شکوہ، جواب شکوہ
مدثراحمد
ملک بھر میں لوک سبھا انتخابات کا سلسلہ جاری ہے، کچھ مقامات پر انتخابات ہوچکے ہیں تو کچھ علاقوں میں ابھی ووٹنگ ہونا باقی ہے، ملک میں لوک سبھا انتخابات کو لیکر ہر ایک شہری کے دل میں وسوسہ ہے۔ کچھ لوگ نئی حکومت میں تبدیلی کو لیکر مختلف امیدیں ظاہر کررہے ہیں تو بعض موجودہ حکومت کی بحالی کو لیکر پر امید دکھائی دے رہے ہیں۔ ان تمام کے درمیان مسلم سماج بھی اپنے مستقبل، حال اورماضی کو لیکر حاشیہ پر دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے ہر حصے سے یہ صدا بلند ہورہی ہے کہ اس دفعہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو نمائندگی کرنے کیلئے برابر کا موقع نہیں دیا ہے۔ کئی علاقے جہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے ان علاقوں میں بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہر جگہ یہی جواز پیش کیا گیا ہے کہ جو مسلم امیدوار مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے ووٹ لے سکتا ہے اسی کو ٹکٹ دی جائے گی۔ اس شرط کی بنیاد پر درجنوں پارلیمانی حلقوں میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔
اس بات کو لیکر مسلم سماج میں شدید برہمی دیکھی جارہی ہے، سماجی وملی قائدین کی جانب سے مذمتیں بھی ہوئیں ہیں اوربعض جگہوں پر سیاسی جماعتوں کی مخالفت میں لوگ مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ ہر علاقے میں یہی کہا گیا کہ مسلمانوں کو نمائندگی سے روکا گیا ہے، مسلمانوں کو قیادت کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے کمزور کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یقیناً مسلمانوں کا یہ شکوہ بجا ہے۔ اس شکوہ کا جواب جب ہم ڈھونڈنے نکلیں گے تو ہمیں اس بات کا احساس ہوگا کہ ہم صرف سیاسی اعتبار سے نظر انداز کی جانے والی قوم نہیں ہیں، صرف ہماری سیاسی قیادت کمزور نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ہمیں سماجی، معاشی، اوراقتصادی اعتبار سے بھی کمزور کیا گیا ہے لیکن ہم مسلمانوں نے کبھی بھی ان شعبوں میں قیادت کرنے کا عزم ظاہر نہیں کیا ہے۔ کرناٹک میں ایک قوم ہے جسے لنگایت سماج کہا جاتا ہے یہ آبادی کے لحاظ سے اقلیت ہونے کے باوجود کرناٹک کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے سب سے مضبوط قوم ہے۔
کرناٹک میں لنگایت سماج کی جانب سے قائم کردہ تعلیمی ادارے سب سے زیادہ ہیں اوران تعلیمی اداروں کا بجٹ ریاست کے تعلیمی بجٹ کا ایک تہائی حصہ استعمال کیا جارہا ہےاور ان تعلیمی اداروں سے نکلنے والی نسلیں نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو خوشگوار بنارہی ہیں بلکہ اپنے سماج کیلئے وہ اپنے آپ کو وقف کررہے ہیں۔ یہی لوگ آج کرناٹک کے سیاسی، تجارتی اورسماجی میدان میں اپنے آپ کو نمائندگی کیلئے پیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس وکلاء کی ٹیم ہےاور اس ٹیم کی قیادت کرنے والا انکا لیڈر ہے، انکے پاس ڈاکٹروں کی ٹیم ہیں اورڈاکٹروں کی جانب سے ایک لیڈر بنایا جاتا ہے۔ ان کے پاس تاجروں کی ٹیم ہے تو اس ٹیم میں بھی ایک لیڈر ابھر کر آتا ہے۔ یہ تمام لیڈران مل کر سیاسی لیڈر کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے انکا سماج کامیاب سماج میں شمار ہوتا ہے اوران کی سیاست کامیاب ہوتی ہے۔ اس دفعہ کرناٹک میں لوک سبھا انتخابات کیلئے 6 لنگایتوں کو ٹکٹ دی ہے تو بی جے پی نے 9 لنگایتوں کو ٹکٹ دے کر انکے سماج کا حق ادا کیا ہے وہیں ان سے زیادہ آبادی رکھنے والے مسلم سماج کیلئے پوری ریاست سے کانگریس نے ایک ٹکٹ دے کر مسلمانوں پر احسان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ کیا ہے ؟۔
وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس الگ الگ شعبوں سے قیادت کرنے والے لوگوں کی قلت ہے، مسلمان اپنے درمیان سے لیڈر منتخب نہیں کرتے ان کے پاس جو مختلف شعبے ہیں ان شعبوں میں قیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلمانوں میں ہی شمار ہونے والی بوہرہ سماج کی مثال لی جائے تو یہ لوگ ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی قوم ہے، تجارت انکا پیشہ ہے۔ یہ لوگ اپنے درمیان سے ہر شعبے کیلئے قائدین تیار کرتے ہیں۔ انکی منصوبہ بندی اس قدر مضبوط ہے کہ یہ لوگ سیاست دانوں کے گھر پر نہیں جاتے بلکہ سیاست خود ہی انکے گھر پر جاتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل کی بات کی جائے وزیر اعظم نریندرمودی جنہوں نے مسلمانوں کو کبھی بھی اپنے در تک آنےنہیں دیا تھا وہی وزیر اعظم نریندرمودی نے بوہرہ سماج کی جانب سے منعقدہ جلسہ میں پیدل چل کر شرکت کی تھی۔ اس بات سے اندازہ لگائے کہ جب تک کوئی قوم اپنے درمیان مختلف شعبوں میں مضبوط قائدین کو تیار نہیں کرتی اس وقت تک انکی سیاسی طاقت کھوکھلی ہی رہے گی اورانہیں سیاست میں نظرانداز کیا جائے گا۔
آج ہم مسلمان کردار سے کمزور ہیں، اخلاق سے کمزور ہیں، تجارت سے کمزور ہیں، لین دین کے معاملات میں کمزور ہیں، ہمارے قول اورفعل میں فرق ہے تو کیونکر ہمیں کوئی عزت دے گا کیونکر ہمیں کوئی سیاست میں قائد تسلیم کرے گا۔ ہمیں شکوہ تو کرنا آتا ہے لیکن اس شکوے کا جواب ڈھونڈنا نہیں آتا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