے ڈبوں کو اتنی جلدی بدلا جانا آسان نہیں ہوگا۔ وزارت ریل اس سچائی کو چھپا جاتا ہے کہ بھارت میں ریل کوچ فیکٹریوں کی کوچ بنانے کی صلاحیت فی الحال اتنی نہیں ہے کہ وہ اگلے تین سال میں پچاس ہزار آئی سی ایف کوچ کو ایل ایچ بی سے بدل دیں۔
بھارت میں 1990کے بعد کئی بڑے ریل حادثے ہوئے ہیں۔ ریل حادثوں کی جانچ کیلئے کمیٹیاں بنیں۔ ان کی رپورٹ بھی آئی، اس حادثے کی بھی جانچ ہوگی، ریل منتری کہہ رہے ہیں کہ اعلیٰ سطح کی فورنسک جانچ کی جائے گی، ملزموں کو بخشا نہیں جائے گا۔ لیکن وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اس پر کچھ نہیں کہا، نہ ہی وہ آگرہ کی ریلی میں اس پر کچھ بولے۔ ریلوے کے افسران کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جانچ کے دوران ریلوے کی کمیاں اجاگر نہ ہوں۔ مرکز میں اکثریت والی سرکار ہے، وہ چاہتی تو پارلیمنٹ میں اس پر صحت مند چرچا کراکر حفاظت کے پختہ انتظامات کی راہ نکال سکتی تھی۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ ریل منترالے کی دلچسپی ریلوے کا نجی کرن کرنا بھر ہے۔ وہ ریلوے کی اہم جائیدادوں کو نجی زمرے کے حوالے کر ان کے منافع کا بندوبست کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے سوسالوں میں ریلوے نے جتنی ترقی کی ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی وزارت ناکام ثابت ہورہی ہے۔اسٹیشنوں کو خوبصورت بنانے کی بات کرکے، انٹرنیٹ کے ذریعہ کھانا پہنچاکر ریلوے اپنی پیٹھ تھپتھپارہاہے۔ ریل کوچوں کے اندر کی گندگی، ان کے رکھ رکھاؤ کی طرف ریلوے کا دھیان نہیں ہے۔ نہ کمزور ہوتی ریل پٹریوں کو مضبوط بنانے پر اورنہ ہی گھستے ہوئے پہیوں پر۔
موجودہ سرکار پچھلے سال سے ہائی اسپیڈ اور بلٹ ٹرین چلانے کی بات کررہی ہے۔ دہلی آگرہ کے بیچ ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی گئی۔ دہلی ممبئی کے بیچ اس کا ٹرائل ہوچکا ہے۔ ریلوے انجینئروں کا کہناہے کہ ریل پٹریاں کمزور ہیں، پرانی ہوچکی ہیں اور حادثے کا امکان ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ ان پٹریوں پر ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی ریل گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کانپور کے پاس جو اندور۔پٹنہ ایکسپریس حادثے کا شکار ہوئی اس کی رفتار ایک سودس کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ ریل افسران نے مانا ہے کہ جس پٹری پرریل گاڑی آرہی تھی وہ اتنی تیز رفتار کے لائق نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پٹری اتنی رفتار برداشت نہیں کرسکتی تھی تو پھر اس پر سے گاڑی کو کیوں گزارا گیا؟ اس سے پہلے جو گاڑی اس پٹری پر سے گزری تھی کیا اس نے پٹری کے کمزور ہونے کی کوئی شکایت کی تھی؟
پٹریوں کے خراب ہونے کی وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ اوور لوڈ مال گاڑیوں نے بنیادی ڈھانچے کو برباد کیا ہے۔ ریلوے بورڈ کا کمائی بڑھانے کیلئے ایک دہائی پہلے مال گاڑیوں کو ایکسل لوڈ بڑھانے کا فیصلہ اب مسافروں کی زندگی پر بھاری پڑرہا ہے۔ اوور لوڈ مال گاڑیوں کے دوڑنے سے ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ، ٹریک، ویگن اور پل جرجر ہوتے جارہے ہیں۔ ریلوے ان کی نگرانی، مرمت اور بدلنے کا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرپارہا ہے۔ وہیں پہیوں کے گھسنے کو بھی گاڑیوں کے پھسلنے اور پٹریوں کے کمزور ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ لوک لیکھا کمیٹی نے دسمبر2011میں پارلیمنٹ میں پیش اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ ریلوے پیسے اور اسٹاف کی کمی کے باعث ویگنوں کی مرمت اور ان کی دیکھ بھال نہیں کرپا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں ریلوے میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں خالی ہیں۔ اکیلے نارتھ سینٹرل ریلوے میں 8705 آسامیاں خالی ہیں۔ دیش بھر میں 16000لوکو پایلٹ ہیں پھر بھی 30فیصد اسٹاف کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے انہیں آٹھ گھنٹے کی جگہ 16گھنٹے کام کرنا پڑ رہاہے۔ ٹریک مین میں 24سے 40فیصد کی کمی ہے۔ اسی طرح اسٹیشن ماسٹر آٹھ کی جگہ بارہ گھنٹہ کام کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں ریلوے حفاظت پر کتنی توجہ دے پائے گا، اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حادثوں کے مد نظر 1980کے بعد ہوئے واقعات پر ریلوے نے سدھار کو لے کر کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کا بھروسہ دلایاتھا۔ 1981میں بہار میں طوفان کی وجہ سے ٹرین ندی میں جاگری تھی جس سے آٹھ سو لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ایک اور شدید حادثہ اترپردیش کے فیروز آباد کے پاس ہواجس میں پرشوتم ایکسپریس کالندی ایکسپریس سے ٹکراگئی تھی۔ اس میں 250لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ جبکہ 26نومبر1998کو لدھیانہ کے پاس کھنہ میں فرنٹیر میل اور سیالدہ ایکسپریس ٹکرائی تھی اس میں 108لوگ مرے تھے۔ کھنہ کے حادثے کے بعد ریلوے نے سابق جج جی سی گرگ کی صدارت میں جانچ کمیشن بنایا تھا۔ اس نے 2004میں سرکار کو اپنی رپورٹ سونپی۔ رپورٹ میں ریلوے کے حفاظتی انتظامات پر سوال اٹھائے گئے تھے ساتھ ہی مشورہ دیا تھا کہ پٹریوں کی جانچ ہر ماہ کی جائے۔ ساتھ ہی اس جانچ کو الٹراسونک فلاڈیکٹیٹر(یوایس ایف ڈی) کی تکنیک سے کرنے کو کہاگیا تھا۔ٹھنڈ کے موسم میں پٹریوں پر گشت بڑھانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی گن مینوں کی نگرانی کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔
دنیا کے بڑے ریل نیٹ ورکوں میں بھارت کی ریل چوتھے نمبر پر ہے۔ پورے ملک میں سبھی ریل گاڑیاں 30لاکھ کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔ یہ دوری زمین سے چاند کے بیچ چارچکر لگانے کے برابر ہے۔ دوکروڑ لوگ روزانہ سفر کرنے کیلئے ریل پر منحصر ہیں۔ ایسی صورت میں دیش کی بے حسی کا حال یہ ہے کہ جہاں کہیں حادثہ ہوتا ہے آس پاس کے لوگ مسافروں کو بچانے کے بجائے انہیں لوٹنے آجاتے ہیں۔ ریلوے میں کرپشن کا حال یہ ہے کہ بھرتی سے لے کر تبادلوں تک میں پیسے لئے جاتے ہیں اور کتنوں کو پیسے لے کر مفت میں سفر کرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ریلوے دولاکھ کروڑ روپے کاریونیو اکٹھا کرکے دیتا ہے۔ پھر بھی اس میں مسافر محفوظ نہیں ہیں۔ کانپور میں ہوئے حادثے کے متاثرین کی مدد کیلئے یوپی سرکار آگے نہیںآئی۔ پوری سپا آگرہ کانپور ہائی وے کے افتتاح میں لگی رہی۔ بی جے پی کے ورکروں نے ضرور دو دوہزار (پرانے نوٹ) متاثرین کو تقسیم کئے۔ اس میں بھی مدد کے مقابلے دکھاوا زیادہ تھا۔ سرکار بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری کررہی ہے جس کیلئے پانچ سو کلو میٹر کا ٹریک بنانے میں ایک لاکھ کروڑ روپیہ خرچ ہوگا۔سرکار اسے ضرور چلائے لیکن عوام بلٹ ٹرین نہیں بلکہ وقت پر پہنچانے والی، آرام دہ اور محفوظ ریل گاڑی چاہتے ہیں۔ کیا کوئی دن ایسا آئے گا جب عوام کیلئے ٹرین کا سفر محفوظ ہوگا اور ریلوے ان کی حفاظت کیلئے ذمہ دار۔(یو این این)
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)
تبصرے بند ہیں۔