سبق ملا ہے مجھے یہ معراج مصطفی سے
واقعۂ معراج کے لامتناہی پیغامات ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق ان گنت ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ اس واقعہ کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور اس پر محض ایک واقعہ سے زیادہ عملی زندگی میں رہنمائی کرنے والے سیرت کے ایک اہم گوشہ کے طورپر غور کیا جائے ، اس واقعہ سے حاصل ہونے والے چند اسباق سطورِ ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں؛ تاکہ نگاہِ عبرت رکھنے والے اہلِ ایمان ان سے فائدہ اٹھائیں:
(۱) طائف میں ستانے والے کفار اور مکہ میں ٹھکرانے والے مشرکین پر اس واقعہ کے ذریعہ واضح کردیاگیا کہ تم نے نبی پر زمین کے دروازے بند کردئیے تو اللہ نے ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے۔ تم نے نبی ﷺ کی امامت واقتدا ء کو قبول نہ کیا تو اللہ آپ ﷺ سے انبیاء علہیم السلام کی امامت کروائی اور سب نے آپ ﷺ کی اقتدا کی، اہلِ زمین نے آپ ﷺ سے منہ پھیر ا تو آسمان والے نے آپ ﷺ کا استقبال کیا۔
(۲) واقعۂ معراج سے آخرت جنت و دوزخ اور وہاں کی نعمتوں اور تکلیفوں کا یقینی ہونا معلوم ہوتا ہے ، اس لئے کہ اللہ نے اس واقعہ میں اپنے نبی ﷺ کو جنت و دوزخ کی سیر کرائی اور اہل جنت اور اہل دوزخ کے حالات کا مشاہدہ کروایا۔
(۳) دین حق کا داعی جب ستایاجاتا ہے اور وہ لوگوں کی اذیتوں کے باوجود اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا ئنات کی ساری طاقتوں کو اس کے لئے مسخر کردیتے ہیں، واقعۂ معراج میں ساری کائنات آپ ﷺ کے لئے مسخر کردی گئی ، حتیٰ کہ زمان و مکان بھی مسخر کردئیے گئے۔
(4) واقعۂ معراج بتاتا ہے کہ داعی اگر اپنی دعوت میں ثابت قدم رہے تو آخر کار خدا اس کا حامی و مددگاربن جاتا ہے، خدا اپنے داعیوں کو آزماتا ضرور ہے مگر بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا، داعی کو دعوت کی راہ میں پیش آنے والی تکلیفوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔
(۵) واقعۂ معراج سے دین اسلام اور پیغمبراسلام کی رفعت شان کا اظہارہوتا ہے کہ اللہ نے آپﷺ کو ایسے مقام پر پہنچایا جہاں تک نہ کوئی پیغمبر جاسکا اور نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ، سارے نبیوں میں یہ اعزاز صرف آپ ﷺ ہی حاصل ہوا، حتیٰ کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی پیچھے رہ گئے، اللہ نے نبیوں کی امامت کرواکر ساری انسانیت پر واضح کردیا کہ اب سب کے مقتدا صرف نبی آخر الزماں ﷺ ہیں، آپ ﷺ کا دین سارے دینوں پرغالب ہے۔
(6) واقعۂ معراج قبلہ اول بیت المقدس کے سلسلہ میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے، یہیں سے آپ ﷺ کو معراج نصیب ہوئی اور یہ آپ ﷺ اور سارے مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، جہاں آپ ﷺ نے سارے نبیوں کی امامت فرمائی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معراج کے اس سبق کو یاد رکھا اور اس کے تقاضوںپر عمل کرتے ہوئے بیت المقدس کو آزاد کرایا ، لیکن افسوس موجودہ دور کے مسلمان بیت المقدس کی آزادی اور قبلۂ اول کی یازیابی سے بالکلیہ غافل ہیں، یہودی آئے دن اس کی توہین کررہے ہی اور اس کے صحن میں موسیقی کی محفلیں منعقد کررہے ہیں اور اسے ڈھانے کی ساری تدبیریں مکمل کرچکے ہیں، لیکن عالم اسلام غفلت سے دوچار ہے۔
