سانس ممکن کہاں ہے راحت کی

افتخار راغبؔ

سانس ممکن کہاں ہے راحت کی

حد نہیں خواہش و ضرورت کی

تیرا پیکر وجود میں آئے

جب بھی تجسیم ہو محبت کی

اب کہاں مجھ کو اعتراض کوئی

اب کہاں وہ لڑی شکایت کی

یاد کرتا ہوں روز وار ترے

داد دیتا ہوں اپنی ہمّت کی

فیصلہ جو بھی ہو محبت کا

طے ہو تاریخ تو سماعت کی

قوّتِ ضبط ہار مان نہ لے

بے قراری ہے کتنی شدّت کی

کھُلنے لگتے ہیں باب فرقت کے

انتہا ہی نہ ہو قرابت کی

کیا بتاؤں کہ اپنی موت سے قبل

دل نے کس بات کی وصیّت کی

کیا مساوات کے ہے کاندھوں پر

لاش تہذیب اور ثقافت کی

کیا محبت قبول کر لے گی

شرط آزادیِ محبت کی

چھلنی چھلنی بدن اخوّت کا

روح مجروح آدمیّت کی

کچھ بھی سنتا کہاں ہے دل راغبؔ

خاک بدلے گی رُت اذیّت کی

تبصرے بند ہیں۔