زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر
کاشف لاشاری
زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر
موت تک ہم آ گئے ہیں زندگی کے نام پر
…
بے سبب جو ہو گئی تاخیر رونے میں ذرا
غم اکھٹے ہو گئے ہیں پھر خوشی کے نام پر
…
برہمی کی وجہ بھی مَیں جان پایا تک نہیں
وہ گیا تھا روٹھ کر بس دل لگی کے نام پر
…
مَیں کہاں ہوں دربدر معلوم اب کچھ بھی نہیں
پیرہن پہنی ہے غم کی بے کلی کے نام پر
…
زہر کو تریاق کہہ کر زہر ہی پیتے رہے
عمر بس یونہی گنوا دی ہے کسی کے نام پر
…
ناصحا! تیری نصیحت خوب صورت ہیں مگر!
کیا کروں؟ یہ دل دھڑکتا ہے اُسی کے نام پر
…
ہمنشیں، ہمراز بھی دشمن ہمارے ہو گئے
یعنی غم جھیلے ہیں کاشف! عاشقی کے نام پر
تبصرے بند ہیں۔