اے عظیم باپ! تیری عظمت کو سلام

محمدفراز احمد

امداد اللہ، اللہ کا مدد گار، ہاں یقیناً اللہ کا مددگار، جس نے اللہ کی مدد کی, صبغت اللہ کی قربانی دے کر، یقیناً اس نے اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا، صبغت اللہ ہی یقیناً کامیابی ہے اور امداد اللہ نے صبغت اللہ کی قربانی دے کر صبغت اللہ کو پالیا… اور اس کے حصول کے بعد کچھ اور بھی باقی رہتا ہے؟ کچھ اور پانے کی تمنا باقی رہ جاتی ہے؟ نہیں… یہی تو اصل سرمایہ زندگی ہے، ہاں یہی تو اصل مقصود ہے جو آج ہماری زندگیوں سے مفقود ہوچکا ہے… لیکن اتنا بھی نہیں کہ کوئی اسے پانے کی کوشش تک نا کرے. ابھی امداد اللہ جیسے مددگار باقی ہیں.

مغربی بنگال جس کو کہ سرکاری بھکت، ملک کا حصہ تک نہیں مانتے، وہیں سے ایسا پیغام ایک مظلوم باپ نے دیا جو سارے ملک کو غور کردینے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کا بیٹا جسے قتل کر دیا گیا، وہ بیٹا جس نے ابھی ابھی دسویں کا امتحان دیا، وہ بیٹا جو ابھی اپنے باپ کا سہارا بننے جارہا تھا، اور باپ کو بھی دیکھیے جو کہ ایک مسجد کا امام ہے، جس کے حکم پر سارا علاقہ دنگے کی زد میں آسکتا تھا، ایسے فرد نے اعلان کیا کہ اگر میرے بیٹے کی موت کو لے کر مزید کوئی خون خرابہ ہوگا میں مسجد اور گاؤں چھوڑ کر چلا جاؤں گا. میں مزید کسی باپ کو بیٹے سے دور کرنے کی بات نہیں کروں گا.

یہ ہے وہ پیغام جو ایک باپ نے اپنے بیٹے کے قتل پر دیا، لیکن افسوس ہمارے تخت نشینوں کو جو ہندو مسلم فسادات کے نام پر ووٹ حاصل کرتے ہیں، رویش کمار نے بہاریوں کے نام ایک پیغام میں لکھا کہ نکلیے گھر سے باہر اور پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹائیے اور کہیے کہ ہم اس نفرت کے خلاف ہیں، یہی کام مغربی بنگال اور ہر اس علاقہ میں کرنا چاہیے جہاں یہ شر پسند و فسطائی عناصر ملک کی فضاء کو گرد آلود کرنے کی کوششیں کرتے ہیں.

نکلئے اور ایک آواز ہوجائیے، یہ وہ ملک نہیں ہیں جہاں آپ کی اپیل صدا بہ صحرا ہوگی بلکہ یہ تو وہ زرخیز چمن ہے جس نے 1857 میں بھی آزادی کی صدا پر لبیک کہا اور 1947 تک بھی لبیک کہتے آئے ہیں جس کا نتیجہ فرنگی حکومت سے آزادی ہے، آج بھی ساتھ ملے گا اور فسطائیت کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے لوگ ایک آواز ہوجائیں گے، یہاں آج بھی سوچنے سمجھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس فسطائی ذہنیت سے نفرت کرتے ہیں، لیکن وہ بول نہیں سکتے، آپ کو ان کی آواز بننا ہے، وہ لکھ نہیں سکتے، آپ کو ان کا قلم بننا ہے، وہ ہمت نہیں کرتے آپ کو ان کی ہمت باندھنا ہے.

اپنے دستوری حقوق کا استعمال کیجئے، کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، لاکھوں صبغت اللہ قربان کرنے ہوں گے، لاکھوں امداد اللہ بننا ہوگا، یشپال سکسینا بننا ہے جستنے اپنے لخت جگر کے قتل پر بھی وہی کہا جو امداد اللہ نے کہا، تب ہی اس ملک کے دستور کو بچانے کا کام ہوسکتا ہے اور فسطائیت کو منہ تو جواب دیا جاسکتا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