انسان اور زمین کی حکومت (قسط 51)

رستم علی خان

چنانچہ جب فرعون نے دیکھا کہ حضرت موسی اور رب موسی پر ایمان لانے والے اپنے ایمان میں مستحکم ہیں- اور کسی بھی قسم کے ظلم و ستم سے وہ لوگ اپنے ایمان سے ہٹنے والے ہرگز نہیں ہیں- تب قصد کیا کہ جناب موسی علیہ السلام کو قتل کر دے- اور اپنے لوگوں سے کہا کہ مجھے چھڑ دو تاکہ میں موسی کو قتل کر دوں- اور پھر پکارے اپنے رب کو- اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ تمارے باپ دادا والے دین کو بگاڑ دے گا یا اپنے جادو کے زور سے زمین مصر میں کوئی خرابی پیدا کرے گا-

جب فرعون نے اپنے لوگوں سے یہ بات کی کہ چھوڑو میں موسی کو مار ڈالوں تب وہاں کوئی بھی شخص صاحب ایمان نہیں تھا مگر سوا اس آدمی کے کہ جو حضرت موسی کے صندوقچے کے بارے فرعون کو خبر کرنے آیا تھا- اور بار بار زبان بند ہونے کی وجہ سے تائب ہوا اور ایمان لایا- تب اس شخص نے فرعون سے کہا کہ تم موسی علیہ السلام کو ہرگز قتل نہ کر سکو گے کیونکہ وہ رسول خدا برحق ہیں- بہتر یہی ہے کہ تم سب ان پر ایمان لے آو اور ان کے قتل کا ارادہ چھوڑ دو-

اور مزید کہا کہ اے میری قوم میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے کفر اور سرکشی کی وجہ سے تم پر بھی ویسا ہی وقت آئے جیسا کہ تم سے پہلے والی قوموں نوح، عاد اور ثمود اور ان کے بعد کی قوموں پر آیا تھا- اور کہا اے میری قوم بیشک اللہ تو وہ ہے کہ اپنے دشمنوں پر بھی ظلم نہیں کرتا- لیکن میں ڈرتا ہوں اس وقت سے جب تمہارا ظلم تمہاری پکڑ کا سبب بنے گا- پھر تم اللہ کی طرف لوٹا دئیے جاو گے- اور تب تمہیں اللہ کی پکڑ سے سوا اللہ کے کوئی نہ بچا سکے گا- اور یہ سب باتیں کہنے کے بعد وہاں سے چلا گیا-
ادھر جب حضرت موسی کو فرعون کے ارادے کی خبر ہوئی تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ فرعون کے محل سے نکل جائیں- اور ادھر قبطیوں نے ارادہ کیا کہ جناب موسی علیہ السلام کو قتل کر دیں- تب اللہ کے حکم سے فرعون کے محل کے دروازے پر بندھے شیروں نے ان قبطیوں کو پھاڑ کھایا- اور باقی جو لوگ بچے تھے انہوں نے جا کر فرعون کو اس بارے خبر پنہچائی-

تب فرعون کے سرداروں نے اسے مزید بھڑکاتے ہوئے کہا کہ کیا اب بھی تو موسی اور اس کی قوم (بنی اسرائیل) والوں کو چھوڑنا چاہتا ہے- تاکہ وہ ملک میں دھوم مچائیں- اور ختم کر دیں تجھ کو اور تیرے بتوں کو- یعنی تیری اور تیرے بتوں کی عبادت چھوڑ کر اب وہ آزادی سے ملک میں موسی کے رب کی عبادت کرنا شروع کر دیں گے-

تب فرعون نے کہا کہ اب ہم ان (بنی اسرائیل والوں) کے مردوں اور لڑکوں کو مار دیں گے- اور صرف ان کی لڑکیاں اور عورتیں زندہ رکھیں گے- اور ہم ان پر زور آور ہیں- اور حکم کیا کہ ان کے لڑکے سب مار ڈالو اور لڑکیاں زندہ رکھو- اور مردوں کو حکم کر دو کہ اپنی عورتوں کے پاس نہ جاویں- سب کو منع کر دو- ہم قاہر ہیں وہ مقہور، ہم جبار ہیں وہ مجبور، ہم پیسے والے ہیں وہ مفلس- ہم سے مقابلہ کوئی کیونکر کرے گا-

ان باتوں کو بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے اے حضرت اگر آپ نہ آتے تو اتنا ظلم فرعون ہم پر کبھی نہ کرتا- آپ کے آنے کی وجہ سی ہم پر پہلے سے بھی کہیں زیادہ سختی آ پڑی ہے- اور فرعون ہم پر پہلے سے کہیں بڑھ کر ظلم کرنے لگا ہے-
تب حضرت موسی نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو اور ثابت قدم رہو- بیشک زمین اللہ کی ملک ہے اور وہ اس میں جسے چاہے اپنے بندوں میں سے نائب مقرر کرے- اور آخر اللہ سے ڈرنے والوں کے واسطے ہی بھلائی ہے۔

