اسلامو فوبیا کی حقیقت کیا ہے؟

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

آج کے سماج کی پہچان مختلف و متنوع افکا ر اور نظریات کا متحمل ہو ناہے, فکری تہذیبی اختلاف کی لہر چل رہی ہے جو انسانی معاشرہ کے لئے مفید ارو مضر دونوں پہلو کا حامی ہے- مادی ترقی کے اس دور میں جہاں انسانی سماج بیشمار فوائد سے لطف اندوز ہو رہا ہے وہیں اس ترقی نے انسانیت کے ما بین تفریق اور نفرتوں کے سلسلے دراز کئے ہیں منافقت مکاری اور سازشوں نے بڑی تیزی سے سماج پر اپنی گرفت مضبوط کر نے کی سعی کی ہے-  کیونکہ ترقی کے اس زاویہ نے جس طرح انسانوں کا قتل کیا ہے وہ ہم سب کے.لئے افسوس کا مقام ہے.

 گویا  اس وقت پوری دنیا میں انسانی قدریں سستی ہوتی نظر آرہی ہیں – قوموں؛  ملکوں اور تہذیبوں میں زبردست تصادم ہے؛ فرقہ وارانہ زیادتیاں اپنے عروج پر ہیں؛ حدتو یہ ہےکہ مسلکی اختلافات نے بھی انتہاء پسندی کی راہ اختیار کرلی ہے جسکی نظیریں گاہ بگاہ دیکھنے؛  سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں؛ ہمارے نام نہاد سیاسی رہنماء جو نفرت کے بیج بورہے ہیں اس کا نقصان ملک اور سماج دونوں کو یکساں ہو رہا ہے- آج کل ملک میں جو حالات نظر آرہے ہیں وہ اسی پالیسی کے  مرہون منت ہیں-

در اصل اب سیاست کی تعبیر وتشریح اور اسکا مقصد اصلی سیاست دانوں کے وضع کردہ اصولوں نے بدل کر رکھ دیا ہے؛ افسوس تو یہ ہیکہ ہندوستان جیسے مقدس جمہوری ملک میں مذہبی  سیاست کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے اور ہندوستان کی اقلیت مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور انکی تہذیب کے خلاف مستقل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے- یہی نہیں بلکہ مذہب اسلام سے خوف دلانے کی سعی کی جا رہی ہے- میں کہ سکتا ہوں کہ اس فضاء کو بڑھاوا دینے میں الیکٹرانک اور پرنٹ  میڈیا دونوں کا خاصا عمل دخل ہے- گویا اسلام فوبیا کے نام پر سیاسی بازیگر ان پڑھ عوام کو اپنے دام تزویر میں بری طرح پھنسا رہے ہیں- آج  کے اس کالم میں راقم اسلام کے خلاف پھیلائ جانے والی غلط فہمیوں کو واشگاف کر نے کی جسارت کریگا-

آج دنیا میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کے لئے اسلامو فوبیا کا لفظ استعمال کثرت سے کیا جارہا ہے ماہرین لسانیات کے مطابق xenophobia مشتق ہے جو ایک قدیم اصطلاح neologism کی جدید سکل ہے- اس کو عربی میں الرھاب کہا جاتاہے یعنی ہر چیز سے دہشت کرنا – گویا یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جسمیں آدمی ہر چیز سے ڈر محسوس کرتا ہے مثلا اونچی جگہ سے خوف زدہ ہونا شور وشغب سے خوف زدہ ہونا اسی طرح اظہار رائے کی آزادی اور تنہائ وغیرہ سے خوف زدہ ہونا وغیر اس میں شامل ہیں – مگر اب اسلام دشمن عناصر نے لفظ phobia کو اسلام کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا ہے-  یہ پروپیگنڈہ تقریبا پچاس یا چالیس سال سے کیا جارہا ہے لیکن اس میں تیزی نائن الیون کے بعد آئ ہے –

پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نےتعلیمات اسلام کے خلاف لگاتار ایسے پروگرام کی اشاعت کی جن میں یہ ظاہر کیا گیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور یہ امریکہ اور اسکے نظریات کے شدید مخالف ہیں؛  نیز اسلام ایک متعصب دین ہے جس کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ متشددانہ رہا ہے بلکہ یہاں تک زہر گھولنے کی سازش کی گئی کہ اسلام مساوات؛  متحمل مزاجی حقوق بشر اور جمہوریت کے بھی سخت ترین مخالف ہے- اس طرح کا جھوٹ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کا وطیرہ بن گیا ہے- اس سلسلہ میں برطانیہ کے دو ممتاز اخبارات” ڈیلی میل” اور ڈیلی ایکسپریس کا کردار زیادہ نمایاں نظر آتا ہے تجزیہ نگاروں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ دونوں اخبارات حکومت کے بہت قریب ہیں ان اخبارات کی سرخیاں ایسے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں جو مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں-

