کنہیا کمار کی جیت کیوں ضروری ہے؟

تحریر:محمد وجیہ الدین

(سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر ٹائمس آف انڈیا)

ترجمہ:نایاب حسن قاسمی

  میری پرورش و پرداخت بہار کے ایک گاؤں میں ہوئی ہے، جہاں میں اکثر اپنے والدکے ہندودوستوں کی زبانی’’سمریا‘‘کی یاترا کے بارے میں سنتا تھا۔ سمریا پٹنہ سے 120؍کیلومیٹر دور بیگو سرائے کی ایک بستی ہے، بنیادی طورپر یہ بستی دو وجہوں سے خاص ہے:ایک تو یہ نابغہ ہندی شاعر رام دھاری سنگھ دِنکر کی جاے پیدایش ہے اور یہاں گنگا کا ایک گھاٹ بھی ہے، جو ہندووں کے لیے مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ان آٹھ مقامات میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں ہندودھرم کی مذہبی کتابوں میں لکھاہے کہ وہاں ’’آرادھ کمبھ‘‘یا کمبھ میلہ لگایاجائے۔

          حال میں اس بستی کا ذکربیگوسرائے سے بی جے پی کے لوک سبھا امیدوار گری راج سنگھ اور سی پی آئی کے امیدوار کنہیاکمار دونوں نے کیا ہے۔ ایک الیکشن ریلی کو خطاب کرتے ہوئے مسٹر سنگھ نے بیگوسرائے اور پورے ہندستان کے لوگوں کو بتایاکہ ان کے والدین کو سمریاگھاٹ پر نذرِ آتش کیاگیا تھا، البتہ انھیں وہ جگہ یاد نہیں ہے۔ دوسری طرف گری راج نے قوم کو یہ بھی یاد دلایاکہ مسلمان مرنے کے بعد بھی زمین پر قبضہ کرلیتے ہیں ؛کیوں کہ انھیں دفنایاجاتا ہے۔ ’’لہذااگر تمھیں دفن ہونے کے لیے زمین چاہیے، تو بھارت ماتا کی جے کہناہوگا‘‘۔ گری راج نے واضح طورپر مسلمانوں کو دھمکی دی۔ حالاں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کے مسلمان اپنے وطن کو اپنی ماں سمجھتے ہیں اور’’مادرِ وطن زندہ باد‘‘یا’’ماں تجھے سلام‘‘جیسے نعرے بھی وہ لگاتے ہیں، جو معنوی اعتبار سے’’بھارت ماتا کی جے‘‘کے ہی مساوی ہے۔

           وطن سے محبت کے اظہار کے لیے بعض مخصوص الفاظ یا نعروں کو خاص نہیں کیاجاسکتا۔ حب الوطنی کا اصل امتحان تب ہوتا ہے، جب ملک آپ کی طرف اشارہ کرے، تو آپ فوراً اس کا جواب دیں اور یہ تاریخ ہے کہ مسلمان کبھی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔ اس ملک میں ایک ایسا طبقہ ہے، جس نے لوگوں کی حب الوطنی کی پیمایش کا اپنا آلہ ایجاد کررکھاہے۔ وہ عموماً اس قسم کے جملے بہ طور ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ:اس ملک میں رہناہے تو بھارت ماتاکی جے کہنا ہوگا۔ یہ ملک جتنا گری راج سنگھ کاہے، اتناہی کنہیاکمار یا اس ملک کے کسی بھی لیگل شہری کاہے۔ ہم سب کو اس کی ماضی کی تاریخ پر فخر ہے، عہدِ وسطی میں مختلف تہذیبوں، زبانوں کے ملاپ اور ترقی پسندی کی طرف اس کے سفر پر بھی ہمیں فخر ہے۔ اشوک اور اکبر ہمارے ملک کی تاریخ کے عظیم کردار ہیں، ہمیں بہادر شاہ ظفر پربھی فخر ہے، جسے اس ملک کے لوگوں نے1857 کی جنگ آزادی کی قیادت کے لیے منتخب کیاتھا۔ جو لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں، انھیں اقبال کے ترانۂ ہندی کو پڑھنا چاہیے، ان کا یہ شعر پڑھنا چاہیے:

پتھر کی مورتوں میں سمجھاہے تو خداہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتاہے

کنہیاکمار کی انتخابی تقریر میں بھی سمریاکا ایک بار ذکر آیا، جس میں اس نے اس بستی کی مذہبی اہمیت اور ضلع کے خراب تعلیمی نظام پر گفتگو کی۔ اس نے شمالی بہار کے ایک دوسرے ضلع دربھنگہ سے بیگوسرائے کا موازنہ کرتے ہوئے کہاکہ’’دربھنگہ کے لوگ موکش(نجات)حاصل کرنے کے لیے بیگوسرائے آتے ہیں اور بیگوسرائے والے تعلیم اور علاج کے لیے دربھنگہ جاتے ہیں ‘‘۔ یہ بات صحیح بھی ہے کہ دربھنگہ کی متھلا یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں پڑوسی اضلاع اور دودراز کے بہت سے طلبہ و طالبات پڑھتے ہیں۔

