پلوامہ حملہ اور ہماری ذمہ داریاں

محبوب عالم عبدالسلام

2019 کا پارلیمانی الیکشن بالکل قریب ہے اور یہ الیکشن اب تک کے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا انتہائی اہم اور فیصلہ کن الیکشن ہوگا۔ یہ بات سچ ہے کہ جب انسان کا مطمح نظر، محض اقتدار کا حصول اور سیاست کا مقصد، ملک کی ترقی و عروج اور عوامی فلاح و بہبود کے بجائے دولت و ثروت کا حصول ٹھہرے تو انسان اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کر سکتا ہے، عوام کے درمیان اختلافات کی بیج بو کر لڑائی جھگڑا کا راستہ ہموار کرسکتا ہے، دو مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کروا سکتا ہے، اور اس کے لیے اپنی دولت کو بے دریغ خرچ بھی کر سکتا ہے، کیوں کہ اسے ہر قیمت پر اپنی سیاست کو چمکانا مقصود ہوتا ہے۔

حالیہ دنوں ملک کے اٹوٹ حصہ کشمیر میں پلوامہ کے اندر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں تقریباً پچاس فوجی اہلکاروں کی اموات ہوئی اور متعدد زخمی بھی ہوئے، اس دل خراش حملے سے کشمیر کے ساتھ ساتھ پورا ہندوستان بلکہ ساری انسانیت دہل گئی ہے، اور پورے ملک میں سراسیمگی کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، باشندگان ہند میں دہشت گردوں کے خلاف غم و غصے کا لاوا ابل رہا ہے، جس کی بنیاد پر جگہ جگہ دہشت گردوں کے خلاف مارچ نکالا گیا اور فوجی جوان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، حکومت سے  معاملے کی تحقیقات اور چھان بین کی اپیل کی گئی، اور اس میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں نے بھی حصہ لیا اور اپنی حب الوطنی کا ہر ممکن ثبوت دیا، اس سانحے کے خلاف مسلم تنظیموں نے مذمتی بیان جاری کرکے افسوس کا اظہار بھی کیا۔

یہ سانحہ یقیناً بڑا درد ناک اور روح فرسا تھا جس کا احساس ہر ہندوستانی کو ہے؛ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ اس سانحے کو ہندو مسلم کا رنگ دے کر مذہب اسلام پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اور عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرکے ماحول کو پراگندہ کرنا چاہتے ہیں، جب کہ دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلقات نہیں، اسلام سراسر امن و سلامتی اور باہمی اخوت و رواداری کا مذہب ہے، اسلام نے ہر طرح کی ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کی مذمت اور بیخ کنی ہے، اگر کوئی اسلام کا نام لیوا دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے تو وہ دراصل اپنی بے حسی اور شقاوت قلبی کا ثبوت دیتا ہے اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اور پلوامہ کے حملے میں شہید ہونے والے جوانوں میں 5 مسلم فوجی جوان بھی شامل ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے وطن سے اٹوٹ محبت کرتے ہیں، اور اپنے وطن کی آبرو کے لیے سرحد پر سر بھی کٹا سکتے ہیں، اس لیے ان کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کرنا، انھیں غدار وطن کہنا، اُن کے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینا اور انھیں ملک چھوڑ کر پاکستان جانے کی دھمکی دینا سراسر تنگ نظری اور تعصب پسند ذہنیت کی علامت ہے۔

اس افسوس ناک سانحے کے بعد حکومتی و غیر حکومتی پلیٹ فارم سے یہ ہونا چاہیے تھا کہ کشمیر کے سانحے کے بعد مرنے والے فوجی جاں بازوں کے اہل و عیال کے دکھ درد میں شریک ہوا جاتا اور ان کی ڈھارس بندھائی جاتی اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کے جاتے؛ لیکن برا ہو اس سیاست کا کہ کچھ شرپسندوں نے اس اندوہ ناک سانحے کو اپنی سیاست چمکانے کا ذریعہ بنا لیا، اس کو ہندو مسلم کا نام دے دیا، اور پاکستانی تنظیم "جیش محمد” کی آڑ میں سارے مسلم برادری کو ٹارگٹ بنانے لگے، ملک کی اکثر یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبہ و طالبات کو ہراساں کیا گیا، کشمیر کے اندر بے قصور مسلمانوں کی گاڑیاں نذر آتش کی گئیں، بی جے پی کی کفش بردار میڈیا نے اس واقعے کو ہندو مسلم رنگ دینے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا اور اسے خوب اچھالا اور اس سانحے کو لے کر آنے والے دنوں میں کچھ سیاست دان اپنی سیاسی روٹی بھی خوب سینکیں گے۔

اس لیے ایسے حالات میں ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ پوری ہوش مندی اور باشعوری کا ثبوت دیں، صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور شوشل میڈیا مثلاً فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب وغیرہ پر آنے والے اشتعال انگیز بیانات سے ہرگز مشتعل نہ ہوں، کیوں کہ بعض بیانات صرف عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے ہی دیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کے مابین اختلاف ہو، اور فرقہ پرست عناصر کو اُس سے ناجائز فائدہ پہنچے، اسی طرح ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ ڈالنے اور شئیر کرنے سے بھی احتراز کریں، جہاں بھی رہیں سکون و اطمینان کے ساتھ رہیں کسی کے ساتھ الجھنے اور حالیہ موضوع پر بے جا گفت و شنید سے گریز کریں، سفر وغیرہ میں خاص طور سے سکون کا ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