اس کی وجہ سے آج مغرب میں  جس طرح  اسلام کو دیکھا جارہا ہے اس کے متعلق Runnymede trust نے 1977 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی  کہ مغرب میں اسلام ایک اجنبی چیز سمجھی جاتی ہے؛  اگر ڈیلی میل میں یہ لکھا جا تا ہے fanatic with death wish یعنی جنونی مسلمان موت چاہتے ہیں اور یہ کہ برطانیہ میں پیدا ہو چکا ہوں لیکن پہلے میں مسلمان ہوں جیسی اشتعال انگیز سر خیاں شائع کریں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے کیونکہ یہ اخبار تو محض ان باتوں کی شاعت کرتے ہیں جو اسلامو فوبیا کا بنیادی سبب ہیں- اسی طرح آج جو باتیں پھیلائی جارہی ہیں ان میں یہ بھی سر فہرست ہے کہ اسلام فرسودہ روایات اور رسومات کا مجموعہ ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے- اسلام نے دنیا کے تمام انسانوں کو احترام شرف اور عظمت کے اعلی مقام پر پہنچایا ہے؛  تفریق اور نفرت کے خلاف اسلام نے لوگوں کو ا بھارہ ہے باہم محبت اور پیار کی تلقین کی ہے- یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سٹار ٹی وی اور فاکس نیوز ایسے ٹیلیویژن چینل ہیں جو اسلامو فوبیا کی تشہیر میں کوئ  موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے  ہیں-

میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف عموما مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز کارٹون شائع کرنا اپنا بہترین مشغلہ سمجھتی ہے؛  اور مغربی میڈیا تو اس معاملہ میں سر فہرست ہے برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل نے گزشتہ سالوں میں ایک کارٹون شائع کیا جس میں عام مسلمان کا رول دکھایا گیا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ ز ہیں جن پر امریکہ مردہ باد کے نعرے اور برطانیہ مردہ باد  جیسے نفرت آمیز نعرے درج تھے؛  ظاہر ہے اس سے مسلمانوں کے خلاف منفی تائثر ہی جائے گا –

جو اخبارات مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ان کا یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے- ایسا ہی بیسویں صدی کے ابتدائ عشروں میں جرمنی ہٹلر اور اسکی پارٹی نے کیا تھا- یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا- ان کو انسانیت کے دائرے سے خاج کیا گیا اسکے جو منفی نتائج بر آمد ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ؛  تاریخ بتاتی ہےکہ جرمنی نے دنیا کو جنگ عظیم مہں جھونک دیا تھا- دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی اور جرمنی جیسے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے- انسانیت تاریخ کی بد ترین تباہی سے دوچار ہوئی۔

ماہرین کا ماننا یہ ہیکہ ہٹلر نے یہودیوں کو جرمن قوم اور جرمن تہذیب کا دشمن قرار دیا تھا اس لئے جرمن معاشرہ بذات خود اس دباؤ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تھا –  یہ سب کچھ سازش کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا- میڈیا کی ترجمانی عموما جانبدار ہوتی ہے   کبھی بھی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا ہے ؛ اس حقیقت کا اعتراف Christopher Allen نے اپنے ایک مضمون ایک فرانسیسی ماہر سماجیات جین باڈر یلارڈ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ذرائع ابلاغ عقائد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتےہیں حتی کہ حقیقت اور افسانوں میں فرق نہیں رکھتا – اس کے علاوہ بعض اسلام دشمن عناصر نے اپنی تصانیف کے ذریعہ بھی اسلامو فوبیا کو کافی حد تک فروغ دیا ہے- اس کے علاوہ مغربی مفکرین اسکالرس اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسلامو فوبیا کا کی تشہیر بڑی تیزی سے کررہے ہیں – clash of civilization کے مصنف منٹگٹن نے لکھا ہے؛ اسلام   کمیونزم کے خاتمہ کے مغربی تہذیب کا سب سے بڑا دشمن ہے- نیز  مغرب ایسے بیشمار ادارے ہیں جو مسلسل مسلمانوں  کو ہدف تنقید  بنایا جا رہا ہے- حتی کہ مغربی ادیبوں نے جو ادب تحریر کیا ہے وہ بھی مسلمانوں کے خلاف ہےبچوں کی ذہنیت بن رہی ہے – اگر مغرب میں ان گنت کتابیں ؛  کتابچے؛  ویب سائٹس؛  تصاویر اور عوام کے ذاتی پبلیکیشنز ہیں جو اسلامو فوبیا کے ذمہ دار ہیں۔

