سانس ممکن کہاں ہے راحت کی
افتخار راغبؔ
سانس ممکن کہاں ہے راحت کی
حد نہیں خواہش و ضرورت کی
…
تیرا پیکر وجود میں آئے
جب بھی تجسیم ہو محبت کی
…
اب کہاں مجھ کو اعتراض کوئی
اب کہاں وہ لڑی شکایت کی
…
یاد کرتا ہوں روز وار ترے
داد دیتا ہوں اپنی ہمّت کی
…
فیصلہ جو بھی ہو محبت کا
طے ہو تاریخ تو سماعت کی
…
قوّتِ ضبط ہار مان نہ لے
بے قراری ہے کتنی شدّت کی
…
کھُلنے لگتے ہیں باب فرقت کے
انتہا ہی نہ ہو قرابت کی
…
کیا بتاؤں کہ اپنی موت سے قبل
دل نے کس بات کی وصیّت کی
…
کیا مساوات کے ہے کاندھوں پر
لاش تہذیب اور ثقافت کی
…
کیا محبت قبول کر لے گی
شرط آزادیِ محبت کی
…
چھلنی چھلنی بدن اخوّت کا
روح مجروح آدمیّت کی
…
کچھ بھی سنتا کہاں ہے دل راغبؔ
خاک بدلے گی رُت اذیّت کی
تبصرے بند ہیں۔