(۷) واقعۂ معراج ہمیں اس بات کا بھی پیغام دیتا ہے کہ ہم روحانی طورپر اس قدر عروج کریں کہ ہمیں وصول الی اللہ کی دولت حاصل ہوجائے ، موجودہ دور روح سے بے اعتنائی کادور ہے ، اس وقت ساری توانائیاں صرف جسم کو سنوارنے پر جھونکی جارہی ہیں، مادیت کا اس قدر تسلط ہے کہ روحانی اقدار قصۂ پارینہ بن کر رہ گئیں ، معراج دراصل ظلمت سے نور کی جانب اور شک سے یقین کی جانب اور معصیت سے اطاعت کی جانب سفر ہے ، یہاں نور ہی نور ہے اور طاعت ہی طاعت ہے، ظلمت و معصیت کا دور دور تک گزر نہیں ہے۔
(۸) معراج کاواقعہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے پناہ مہربان ہے، اسی مہربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازوں کو کم کرکے پانچ مقرر فرمائی اورکبیرہ گناہ کرنے والا موت سے پہلے سچی توبہ کرلے تو اس کے گناہوں کی مغفرت کا اعلان فرمایا۔
(۹) واقعۂ معراج استقامت اور ثبات قدمی کا پیغام دیتا ہے کہ دین کی راہ میں کیسی ہی دشوار گھاٹیاں آئیں مسلمان کو ثابت قدم رہنا چاہئے، جس طرح نبی ﷺ پر معراج سے پہلے انتہائی دشوار گھاٹیاں آئیں مگر آپ ﷺ کے پائے ثبات میں کسی طرح کا تزلزل نہ آیا اور آپ ﷺ دعوتِ دین پر ثابت قدم رہے۔
(۱۰) کائنات میں اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ کو سخت تکالیف سے گزارا گیا پھر معراج کے ذریعہ آسانیوں کا سلسلہ شروع ہوا، ایک مسلمان کو پے درپے آنے والی دشواریوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
(۱۱) واقعۂ معراج نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، تمام فرائض میں نماز ایک مہتم بالشان فریضہ ہے، سارے فرائض زمین پر فرض کئے گئے لیکن نماز کاتحفہ آسمان پر دیا گیا، نماز مومن کی معراج ہے، حالتِ نماز میں بندہ گویا اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔
(۱۲) واقعۂ معراج قیادت کی تبدیلی اور اس بات کا اشارہ ہے کہ عالمی قیادت بنی اسحاق کے ہاتھوں سے لے کر بنی اسماعیل کے حوالے کردی گئی ، مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کی امامت اس بات کا لطیف اشارہ ہے کہ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوموں کے لئے نبی آخر الزماں ﷺ کی اتباع کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ، اب پچھلی ساری شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں اور ساری قوموں کو آخری پیغمبرﷺ کے تابع ہونا پڑے گا۔
(۱۳) واقعۂ معراج اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ دنیا دار المحن ہے، یہاں انسان کو قدم قدم پر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نبی ﷺ نے معراج سے پہلے قدم قدم پر مشتقوں کا سامناکیا اس کے بر خلاف عالم بالا اور عالم آخرت ایک مسلمان کے لئے راحت کاحقیقی مقام ہے ، اس لئے دارالمحن میں پیش آنے والی تکلیفوں پر آزردہ خاطر نہ ہونا چاہئے، یہاں کی چند روزہ تکلیفوںکو برداشت کرتے ہوئے دین پر قائم رہیں گے تو ہمیشہ کی راحتیں حاصل ہوں گی۔
(14) واقعۂ معراج میں اسلام کے دینِ فطرت ہونے کالطیف اشارہ پایا جاتا ہے ، اسلام کی تیز رفتار اشاعت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور دینِ فطرت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں فطرت انسانی کو اپیل کرتا ہے ، عالم اسلام کے معروف داعی و مفکر شیخ سعید رمضان بوطی اپنی شہرہ آفاق کتاب فقہ السیر میں لکھتے ہیں ’’حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی ﷺ کی خدمت میں دو پیالے پیش کئے ان میں سے ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرا شراب