چنانچہ جناب موسی نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے کہا کہ اللہ سے مدد طلب کرو- زمین ساری اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے اس میں اپنا نائب مقرر کرے- بس صبر کرو اور ثابت قدم رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو- بیشک آخر میں وہی لوگ کامیاب ہیں جو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہیں- اور مزید فرمایا کہ جلد ہی اللہ تعالی تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں بلند کرے گا اور زمین میں نائب بنائے گا- پھر دیکھتے ہیں تم لوگ کیا کرتے ہو-

پس حضرت موسی علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو ہر سال ایک ایک نشانی دکھاتے گئے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہے کہ شائد یہ چھوٹی چھوٹی آفتیں انے ایمان لانے کا زریعہ بن جائیں- اور اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کو یکے بعد دیگرے نو نشانیاں دکھائیں کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں- چنانچہ جب ان پر کوئی آفت یا عذاب نازل ہوتا تو حضرت موسی کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی اپیل کرتے کہ ہم پر سے یہ عذاب اٹھوا دیں اس کے بعد ہم آپ پر ضرور ایمان لاویں گے- اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ رخصت کر دیں گے- اور آپ کی قوم پر کوئی ظلم نہ کریں گے- پس جب آپ دعا فرما دیتے اور عذاب ہٹ جاتا تو وہ لوگ پھر سے مکر جاتے اور ہرگز ایمان قبول نہ کرتے- اور اس طرح کفر کے ساتھ عہد شکنی کے بھی مرتکب ہوتے گئے-

حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کو جو نشانیاں دکھائیں ان میں سب سے پہلی نشانی عصا تھا جس سے آگے ہزاروں معجزے ہوئے- دوسری نشانی ید بیضاء تھا- کہ جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالتے تو اس میں سے نور اور روشنی نکلتی کہ آفتاب اس روشنی کے آگے ماند پڑ جاتا- یہ دو نشانیاں اللہ نے آپ علیہ السلام کو معجزے کے طور لر عطا فرمائی تھیں- لیکن جب فرعون اور اس کی قوم ان سے نا مانی اور آپ کو جادوگر سمجھنے لگی- تب مزید کچھ نشانیاں آپ نے اس سرکش قوم کو بطور سزا اور عذاب کے آفت کی صورت دکھائیں-

ان میں سب سے پہلی نشانی یا آفت طوفان اور بارش کی تھی- جب فرعون اور اس کی قوم حضرت موسی کی دکھائی گئی نشانیوں کو دیکھ کر بجائے ایمان لانے کے سرکشی پر اتر آئی اور بنی اسرائیل پر ظلم زیادہ کرنے لگی تو اللہ تعالی نے ان پر طوفانی بارشوں کو چڑھا دیا- طوفانی بارشوں کی وجہ سے ہر طرف پانی ہو گیا جس سے ان کے گھر بار کھیت فصلیں اور املاک تباہ ہونے لگی- اور اس کے علاوہ دریائے نیل میں بھی طغیانی بڑھنے لگی- طوفان اور بارشوں کی شدت سے نیل چڑھنے لگا- تب قوم ساری دوڑی ہوئی فرعون کے پاس گئی اور اس سے اس بارے بیان کیا اور کہا کہ تو ہمارا رب ہے پس اس بلا سے ہمیں نجات دلا ورنہ اگر بارشیں اور طوفان نہ تھما تو نیل کے چڑھنے سے ہم جلد ہی تباہ ہو جائیں- فرعون نے کہا کہ کچھ صبر کرو میں اس بارے کوئی تدبیر کرتا ہوں-  اور اپنے وزیروں مشیروں اور سرداروں سے اس طوفان کو روکنے کے بارے میں کوئی مشورہ اور تدبیر مانگی-

چنانچہ سب مل کر اس بارے تدبیریں کرنے لگے- لیکن اگر تو کوئی آفت انسانوں کی طرف سے ہوتی تب ان لوگوں کی کوئی تدبیر کام کرتی بھی- اب اللہ کی طرف سے نازل کردہ آفت کو سوائے رب کے کوئی روک نہیں سکتا تھا- چنانچہ جب مکمل طور پر بےبس ہو گئے اور طوفان اور بارشوں میں کمی کی بجائے شدت آتی جا رہی تھی اور قریب تھا کہ نیل چڑھ کر شہر اور اس میں بسنے والوں کی ہر چیز کو مکمل طور پر تباہ کر دیتا- سرداروں نے فرعون کو مشورہ دیا کہ ضرور یہ آفت موسی کی وجہ سے آئی ہے اور وہی اسے روک سکتا ہے- پس تب وہ لوگ حضرت موسی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اس طوفان اور بارش کو روکنے کی درخواست کی۔

تبصرے بند ہیں۔