زندگی نے مجھے دیا کیا کیا

عبدالکریم شاد

زندگی نے مجھے دیا کیا کیا

دونوں ہاتھوں سمیٹتا کیا کیا

وہ اشاروں میں کہ گیا کیا کیا

ہم نے سمجھا بھلا برا کیا کیا

کاش! میں عشق بھی نہیں کرتا

ہائے حسرت! نہ کر سکا کیا کیا

جب سے عینک لگائی ہے دل کی

کیا بتاؤں، مجھے دکھا کیا کیا

 ہم نے دیکھا اٹھا کے پردۂ وہم

پاس رہ کر بھی دور تھا کیا کیا

گھس کے جب تک یہ سرخ رو نہ ہوئی

رنگ لاتی رہی حنا کیا کیا

بند صندوق کی طرح ہیں لوگ

کیا پتا کس میں ہے رکھا کیا کیا

فتنہ پرور, ہوا پرست, لعین

اہل حق کو کہا گیا کیا کیا

میں نے ہاتھوں میں جب لیا پتھر

آئینے نے دکھا دیا کیا کیا

عکس پر مجھ کو بھی تعجب ہے

دیکھتا ہے یہ آئینہ کیا کیا

میں نے اک بار کہ دیا تھا سچ

اور لوگوں نے پھر کہا کیا کیا

ہر نظارہ نیا نیا سا ہے

دکھ رہا ہے ترے بنا کیا کیا

شاد جی! کچھ حساب رکھا ہے

عشق پر خرچ ہو گیا کیا کیا

تبصرے بند ہیں۔