کا، آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے فطرت کو اختیار کیا اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دین فطرت ہے اور اپنے عقیدے اور احکام میں فطرت انسانی کے حقیقی تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کی حقیقی فطرت سے ٹکراتی ہو اگر فطرت ایک جسم ہوتی تو دینِ اسلام اس کا موزوں لباس ہوتا ، یہ ہے اس چیز کا راز کہ یہ دین کیوںتیزی سے پھیلتا ہے اور لوگ اسے قبول کرنے کے لئے دیوانہ وار آگے بڑھتے ہیں ، اس لئے کہ انسان خواہ تہذیب و تمدن کے کتنے ہی مدارج طئے کرلے اور اسے کتنی ہی مادی آسائش حاصل ہوجائے لیکن وہ اپنی فطرت کے تقاضوں کی تکمیل اور فطرت سے میل نہ کھانے والے تکلفات اور پیچیدگیوں کے طوق سے آزادی حاصل کرنے کی جانب مائل رہتا ہے اور اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو فطرت انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل ہے۔
(۱۵) واقعۂ معراج کے کچھ اور اسرار و رموز : شیخ سعید رمضان بوطی نے واقعۂ معراج پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے کچھ اور اسرار ورموز تحریر فرمائے ہیں؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں : بیت المقدس تک آنحضرت ﷺ کے سفر اور وہاں سے ساتوں آسمانوںمیں آپﷺ کی تشریف آوری کے درمیان زمانی تعلق سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس گھرکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت و تقدس حاصل ہے، اس سے اس کا بھی واضح ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم اورحضرت محمد ابن عبداللہ علیہما السلام کی تعلیمات کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے اور یہ کہ تمام انبیاء علیہم السلام کواللہ تعالیٰ نے ایک ہی دین کے ساتھ مبعوث کیا تھا،اس سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہر زمانہ میں اور ہرآن اس ارضِ مقدس کی حفاظت اوربیرونی لوگوں اور دشمنانِ دین کے ناپاک ارادوں سے اس کی مدافعت کی کوشش کرنی چاہئے، گویا حکمتِ الٰہی اس زمانے کے مسلمانوں کو ہوشیارکرر ہی ہے کہ اس مقدس سر زمین پر یہود کی جارحیت کے سامنے کمزوری اور بزدلی اور پست ہمتی کا مظاہرہ نہ کریں اوراسے ان کے ناپاک تسلط سے آزاد کرکے اس پر اہل ایمان کا قبضہ بحال کریں۔
(16) واقعۂ معراج دراصل لوگوں کے ایمان کے جانچنے کی کسوٹی ہے؛ چونکہ یہ خرق عادت واقعہ تھا، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر اس زمانے میںدو مہینوں پرمحیط ہوتا تھا لیکن آپ ﷺ نے سکنڈوں میں طئے کیا پھر عالم بالا کی سیر کرائی گئی ، ظاہر ہے کہ ایسے حیرت انگیز واقعہ پر یقین کرنا عام انسان کے لئے مشکل ہوتا ہے، چنانچہ یہ واقعہ کافروں کے کفر میں اضافے کا ذریعہ بنااور ایمان والوں نے تصدیق کرکے اپنے ایمان کو پختہ کیا۔
(۱۷) معراج مسجد حرام کے بجائے مسجد اقصیٰ سے کرائی گئی، اس میں اسلام کی عالمگیریت کی جانب اشارہ ہے اور مسلمانوں کو پیغام دیاجارہا ہے کہ وہ اسلام کو لیکر اقطاع عالم میں پھیل جائیں، مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کی امامت کا مطلب یہی ہے کہ اب اسلام ساری اقوام عالم کا واحد دین ہے۔
(۱۸) اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آدمی کو سابقہ لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے، پچاس نمازوںکی فرضیت کے بعد جب آنحضور ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئی تو انہوں نے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تخفیف کروانے کا مشورہ دیا اور یہ فرمایا کہ میںنے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں تجربہ کیا ہے ، لوگ اس کے متحمل نہیں ہوں گے ، آنحضور ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تخفیف کروائی۔
