زندگی نے مجھے دیا کیا کیا
عبدالکریم شاد
زندگی نے مجھے دیا کیا کیا
دونوں ہاتھوں سمیٹتا کیا کیا
…
وہ اشاروں میں کہ گیا کیا کیا
ہم نے سمجھا بھلا برا کیا کیا
…
کاش! میں عشق بھی نہیں کرتا
ہائے حسرت! نہ کر سکا کیا کیا
…
جب سے عینک لگائی ہے دل کی
کیا بتاؤں، مجھے دکھا کیا کیا
…
ہم نے دیکھا اٹھا کے پردۂ وہم
پاس رہ کر بھی دور تھا کیا کیا
…
گھس کے جب تک یہ سرخ رو نہ ہوئی
رنگ لاتی رہی حنا کیا کیا
…
بند صندوق کی طرح ہیں لوگ
کیا پتا کس میں ہے رکھا کیا کیا
…
فتنہ پرور, ہوا پرست, لعین
اہل حق کو کہا گیا کیا کیا
…
میں نے ہاتھوں میں جب لیا پتھر
آئینے نے دکھا دیا کیا کیا
…
عکس پر مجھ کو بھی تعجب ہے
دیکھتا ہے یہ آئینہ کیا کیا
…
میں نے اک بار کہ دیا تھا سچ
اور لوگوں نے پھر کہا کیا کیا
…
ہر نظارہ نیا نیا سا ہے
دکھ رہا ہے ترے بنا کیا کیا
…
شاد جی! کچھ حساب رکھا ہے
عشق پر خرچ ہو گیا کیا کیا
تبصرے بند ہیں۔