سفر کیوں؟
آبیناز جان علی
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ میں سفر کیوں کرتی ہوں ۔ موریشس میں سفر کو اپنی طرزِ زیست میں شامل کرناکسی زمانے میں بہت انوکھی بات مانی جاتی تھی۔ اس کو مغربی ممالک کی تہذیب سے وابستہ کیا جاتا تھا۔ اس مشعلے کو پیسوں کی بربادی سے منسلک کیا جاتا تھا۔ جدید دور کے بلند معیارِ زندگی نے نئی نسل کی طرزِ سوچ میں انقلاب پیدا کیا۔ نیز مفت تعلیم سے فیض اٹھاتے ہوئے اس چھوٹے جزیرے کی معاشی حالات میں ترقی ہوئی۔ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت میں حددرجہ سہولتوں کی فراوانی، دنیا کو دیکھنے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوئی۔ یہ ہمارے اسلاف کی کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے کہ آج نئی نسل ایک آزاد فضامیں سانس لے رہی ہے۔ یہ سازگار ماحول خود اعتمادی کی آبیاری کرتا ہے جس سے خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرنے کا جذبہ بعید از قیاس نہیں رہتا۔
بہر کیف سفر کرنے کے کئی وجوہات ہیں ۔ روزمزہ کے معمول سے اکتا کر انسان کھلی فضا میں سانس لینے کا متمنی ہے۔ سیر و سیاحت سے اس کوتنائو سے راحت ملتی ہے۔ زندگی کے سردوگرم سے مبرہ ہو کر وہ صرف اپنی خوشیوں کو ترجیح دے پاتا ہے۔ سفر ناسازگار ماحول سے دورجانے کا دریچہ کھولتا ہے۔ دنیا اور دینا والوں کے تیغ و ستم اور مکر و فریب سے راحت ملتی ہے۔ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی پر خوشیوں کا بھی حق ہے۔ یہاں صرف منفی چیزیں نہیں ہیں ۔
سفر خود فراموشی کا بہانہ بھی ہے۔ انسان اپنی پریشایوں اور اپنے خوف پر سفر کی نرم و ملائم چادر اوڑھ کر خوشیوں کا تعاقب کرتا ہے۔ تکلیفوں اور پریشایوں سے الجھتے الجھتے طبیعت اتنی مغموم ہوجاتی ہے کہ ان پریشانیوں سے نجات پانے کی خواہش کا شدید احساس ہوتا ہے۔ انسان لذیز کھانے، دلفریب نظاروں کے دیدار اور پرسکون جگہوں میں قیام کر کے زندگی کے نشیب و فراز کو پل بھر کے لئے بھول جاتا ہے۔
انسان خود سے ملنے اور خود کو پانے کے لئے بھی سفر کرتا ہے۔ سفر لاشعور اور دل کے نہاں گوشوں میں پنہاں صلاحیتوں کو باہر آنے اور نکھرنے کا موقع دیتا ہے۔ سفر کرتے وقت میرے خوابیدہ خوف سامنے آتے ہیں ۔ میں ان کا استقبال کرتے ہوئے منفی خیالات کو مثبت سوچ میں تندیل کرتی ہوں ۔ دورانِ سفر رونما ہونے والے واقعات ہمیں آزماتے رہتے ہیں ۔ نئے ملک میں اپنا راستہ پہچاننے، مختلف زبان بولنے والوں کے ساتھ گفت و شنید کرنے، کھانے پینے کا بندوبست کرنے اور بازاروں میں بہترین داموں میں چیزیں خریدنے کی صلاحیتیں شخصیت کی تکمیل کرتی ہیں ۔ سفر کے دوران اپنی پسند ناپسند سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ ساتھ میں سفر کرنے والوں کے ساتھ بھی مضبوط رشتے بنتے ہیں یا پھر اختلافات ظہور پاتے ہیں ۔ میاں بیوی اور گھروالوں کے ساتھ گزارے یہ لمحات قربت کے احساس کو اجاگرکرتے ہیں ۔ ہم سفر کی اچھائیوں اور کوتاہیوں کو بھی جاننے کا وقع ملتا ہے۔
نیز سفر میں مختلف ممالک میں مروج تاریخ اورثقافت کی واقفیت سے عمدہ خصلتوں کی آبیاری ہوتی ہے۔ انسان مہذب بنتا ہے۔ دوسروں کو بدلنے کی جگہ اس کو بہتر طریقے سے پہچاننے کی صلاحیت اجاگر ہوتی ہے۔ سفر تعلیم و تربیت دیتا ہے اور دور اندیشی سکھاتا ہے۔ واپس آکر نئی سوچ اور مصمم ارادوں کے ساتھ زندگی کے کارواں کو آگے بڑھانے کی صلاحیت اس میں بیدار ہوتی ہے۔
یورپ کے سفر نے میرے ذہن میں گہرے نقش چھوڑے۔ ان ممالک نے اقبالؔ اور سرسید جیسے عظیم اور معتبر رہنمائوں کی سوچ کو جلا بخشی تھی جس کی وجہ سے قوم فلاح و بہبودی کے راستے پر گامزن ہوپایا۔یورپ سے واپس آکر ورزش کرنا اور کتابوں میں زندگی اور سوچ کی نئی جہت کو تلاش کرنا اور اپنی تہذیب اور تاریخ پر ناز کرنا میری شخصیت کے محور بن گئے۔ ہندوستان مجھے انواع و اقسام کے جذبات و احساسات سے روشناس کراکر لاشعور اور زندگی کو دیکھنے کے ذاویعہء نگاہ کو منفرد جہت بخشتی ہے۔ ان دنوں میں ترکی میں ہوں ۔ یہاں کا اسلامی ماحول روح سے ہم کلام ہوتا ہے۔ میں اپنے خدا کی شکر گزار ہوں کہ میرے نصیب میں سفر شامل کر کے میرے خدا نے مجھے عزت بخشنے کے ساتھ ساتھ مجھے خود سے ملایا اور دوسروں کو متاثر کرنے والی شخصیت سے نوازا۔
تبصرے بند ہیں۔