(۱۹) معراج سے اتحاد و اتفاق کابھی درس ملتا ہے، وہ اس طرح کہ ہرآسمان پر نبی کریم ﷺ کی مختلف نبیوں سے ملاقات ہوئی ، سارے نبیوں نے مرحبا بالاخ الصالح کے ذریعہ آپ ﷺ کا استقبال کیاجبکہ بیشتر انبیاء کی شریعتوں میں فرق پایاجاتا ہے، اس کے باوجود سب نے بھائی کہہ کر آپ ﷺ کااستقبال کیا، اس میں اخوت و اتفاق کی جانب اشارہ ہے، آج امت کی عجیب صورت حال ہے، ایک کلمہ ایک قرآن اور ایک کعبہ کی حامل امت باہم دست وگریباں ہے، مسلکی تشددبام عروج پر ہے، اس میں جانیں تک ضائع ہورہی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد پارہ پارہ ہورہا ہیء، پیغمبر اسلام ﷺ نے جس ملت کو قدم قدم پر درس اتحاد دیا تھاآج وہ مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔
(۲۰) قرآن مجید میں اسراء کاذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ’’سبحان الذی أسری بعبدہ‘‘ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے چلی ۔ اس آیت میں نبی کریم ﷺ کے لئے لفظ عبد کا انتخاب اتفاقی نہیں ہے، مقام عبدیت سب سے اونچا مقام ہے، ہر فضیلت والے موقع پراللہ نے آپ ﷺ کے لئے لفظ عبداختیارفرمایا ہے، جس میںاشارہ ہے کہ آپ ﷺ عبدیت کے نہایت بلند مقام پر فائز ہیں، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے یہاں ہرقسم کی سر بلندی کامل عبدیت سے حاصل ہوتی ہے۔
(۲۱) سفر معراج میں مختلف آسمانوں پر متعدد انبیا کرام علیہم السلام سے ملاقات ہوئی، پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے دوسرے پر حضرت عیسیٰ و یحییٰ علیہما السلام سے تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے پانچویں پرحضرت ہارون علیہ السلام سے چھٹویںپر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ایک لاکھ سے زائد انبیاء کرام علیہم السلام میں سے مذکورہ چند انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب اتفاقی نہیں ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات میں حکمت یہ ہے کہ آپ ﷺ کو ان کے ساتھ پیش آئی صورت حال سے تسلی حاصل ہوجائے انہیں بھی اپنے وطن اصلی جنت سے نکالا گیا تھا اور آپ ﷺ کو بھی مکہ مکرمہ سے نکالا گیا ، حضرت عیسیٰ و یحییٰ علیہما السلام کے ساتھ یہودیوں نے انتہائی درجہ کی عداوت و دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا، ان سے ملاقات کرواکر گویا یہ اشارہ دیاگیا کہ آپ ﷺ کو بھی مدینہ منورہ میں یہودیوں کی عہد شکنی اور ان کی سازشوںکا سامناکرنا ہوگا، حضرت یوسف علیہ السلام کو خود ان کے بھائیوںکی جانب سے ظلم سہناپڑا تھا اورانہوں نے اس پر صبر کیا، مکہ مکرمہ میں آپ ﷺ کے ساتھ بھی اپنوں نے یہی برتائو کیا اور آپ ﷺ کو قتل کرنے کا تک منصوبہ بنایا، ادریس علیہ السلام کو اللہ نے رفعت مقام عطا فرمایا تھاجہاںتک پہنچنا ہرشخص کے لئے ممکن نہیں تھا، آپ ﷺ کو معراج سے سرفراز فرما کر ان سے بلند مقام عطا فرمایا گیا، حضرت موسیٰ و ہارون علیہماالسلام کے ساتھ ان کی قوم نے بڑی بد تمیزی کا معاملہ کیا تھا، ان سے ملاقات کروا کر آپ ﷺ کوتسلی دی گئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے آخری آسمان پربیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے ‘ان سے ملاقات کے ذریعہ اشارہ دیاگیا کہ آپ ﷺ کی عمر کا اختتام بھی حج بیت اللہ پر ہوگا۔
