ہر اک شیے میں ہر اک شے کا اثر کم ہو رہا ہے

راجیش ریڈی

 

ہر اک شے میں ہر اک شے کا اثر کم ہو رہا ہے
در و دیوار میں لگتا ہے گھر کم ہو رہا ہے

ترے اندر کو گھیرے جا رہا ہے تیرا باہر
تو اپنے آپ میں اے بے خبر! کم ہو رہا ہے

وہ جس کے نام پر سب کو ڈراتے پھر رہے ہیں
اسی ک یہے نام کا خود ان میں ڈر کم ہو رہا ہے

سفراس جسم میںجاں کا تو جاری ہے بدستور
اگر چہ جسم کا ہر دن سفر کم ہو رہا ہے

یہ کس آسیب کا سایہ پڑا ہے اس شجر پر
پرندہ روز اک کیوں شاخ پر کم ہو رہا ہے

بہت آسانیاں جینے کی بڑھتی جا رہی ہیں
سکونِ دل یہاں ہر دن مگر کم ہو رہا ہے

بدل کر رہ گئی ہے یا تو لوگوں کی سماعت
یا پھر میرے ہی کہنے کا ہنر کم ہو رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