پلوامہ سانحہ کیسے ہوا؟

اے۔ رحمان

جرم تہذیب انسانی سے قدیم تر ہے۔ بلکہ تاریخ اسلام کے زاویے سے دیکھیں تو جرم غالباً انسان کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا کیونکہ پہلا قتل قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا کیا۔ توریت، انجیل اور قرآن تینوں اس پر شاہد ہیں۔ تہذیب کے آغاز کے ساتھ ہی مصر، میسوپوٹامیہ اور چین میں جرم و سزا کے واضح تصورات کو عمل  میں لائے جانے کی ثبوت موجود ہیں۔ لیکن ایک پر امن معاشرتی ضابطے کا خاکہ وجود میں آنے کے باوجود ایسا کوئی محکمہ، منظم جماعت یا ادارہ نہیں تھا جو اصول، ضابطے یا قانون کے نفاذ کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہو۔

قدیم روم کی ’شہری ریاست‘ کے قیام کے بعد بعض قوانین اور امن عامہ کے تحفظ کا بنیادی تصور عام ہو چکا تھا لیکن ’ پولیس‘ جیسی کوئی تنظیم نہیں قائم ہوئی تھی جو نقص امن اور جرائم کی روم تھام کرنے پر مامور ہو۔ روم میں فوج کا داخلہ ممنوع تھا۔ ارتکاب جرم ہونے کی صورت میں تفتیش مجسٹریٹ کرتا تھا اور مجرم کے گرفت میں آ جانے کے بعد وہی اس کو سزا دیتا تھا۔ لیکن اس نظام میں ایک نہایت اہم چیز ایجاد ہوئی اور وہ تھے خفیہ مخبر جو معاوضے کے لالچ میں مختلف قسم کی اطلاعات خفیہ طور پر مجسٹریٹو ں اور دیگر ’سرکاری‘ عہدیداران کو مہیا کرتے تھے۔ دنیا کے نسبتاً ترقی یافتہ ممالک میں اسی قسم کے مخبروں کی بدولت نفاذ قوانین کا سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ1822 میں انگلینڈ کے ہوم سکریٹری رابرٹ پیل کو ایک منظم محکمہ قائم کرنے کا خیال آیا اور اس کی تجویز اور دیئے گئے خاکے پر برطانوی پارلیمنٹ نے 1829 میں میٹرو پولٹین پولیس ایکٹ پاس کیا جس کے تحت مرکزی لندن کے لیے میٹرو پولٹین پولیس کے نام سے ایک باقاعدہ اور منظم محکمہ پولیس کا قیام عمل میں آیا (آج بھی لندن میں پولیس کانسٹبل کو ’بابی‘ کہا جاتا ہے جو انگریزی نام ’رابرٹ‘ کی تصغیر ہے)۔

