فسادی نہیں، امن پسند بنیے!

رويش کمار

"میں امن چاہتا ہوں. میرا بیٹا چلا گیا ہے. میں نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا پریوار اپنا بیٹا کھوئے. میں نہیں چاہتا کہ اب اور کسی کا گھر جلے. میں نے لوگوں سے کہا ہے کہ اگر میرے بیٹے کی موت کا بدلہ لینے کے لئے کوئی کارروائی کی گئی تو میں آسن سول چھوڑ کر چلا جاؤں گا. میں نے لوگوں سے کہا ہے کہ اگر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انگلی بھی نہیں اٹھائیں گے. میں گزشتہ تیس سال سے امام ہوں، میرے لئے ضروری ہے کہ میں لوگوں کو صحیح پیغام دوں اور وہ پیغام ہے امن کا.”

اپنے 16 سال کے بیٹے صبغۃ اللہ راشدي کے قتل کے بعد ایک امام کا یہ بیان دہلی کے انکت سکسینہ کے والد یشپال سکسینہ کی یاد دلاتا ہے. تشدد اور ظلم کے ایسے لمحات میں کچھ لوگ ہزاروں کی ہتياري بھیڑ کو بھی چھوٹا کر دیتے ہیں. 16 سال کے صبغۃ اللہ کو بھیڑ اٹھا کر لے گئی اور اس کے بعد لاش ہی ملی. بنگال کے تشدد میں چار لوگوں کی موت ہوئی ہے.صبغۃ اللہ کے علاوہ  چھوٹے یادو، ایس کے شاہ جہاں، اور مقصود خان. اس تشدد میں مارے گئے۔

"میں اشتعال انگیز بیان نہیں چاہتا ہوں. جو ہوا ہے اس کا مجھے بہت افسوس ہے، لیکن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول نہیں چاہتا. میری کسی مذہب سے کوئی شکایت نہیں ہے. جی ہاں، جنہوں نے میرے بیٹے کا قتل کیا، وہ مسلمان تھے لیکن تمام مسلمانوں کو قاتل نہیں کہا جا سکتا ہے. آپ میرا استعمال فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں نہ کریں. مجھے اس میں نہ گھسيٹیں. میں سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسے ماحول خراب کرنے کے لیے مذہب سے نہ جوڑیں.”

یہ بیان دہلی کے یشپال سکسینہ کا ہے، جن کے بیٹے انکت سکسینہ کو اسی فروری میں ایک مسلمان خاندان نے قتل کر دیا تھا. انکت کو جس لڑکی سے محبت تھی، اس نے اپنے ماں باپ کے خلاف گواہی دی ہے. یشپال جی نے اس وقت کہا تھا جب نیتا ان کے بیٹے کے قتل کو لے کر فرقہ وارانہ ماحول بنانا چاہتے تھے تاکہ ووٹ بینک بن سکے. آسن سول کے سبت للہ جسے بھیڑ اٹھا کر لے گئی وہ کس کی بھیڑ رہی ہوگی، بتانے کی ضرورت نہیں ہے. مگر آپ سارے دلائل کو دھول میں ملا دیے جانے کے اس ماحول میں یشپال سکسینہ اور امام راشدي کی باتوں کو سنیے. سمجھنے کی کوشش کیجیے. دونوں والدوں کے بیٹوں کا قتل ہوا ہے مگر وہ کسی اور کے بیٹے کی جان نہ جائے اس کی فکر کر رہے ہیں.

فرقہ وارانہ تناؤ کب کس موڑ پر لے جائے گا، ہم نہیں جانتے. دونوں فرقوں کی بھیڑ کو ہتياري بتانے کے لئے کچھ نہ کچھ صحیح وجوہات مل جاتی ہیں. کس نے پہلے پتھر پھینکا، کس نے پہلے بم پھینکا. مگر ایک بار راشدي اور سکسینہ کی طرح سوچ کر دیکھئے. جن کے بیٹوں کے قتل کو لے کر نیتا لوگوں کو بھڑکاتے ہیں، ان کے خاندان والے شہر کو بچانے کی فکر کرتے ہیں. ہماری سیاست فیل ہو گئی ہے. اس کے پاس مذہبی منافرت ہی آخری ہتھیار بچا ہے. جس کی قیمت عوام اپنی جان دے کر، اپنا گھر پھنكوا کر ادا کرے گی تاکہ لیڈر تخت پر بیٹھا رہ سکے.

آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ آپ کی جنگ کس سے ہے. آپ کی جنگ ہندو یا مسلمان سے نہیں ہے، اس نیتا اور سیاست سے ہے جو آپ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہندو مسلمان کے فساد میں استعمال کرنا چاہتا ہے. آپ کی جوانی کو فسادات میں جھونک دینا چاہتا ہے، تاکہ کوئی زد میں آکر مارا جائے اور وہ پھر اس لاش پر ہندو اور مسلمان کی سیاست کر سکے. کیا اس طرح کی ایماندارانہ اپیل آپ کسی لیڈر کے منہ سنتے ہیں؟ 2019 کے تناظر میں کئی شہروں کو اس فرقہ وارانہ تشدد میں جھونک دینے کی تیاری ہے. اس کی زد میں کون آئے گا ہم نہیں جانتے ہیں.

 مجھے دکھ ہوتا ہے کہ آج کا نوجوان ایسے تشدد کے خلاف کھل کر نہیں بولتا ہے. اپنے گھروں میں بحث نہیں کرتا. جبکہ اس فرقہ وارانہ سیاست کا سب سے زیادہ نقصان نوجوان ہی اٹھا رہا ہے. بہتر ہے آپ ایسے لوگوں سے محتاط ہو جائیں اور ان سے دور رہیں جو اس طرح کے تشدد اور قتل یا اس کے بدلے میں تشدد اور قتل کے جواز کے لئے راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں. نیتاؤں کو آپ کی لاش چاہئے تاکہ وہ آپ کو دفنانے اور جلانے کے بعد راج کر سکیں. فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کرنا کیا ہے.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