مقصود اعظم فاضلی
شمار گردشِ حالات کرتا رہتا ہوں
میں یوں محاسبہء ذات کرتا رہتا ہوں
…
قلم گھسیٹتا رہتا ہوں یونہی جانے کیوں
سیاہ زیست کے صفحات کرتا رہتا ہوں
…
لگا ہوا ہے مجھے ان دنوں عجیب سا روگ
کوئی سنے نہ سنے بات کرتا رہتا ہوں
…
کبھی ملا نہیں اس سے مگر یہ لگتا ہے
کہ روز اس سے ملاقات کرتا رہتا ہوں
…
مرا یقیں متزلزل کبھی نہیں ہوتا
میں وا دریچہء شبہات کرتا رہتا ہوں
…
حیات کے لئے سانسیں تو لینی پڑتی ہیں
یہ ایک کام میں دن رات کرتا رہتا ہوں
…
جلا کے راہِ محبت میں اپنا دل اعظم
میں چاک پردہء ظلمات کرتا رہتا ہوں
تبصرے بند ہیں۔