احادیث رمضان و روزہ

ڈاکٹر ابرار اعظمی
بہت کم طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے زمانۂ طالب علمی میں ہی ایک بے حد وقیع تعلیمی سیمینار کی روداد بڑے سلیقے سے اور گونہ منفرد انداز میں مرتب کرکے شائع کراسکیں۔ (عصرِ حاضر میں علامہ شبلی نعمانیؒ کے تعلیمی افکار کی معنویت، منعقدہ 24، 25؍ اکتوبر2014ء، جامعۃ الفلاح، بلریاگنج)۔ یا کسی اہم دینی موضوع پر اچھی خاصی نیم تحقیقی کتاب مرتب کرسکیں۔ (احادیثِ رمضان وروزہ، المنار پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی،2016ء)۔ عزیزم عبیداللہ طاہر فلاحی انہیں کمیاب طالب علموں میں سے ہیں، اور مذکورہ بالا کتاب ہی اس تحریر کا محرک ہے۔ عبیداللہ طاہر اِس وقت مدینہ یونیورسٹی میں ایم۔ اے۔ کے طالب علم ہیں۔
’عرضِ مرتب‘ کے تحت عبیداللہ طاہر نے لکھا ہے: ’’روزے سے متعلق تمام ایسے مسائل کا احاطہ کرلیا گیا ہے جو پیش آتے ہیں۔‘‘ آخر میں عیدالفطر کے احکام ومسائل کا ذکر بھی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ کتاب میں دس موضوعات کے تحت تقریبا 136 مسائل کا تذکرہ ہے، اور یہ وہ مسائل ہیں جن سے عام مسلمان کبھی نہ کبھی دوچار ہوتا ہی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی خاص مسلک کی طرف جھکاؤ سے احتراز کیا گیا ہے۔ اور بیشتر انہیں احادیث کو منتخب کیا گیا ہے جن کو ’’مستند‘‘ کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پوری کتاب کے بین السطور میں جو بات متوجہ اور متأثر کرتی ہے وہ ہے ایک خاص طرح کا خلوص اور تبلیغِ دین کا جذبہ۔
کتاب کی زبان سادہ وسلیس ہے، لیکن کتنا اچھا ہوتا اگر اس ’’سادگی‘‘ میں ’’پرکاری‘‘ بھی شامل ہو گئی ہوتی۔ مگر ابھی تو ابتدائے مشق ہے (جی چاہتا ہے کہ ’ابتدائے عشق‘ لکھوں) پختگی تو عمیق مطالعے، فکر کی گیرائی اور سعئ مسلسل سے آتی ہے۔
کتاب کے اصل مخاطب تو عام مسلمان ہیں کہ انہیں کو ان احکام ومسائل سے واقفیت کم ہوتی ہے۔ رہے خواص یعنی علمائے کرام تو انہیں ضرورت سے زیادہ ہی معلومات ہوتی ہیں۔ ایک سوال ذہن میں آتا ہے، عملاً کتنے روزے دار اس کتاب سے استفادہ کرسکیں گے؟ مگر عزیزم عبیداللہ طاہر کی تسلی کے لیے میر کا یہ شعر لکھ رہا ہوں ؂
شعر مرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
بات زبان کی آگئی (اور ترسیل وابلاغ کے لیے صحتِ زبان کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے) تو عرض یہ ہے کہ فاضل مقدمہ نگار کا یہ جملہ سمجھ میں نہیں آیا: ’’عوام کے پیشِ نظر زبان بہت سادہ اور آسان استعمال کی گئی ہے۔‘‘ یہاں خط کشیدہ الفاظ محلِ نظر ہیں۔
’عرضِ مرتب‘ کے تحت لائق مرتب نے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اِس کتابچے کو نفع بخش بنائے۔‘‘ راقم الحروف آمین بلکہ ثم آمین کہتا ہے۔ مگر درمیانی سائز کے 140 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو کتابچہ کہنا کہاں تک درست ہے! ممکن ہے مولانا ضیاء الرحمن اعظمی کی گراں قدر تالیف ’’الجامع الکامل في الحدیث الصحیح الشامل‘‘ (جس سے بھرپور استفادے کا اعتراف بھی مرتب نے کیا ہے) کے پیشِ نظر یہ اسمِ تصغیر استعمال کیا ہو، کیونکہ مولانا کی یہ کتاب بارہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اور ’نفع بخش‘ کی ترکیب بھی گراں گزرتی ہے۔ امید ہے طبعِ ثانی زبان وبیان کی اس طرح کی غلطیوں سے پاک ہوگی۔
یہ بھی توقع ہے کہ عزیزِ موصوف کی اگلی علمی کاوش کا موضوع ’’زکوۃ اور اس کے مصارف‘‘ ہوگا، اور یہ کہ ملک کے موجودہ تعلیمی وسماجی حالات کے تناظر میں آخر الذکر کا معروضی جائزہ لیں گے۔
مزید۔ بے توفیقی ہوگی اگر میں اِس کتاب کے آغاز میں شامل ایک دل پذیر اوردل گداز مضمون بہ عنوان ’’رمضان المبارک کیسے گزاریں؟‘‘ کا ذکرِ خیر نہ کروں۔ مولانا محمد طاہر مدنی (ناظمِ جامعۃ الفلاح) کی خدمت میں جگرمرادآبادی کا یہ شعر پیش ہے ؂
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچ آتے ہیں اے واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے، مانی نہیں جاتی

تبصرے بند ہیں۔