 اسی بناء پر ایڈورڈ سعید  فلسطینی عیسائی تھے انہوں نے  فلسطینی عوام کی آواز ہر جگہ اٹھائی وہ فلسطینیوں کے حق میں لکھتے تھے انہوں نے یورپ مہں رہ کر مغربی دنیا کے طرز فکر کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا انہوں orientalism کے نام سے ایک کتاب تحریر کی اس میں انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے – in the west islam has often referred to as  a religion of the east and it is therefore associated with the orient – انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مغربی میڈیا نے مشرق کے بارے میں جس عمومی تاثر کو فروغ دیا وہی آخر میں مغربی معاشرے کا اسلام کے بارے میں تصور بن گیا- انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مغربی دنیا کا اسلام.کے بارے میں جو تصور بن چکا ہے  اس کو اس طرح بیان کیا ہے-  مغربی.معاشرہ کا مشرقی یا سلامی تصور انتہائی سیاسی بنیادوں پر قائم.ہے- یہ ان تاریخی عرب دشمن اور اسلام دشمن بنیاد پر قائم  ہے جو مغربی معاشرہ میں ایک عرصے سے پایا جاتا ہے-

 اسی طرح مغرب کے.پاس ایسی ٹھوس ثقافتی بنیاد نہیں ہے جس سے وہ غیر جذباتی میں مشرق اور اسلام کو پہچان سکیں یا اس پر بحث کر سکیں – ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کو مغرب نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ما حول تقریبا پوری دنیا میں پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے آج اسلام کے خلاف لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور اہل اسلام.کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں – مغرب کے اس متعصب نظریہ کا شکار ہندوستان بھی کہیں نہ کہیں  ہے کیونکہ گزشتہ قتل کے واقعات اور  مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اس بات کی واضح علامت ہے- اندازہ کیجئے جس درندے نے افرازل کا بہیمانہ  قتل کیا اور اس سنسنی خیز واردات کے بعد جو باتیں اس نے کہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مغرب نے اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا تھا اس کے اثرات دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکے ہیں اور اس سے دشمنان اسلام اپنے سیاسی اور ذاتی مفاد کے حصول.میں بظاہر کامیاب نظر آرہے ہیں-

آج مشرق وسطی میں جو صورت حال ہے اس نے بھی بھی اسلامو فوبیا کو فروغ دیا ہے کیونکہ جو گروپ وہاں قتل وکشت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں وہ یورپ اور مغرب کے زر خرید غلام ہیں ان کا ریموٹ کنٹرول ان افراد کے ہاتھ میں ہے  جو دنیا میں انسانیت کے خون کے پیاسے ہیں – یہاں یہ عرض کرنا نا مناسب نہ ہو گا کہ داعش جیسے جنگجو گروپ اسلام.کے نام پر تباہی مچارہے ہیں جبکہ ان کا تعلق اسلام سے دور تک بھی نہیں ہے- اسلام کی تعلیمات انسان دوستی؛ محبت؛ روداری اور بقائے باہم کی علبردار ہیں- اسلام کی حقیقی تعلیم پر اغیار نےبڑی ہوشیاری سے پردہ ڈال دیا ہے- آخر میں یہ عرض کردوں کہ آج اسلام کا دفاع کرنے والوں کی تعداد ایسی ہونی چاہئے جو اسلام کے خلاف کئے جانے والے ناپاک عزائم کا پردہ چاک کرسکیں  اور اسلام کی اصل روح عوام کے سامنے لائیں- اگر فوری طور پر مغربی سازشوں پر قد غن نہیں لگی تو اس کے نتائج مزید بھیانک ہونگے-

ضمنا یہ بھی عرض کردوں کہ جب مستشرق ولیم میور نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور باضابطہ لائف آف محمد نامی کتاب لکھی اس کی اس کتاب نے  اسلامو فوبیا کو تقویت دی اور اسلام کے خلاف عوام میں ایک نئی سوچ سامنے آئی؛  مگر  اس دور میں بانئی علیگڑہ.مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خان نے خطبات احمدیہ لکھ کر اس کا منھ توڑ جواب دیا- لھذا اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ جو اسلام کو گاہ بگاہ بد نام کرنے کی سازش کرتے رہتے ہیں ان کے جواب کے لئے ہمیں تحریری اور تقریری دونوں اعتبار سے لیث ہو نا از حد ضروری ہے- معتدل دانشوروں کا ایک طبقہ ایسا ہو جو عوام کو مغرب کی سازشی کامرانیوں سے بیدار کریں -اس سے انتہائ مثبت  فائدہ یہ  ہوگا کہ جو مزاج عوام کا اسلام کے بارے میں بنتا جارہا ہے اس پر روک لگانا آسان ہو جائے گا-

تبصرے بند ہیں۔