زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر

کاشف لاشاری

 زندگی نے روند ڈالا بہتری کے نام پر

موت تک ہم آ گئے ہیں زندگی کے نام پر

بے سبب جو ہو گئی تاخیر رونے میں ذرا

غم اکھٹے ہو گئے ہیں پھر خوشی کے نام پر

برہمی کی وجہ بھی مَیں جان پایا تک نہیں

وہ گیا تھا روٹھ کر بس دل لگی کے نام پر

مَیں کہاں ہوں دربدر معلوم اب کچھ بھی نہیں

پیرہن پہنی ہے غم کی بے کلی کے نام پر

زہر کو تریاق کہہ کر زہر ہی پیتے رہے

عمر بس یونہی گنوا دی ہے کسی کے نام پر

ناصحا! تیری نصیحت خوب صورت ہیں مگر!

کیا کروں؟ یہ دل دھڑکتا ہے اُسی کے نام پر

ہمنشیں، ہمراز بھی دشمن ہمارے ہو گئے

یعنی غم جھیلے ہیں کاشف! عاشقی کے نام پر

تبصرے بند ہیں۔