شمار گردشِ حالات کرتا رہتا ہوں

مقصود اعظم فاضلی

شمار گردشِ حالات کرتا رہتا ہوں
میں یوں محاسبہء ذات کرتا رہتا ہوں

قلم گھسیٹتا رہتا ہوں یونہی جانے کیوں
سیاہ زیست کے صفحات کرتا رہتا ہوں

لگا ہوا ہے مجھے ان دنوں عجیب سا روگ
کوئی سنے نہ سنے بات کرتا رہتا ہوں

کبھی ملا نہیں اس سے مگر یہ لگتا ہے
کہ روز اس سے ملاقات کرتا رہتا ہوں

مرا یقیں متزلزل کبھی نہیں ہوتا
میں وا دریچہء شبہات کرتا رہتا ہوں

حیات کے لئے سانسیں تو لینی پڑتی ہیں
یہ ایک کام میں دن رات کرتا رہتا ہوں

جلا کے راہِ محبت میں اپنا دل اعظم
میں چاک پردہء ظلمات کرتا رہتا ہوں

تبصرے بند ہیں۔