نقل نویسی: فوری فائدہ اور دائمی نقصان

ساجدہ پروین

(بھساول)

نقل نویسی سے فوری فائدے تو ہوتے ہیں – لیکن حقیقت میں دائمی نقصان ہوتا ہے۔ قابلیت اور مہارت کا فقدان نقل ہی کی دین ہے – ہمیں اکثر یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ

  • کروڑوں روپے کے خرچ سے تعمیر شدہ پل افتتاح سے قبل زمین بوس ہوگیا۔
  • نیم حکیم کے معالجہ سے سینکڑوں افراد لقمئہ اجل ہوگئے۔
  • ہلاکت خیز سانحہ کیلئے غیر تربیت یافتہ عملہ ذمہ دار مختلف میدان ہائے  حیات میں نیم نیم پختہ کاری اور مہارتوں کے فقدان سے اس طرح کے واقعات کے نتیجہ میں انسانی جانوں اور قیمتی وسائل کا زیاں اور بربادی ہوتی ہے۔

گر نقل سے ہوگا امتحان

کھوکھلا ہو جائے گا ہندوستان

نقل نویسی اور اہلیت کی حقیقی جانچ کے بغیر ڈگریوں کا دیا جانا اس صورت حال کو پیدا کرتا ہے کہ سب سے زیادہ گریجویٹس رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت صلاحیت اور اہلیت کی کسوٹی پر نہیں اترتی – ان کی میدان عمل کی کارکردگی ڈگریوں سے فروتر ہوتی ہے۔ نجی کمپنیاں صرف انتہائی ذہین امید وار کو ترجیح دیتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے ان مندرجہ بالا افراد کو دائمی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوپاتا۔ ہمارے یہ طالب علم نقل کی بیساکھیوں سے زیادہ لمبی دوڑ، دوڑ نہیں پاتے۔ جس طرح کسی عدد کے بائیں جانب کئی گنا صفر لگانے سے اس کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے اسی طرح نقل کے ذریعے کئی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اس کی کوئی اہمیت اور قدر نہیں ہوتی ہے – نقل سے ہم ممتحن کو بیوقوف بناسکتے ہے اساتذہ کو بیوقوف بناسکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بیوقوف نہیں بنانا چاہیئے کیونکہ نقل کرکے امتحان میں پاس (کامیاب ) ہوسکتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ناکامیاب رہے گے -اسکول کے وہ طلباء جو صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں محنت صرف کرتے ہیں۔ تو بغیر ٹیوٹر کی مدد کے بغیر کسی بیرونی امداد کے، وہ قابل بن کر ابھرتے ہیں مگر جو طلباء نقل نویسی یا وسیلہ بازی میں اپنی محنت کا استعمال کرتے ہیں بھلے ہی انھیں سند و ڈگری پر فرسٹ کلاس ڈکلیئر کردیا جائے وہ آئندہ زندگی میں غلط سمتوں میں ہی اپنی توانائی صرف کریں گے۔

جو کرتے ہیں نقل

وہ رہ جاتے ہیں بے عقل

 ہمارے قومی دشمن سہولت فراہم کرکے نقل نویسی کا زہر دانستہ طور پر گھول رہے ہے تاکہ قوم اندر سے کھوکھلی ہوجائے، کیا یہ کوئی سازش تو نہیں ہے؟ کہ قوم کو نقل میں مبتلا کرکے ان کی تعلیمی ترقی کو پسماندگی میں تبدیل کردے، شاید یہی وجہ ہے کہ تعلیمی محکمہ جن کی ذمہ داری نقل کو روکنا ہے وہ اسے پروان چڑھاتے ہیں، اپنے ہی قوم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ دوسرے لوگ نقل کررہے وہ لوگ آگے بڑھ جائیں گے اور ہمارے بچے پیچھے رہ جائیں گے۔ حالانکہ نقل سے کوئی آگے نہیں بڑھتا ہے- اسکول سے متعلق صدر مدرس، اساتذہ اور انتظامیہ کی یہ منفی سوچ ہے کہ نتیجہ خراب آنے کی صورت میں تعلیمی محکمہ کو جوابدہ ہونا پڑے گا اور اس کے نتیجہ میں گرانٹ کہی بند نہ ہوجائے، شاید وہ یہ بھول رہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو میٹھا زہر دے رہے ہیں۔  یاد رکھئے زہر میٹھا ہی صحیح پر زہر ہوتا ہے  اور وہ اپنا کام جانتا ہے۔ امتحان میں نقل کوئی معمولی جرم ہی نہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں کی زد سارے سماج پر پڑتی ہے۔

ہم میں سے کوئی پسند نہیں کرےگا کہ ہمارے اپنےعزیز اور چہیتے کی جان محض اس لئے چلی جائےکہ ڈاکٹر کے پاس سند تھی لیکن قابلیت نہیں؛ ہمارا مقدمہ ایسے وکیل کے حوالے ہو جو دوران جرح اپنی ڈگریوں کی لاج نہ رکھ سکے، ہماری اولاد کا مستقبل سنوارنے والے اساتذہ تدریس کا حق ادا کرنے کے اہل نہ ہوں۔

آج اس بات کی شدید ضرورت ہےکہ سماج کو اس لعنت عظمی سے نجات دلائی جائے، معاشرے میں اس برائی کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تعلیمی اداروں کے منتظمین، صدر مدرسین، پرنسپلس ، اساتذہ اور سر پرست حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی صحت مند خطوط پر تربیت کریں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ طلباء نقل کیوں کرتے ہیں اس کے اسباب جانیں اور  تدارک کی ہر ممکن کوشش کریں۔

مزاج بدلو نقل کا

کچھ تو سوچو کل کا

تبصرے بند ہیں۔