اس وقت تک یہ ادراک بھی کیا جا چکا تھا کہ مہذب معاشرے میں پولیس کا بنیادی فرض تفتیش جرائم اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے سے زیادہ جرائم کی روک تھام ہے (اسی لیئے Preventive Action of Police کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے) لہذٰاپولیس کی ساری کارکردگی کا انحصار مخبری او رمخبروں پر ہو گیا۔ ہندوستان میں سیاسی تسلط قائم کرنے کے بعد یہاں بھی انگریز پولیس افسران نے تھانوں میں مقامی مخبری کو رواج دیا اور انسداد یا تفتیش جرائم میں مخبروں کے کردار کو نہایت اہم سمجھا گیا۔ پولیس کے یہ مخبر عام طور پر خود چھوٹے موٹے جرائم پیشہ ہوتے تھے جن کو اہم خفیہ اطلاعات کی فراہمی کے عوض پیسہ بھی ملتا تھا اور پولیس ان کے دیگر کرتوتوں سے چشم پوشی بھی کرتی تھی۔ آج بھی ٹیکنا لوجی کی اتنی ترقی کے باوجود کوئی محکمۂ پولیس یا اعلیٰ درجے کی انٹیلی جنس ایجنسی ایسی نہیں جو مقامی مخبروں کے بغیر کام چلا سکے۔ ملک بھر میں تمام تھانو ں اور محکمہ پولیس کے دیگر شعبوں سے بے شمار مخبر وابستہ ہوتے ہیں جن کا کام مجرموں اور ممکنہ جرائم سے متعلق اطلاعات بہم پہنچانا ہے۔ سی۔ بی۔ آئی، کسٹمز، ڈی۔ آر۔ آئی، انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ وغیرہ محکمہ جات کی کارکردگی کا انحصار بھی کافی حد تک ان کے مخبرو ں پر ہے۔ دہشت گردی کے شعبوں اور محکمو ں کا تو یہ معاملہ ہے کہ تقریباً ہر چھوٹے بڑے افسر کے اپنے مخبرانِ خاص ہوتے ہیں جو براہِ راست ’اپنے ‘ افسر کو اطلاعات اور خفیہ خبریں دیتے ہیں۔  اجمال اس تٖفصیل کا یہ ہے کہ کشمیر میں پاکستان کی ISI کے ذریعے پھیلائی گئی دہشت گردی اور وادی کے ناگفتہ بہ سیاسی حالات کے پیش نظر پولیس، فوج، نیم فوجی محکموں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مخبرو ں کا جو پرت در پرت اور تہہ در تہہ جال ہے وہ پوری دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھا جاتا۔ سب سے پہلے اور سامنے تو محکمۂ پولیس ہے جس میں اسپیشل کرائم برانچ اور انسدادِ دہشت گردی شعبہ ہے جس سے مختلف اقسام کے مخبر وابستہ ہیں۔ اس کے بعد سی۔ آئی۔ ڈی کی خفیہ برانچ ہے اس کے اپنے مخبر ہیں۔ پھر ایک اہم خفیہ پرت مرکزی انٹیلی جنس اور اس کے سرکاری اور غیر سرکاری مخبروں کی ہے۔ اس کے بعد آرمی انٹیلیجنس اور اس کے مقامی ذرائع ہیں۔ بی۔ ایس۔ ایف  اور سی۔ آر۔ پی۔ ایف کے اپنے خفیہ شعبے  اور مخبران ہیں، اور ان سب پر مستزاد ہے ریسرچ اینڈ انالسس ونگ یعنیRAWجو ملک کی سلامتی کے لیے بیرونِ  ملک جاسوسی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ انٹیلیجنس بیورو یعنی IB بنیادی طور پر درون ِ ملک سلامتی اور سیاسی حالات کی نگرانی پر مامور ہے لیکن کشمیر واحد صوبہ ہے جہاں IB  اور RAW  دونوں ہی مستقل سر گرم ِ عمل ہیں۔ ’ را‘ RAW کو دنیا کی ہر وہ سہولت اور ٹیکنا لوجی میسر ہے جو پیسے سے خریدی جا سکتی ہے۔ وادی میں جگہ جگہ نصب خفیہ کیمروں اور سیٹیلائٹ کی مدد سے ہر قسم کی  انسانی اور مشینی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اب تو ان دشوار گزار پہاڑی راستوں اور درّوں میں جہاں سے در اندازی ممکن ہے اس قسم کے خفیہ آلات نصب کر دیئے گئے ہیں جو انسان کے قدموں کی دھمک اور جانوروں کے پیروں کی چاپ تک کو محسوس کر کے اپنے کنٹرو ل روم کو پہنچا دیتے ہیں جہاں بیٹھے ہوئے تجزیہ کار کسی بھی قسم کی ممکنہ در اندازی سے ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ نہایت ترقی یافتہ مواصلاتی آلات ہیں جو ہر وائر لیس نشرئیے، موبائل فون کالSMS کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات او رای۔ میل کوInterceptکر لیتے ہیں۔ اب تو WhatsApp بھی ان کے مکمل کنٹرول میں ہے کیونکہ دہشت گردی کے معاملے میں  دنیا بھر کے ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ وادی میں جتنی بھی کاریں اور دوسری گاڑیاں ہیں ان سب کی مکمّل تفصیلات انٹیلیجنس ایجنسیوں اور پولیس کے کمپیوٹروں میں محفوظ ہیں۔ ہر وہ گاڑی جو بانہال کی سرنگ عبور کر کے وادی میں داخل ہوتی ہے اس کی تفصیل فوراً تمام ایجنسیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ درمیانہ درجے کی بھاری گاڑیاں جنہیں SUV کہا جاتا ہے خصوصی طور پر ایجنسیوں کے راڈار پر رہتی ہیں (یاد رہے کہ سی۔ آر۔ پی کی بس سے ٹکرانے والی گاڑی Scorpio  یعنی SUV  ہی تھی۔ غرض یہ کہ وادی میں ہونے والی ہر قسم کی نقل و حرکت اور پیغام رسانی ’را‘ RAW پر آشکار رہتی ہے اور ان کے ایکسپرٹ پوری وادی کے پرندوں کی چہچہاہٹ اور مکھّیوں کی بھنبھناہٹ تک سننے پر قادر ہیں۔ اب آئیے Explosiveیعنی دھماکہ خیز مادوں پر۔ وادی میں عام آتشبازی اور پٹاخوں میں استعمال ہونے والے  معمولی سفوف اور دیگر اشیا بھی دستیاب نہیں ہیں چہ جائیکہ تباہ کن دھماکے کی صلاحیت رکھنے والے کیمکلز وغیرہ۔ سڑکیں بنانے کے لیئے پہاڑیوں کو ڈائنا مائٹ سے اڑایا جاتا ہے لیکن وہ ڈائنا مائٹ بھی حکومت کی آرڈیننس فیکٹری میں بنتا ہے اور صرف بارڈر روڈ آرگنائزیشن (BRO ) کو ہی دستیاب ہو سکتا ہے۔ جس قسم کاExplosiveپلوامہ حملے میں استعمال ہوا(RDX یا اس سے بھی زیادہ خطرناکC-4وغیرہ) وہ صرف ان کارخانوں میں بنایا جا سکتا ہے جو حکومت اور فوج کی نگرانی میں چلائے جاتے ہیں اور نہایت خفیہ ہوتے ہیں۔ کسی غیر سرکاری فرد یا تنظیم کو اس قسم کی تباہ کن اشیا دستیاب ہونا ممکن نہیں۔ اس قسم کے دھماکہ خیز اور خطرناک مادوں تک صرف ان دہشت گرد جماعتوں کی رسائی ہے جن کی سر پرستی بعض حکومتیں کرتی ہیں۔ لہذا بات صاف ہے کہ پلوامہ میں ہوئے حملے میں استعمال ہونے والاExplosiveپاکستان کیISI نے ہی مہیا کیا ہوگا۔ اب یہ دیکھئے حملہ کیسے ہوا۔ سی۔ آر۔ پی۔ ایف کے قافلے کی نقل و حرکت کی اطلاع دہشت گردوں کو پہلے سے تھی۔ قافلے کے روٹ کا علم بھی انھیں تھا۔ دو سو سے تین سو کلو تک Explosiveجو حملے میں استعمال ہوا وہ حاصل کیا جا چکا تھا۔ کار کا انتظام ہو چکا تھا۔ کون سی بس (جو بکتر بند نہیں تھی) سے کار کو ٹکرانا ہے  یہ بھی حملہ آور کو معلوم تھا۔ منصوبہ ہر لحاظ سے مکمل تھا اور جتنی مہارت اور قطعیت  (military precision )سے اسے عمل میں لایا گیا وہ کسی فوج کے بہترین دماغوں کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یہاں بھی پاکستانیISI کا رول ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ خود کش دہشت گرد اور فدائین کو پاکستان میں ہی تربیت دے کر کشمیر اور ہندوستان میں بعض دیگر جگہوں پر دہشت گرد کاروائیوں کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ پلوامہ جیسے حملوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے پس پردہ نہایت ماہر اور اعلیٰ تربیت یافتہ دماغوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ خود ’را‘ کے سابقہ سربراہ وکرم سود نے تسلیم کیا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ماہرین کا پورا گروپ رہا ہو گا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جدید ترین جاسوسی آلات اور مخبروں کا منظم جال ہوتے ہوئے بھی کسی ایجنسی کو اس شیطانی منصوبے کی سن گن تک نہیں لگی۔

 جہاں ایک جانب اسے دہشت گردوں کی کامیابی کہا جائے گا وہیں دوسری جانب یہ ہماری انٹیلیجنس کی شرمناک ناکامی ہے اور وکرم سود نے اس کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ایک اہم اور پریشان کن نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ حملہ اس وقت ہوا ہے جب عام انتخابات سر پر ہیں لہذٰا حملے کے نتیجے میں ہونے والی سیاسی شورش بھی دہشت گردوں کے پیش ِ نظر رہی ہوگی۔ حفاظتی انتظامات کی درج بالا تفصیل اور اس کے باوجود ہوئے اس حملے سے پیدا شدہ صورت ِ حال ایک عام انسان کے ذہن میں بھی کس قسم کے اور کون سے سوالات کو جنم دیتی ہے ان کا ذکر ضروری نہیں ہے، لیکن دہشت گردوں نے ہماری سیکوریٹی اور انٹیلیجنس میں کہاں سیندھ لگائی اور کون سے خفیہ راستے یا ذرائع دریافت کر لیئے اس کا فوری علم ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کی غیر انسانی اور تباہ کن کاروائیوں کا سدّ ِ باب ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