(۲۲) معراج کا واقعہ بتاتا ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے اللہ ہدایت نہ دیں وہ سارے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے گا ، جب آپ ﷺ معراج سے واپس لوٹے اور کفار مکہ کو اس کی تفصیلات سنائیں تو کفار مکہ نے بیت المقدس کے متعلق مختلف سوالات کئے۔اللہ نے بیت المقدس کو آپ ﷺ کے روبرو کردیا آپ ﷺ نے ان کے ہر سوال کاجواب دیا، مگر پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے، اس لئے کہ ان کے حق میں ہدایت مقدر نہیں تھی۔
(۲۳) واقعہ معراج سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کے گھر جائے اور دروازہ کھٹکھٹائے اور اندر سے آنے والے کے متعلق سے دریافت کیا جائے تو آنے والے کو اپنا نام ذکر کرنا چاہئے، ’’میں‘‘ کہنا درست نہیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام حضورﷺ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہونچے ، آسمان کا دروازہ بند تھا ، فرشتوں کے دریافت کرنے پر آپ علیہ السلام نے جواب میں جبرئیل کہا۔
(24) معراج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کے بعد جب آپ ﷺ رخصت ہونے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام رونے لگے ان سے پوچھا گیاکہ آپ کیوں رورہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میرے بعد مبعوث ہونے والے پیغمبر محمد ﷺ کی امت میری امت سے زیادہ تعداد میںجنت میںداخل ہوگی، (بخاری ، مسلم) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضور ﷺ پراس قدر غبطہ اور رشک تھا مگر اس کے باوجود انہوںنے نبی ﷺ کے ساتھ ایسی ہمدردی و خیر خواہی فرمائی کہ آپ ﷺ پچاس نمازیں لے کر لوٹے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کروانے کا مشورہ دیا، ان کا طرز عمل یہ واضح کرتا ہے کہ کسی کی خوبیوں پر حسرت ہونے کے باوجود اس کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی ہونی چاہئے، اس کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کوکوئی نعمت مل جائے تو لوگ اس سے حسد کرنے لگتے ہیں اور اس کی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا رکھتے ہیں۔
(۲۵) خیر خواہی اور ہمدردی ایسی چیز ہے کہ اس کی برکتیں ضرور ظاہر ہوتی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خیر خواہی فرمائی تو ان کی اس خیر خواہی سے نمازوں میں تخفیف کی گئی اس طرح خیر خواہی کبھی ضائع نہیں ہوتی۔
(26) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پر جب آپ ﷺ نے اپنے رب سے تخفیف کرائی اورنمازیں پانچ کردی گئیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر مشورہ دیا کہ آپ ﷺ مزید تحفیف کرائیے اس پر آپ ﷺ نے فرمایااب مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے کہ پھر دو بارہ در خواست کروں ، اس طرح واقعہ معراج سے یہ پیغام ملتا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ سے حیا کریں ، قرآن و حدیث میں حیا پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔
(۲۷) واقعہ اسرار و معراج سے مساجد کی اہمیت اور مسلم معاشرہ میں مساجد کاکلیدی کردار سمجھ میں آتا ہے؛ اسلئے کہ یہ سفر مسجد سے شروع ہواوار مسجد ہی پر اختتام کو پہنچا ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ امت پر مساجد کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے۔
تبصرے بند ہیں۔