ایک طاقت ورخطیب کنہیاکمار کو پتاہے کہ کب اپنے مخالف کو اپنی طلاقتِ لسانی سے ڈھیر کرنا ہے، مگر کنہیا کمار کاصرف اس وجہ سے جیتنا ضروری نہیں ہے کہ وہ ایک اچھا مقرر ہے؛بلکہ وہ تبدیلی کی علامت بن چکاہے، جبکہ گری راج سنگھ اور چھ بار ایم ایل سی رہ چکے آرجے ڈی کے امیدوار تنویر حسن(جنھیں کنہیاکمار اور ان کے نوجوان کارکن حسن چچا کہتے ہیں )status quoکی علامت ہیں، کنہیا تازہ ہوا کا جھونکاہے، جبکہ سنگھ اور حسن آزمودہ ہیں اور لوگ ان دونوں کا تجربہ کرکے دیکھ چکے ہیں، کنہیاکمار کے پاس نوجوان جوش اور نئے افکار ہیں۔ سنگھ اور حسن رسک لینے سے گھبراتے ہیں ؛بلکہ گری راج تو شروع میں نالندہ کی بجاے بیگوسرائے سے ٹکٹ ملنے پر ناراض تھے اور الیکشن لڑنے کے موڈ میں بھی نہیں تھے، مگر بیگوسرائے کا’’بوّا‘‘رسک لینے کا عادی ہے۔ وہ اسی وقت ایک نیشنل لیڈر ہوگیا تھا، جب اسے مبینہ طورپر وطن مخالف نعرے لگانے کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا، اس کے خلاف اب تک چارج فریم نہیں کیاگیا، اس کے باوجود اس کے مخالفین اسے اینٹی نیشنل ہی کہتے ہیں۔ کنہیا اپنی تقریروں میں اپنے پرجوش سامعین سے کہتاہے کہ اگر وہ واقعی اینٹی نیشنل ہے، تو پولیس اسے گرفتار کیوں نہیں کرتی؟تہارمیں اپنی قید کے دنوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ مرکزی حکومت کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر اس نے کوئی قانون شکنی کی ہے، تووہ اسے گرفتار کروادے۔ ہندی میں اس کاایک نعرہ ہے:جب تک جیل میں چنا رہے گا، آناجانا لگارہے گا۔

          کنہیاکمار کا الیکشن جیتنا ایک اور وجہ سے بھی ضروری ہے۔ ایک لمبے عرصے سے ہمارے پارلیمنٹ میں کوئی ایسا ممبر نہیں گیا، جو غربت کے لمبے دور سے گزراہواور اب بھی وہ وجاہت و ثروت سے محروم ہو۔ ایسے بہت سے لوگ گزرے ہوں گے، جن کی پیدایش تو غربت و فقر کے ماحول میں ہوئی، مگر جب انھیں پاورملاتو وہ بھی بدعنوان ہوگئے، مگر ہمیں امیدہے کہ کنہیابدعنوانی نہیں کرے گا۔ ہمارے پاس قومی سطح پر لگ بھگ ایک درجن ایسے سیاست دان ہیں، جو ہم عام ہندستانیوں کی آوازیں تو اٹھاتے ہیں، مگر وہ اپنی عملی زندگی میں ہم جیسے بالکل بھی نہیں ہیں۔ عموماً ہمارے سیاست دان بدبودار تکبر میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف کنہیاایک عام آدمی کی طرح بات کرتاہے۔ وہ ایک ایساعام ہندستانی ہے، جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے ذریعے تھوپی گئی غریبی کے خاتمے کے لیے لڑرہاہے۔ وہ ایک ایسی حاشیائی فیملی سے آتاہے، جونہایت معمولی ماہانہ آمدنی پر گزر بسر کرتی ہے، اس کی ماں مینا دیوی ایک آنگن باڑی ملازمہ ہے، کنہیاکمار کی ذات سے لاکھوں امیدیں وابستہ ہیں۔ اگر وہ جے این یو نہ گیا ہوتا، تو وہ بھی آج بے روزگار نوجوانوں کی لائن میں کھڑا ہوتا۔ جے این یونے اس کی تشکیلِ نو کی ہے اور جے این یونے ہی وہ کنہیاکمار پیدا کیاہے، جسے آج پورا ملک جانتاہے۔ اسے ایک معمولی طالب علم سے ایک Phenomenonمیں بدلنے کے لیے حکومت کا بہت زیادہ شکریہ اداکرنا چاہیے۔ اسی دن، جب کنہیانے جے این یو میں اپنی شرربار تقریر کی تھی، ایک لیڈر پیدا ہوگیا تھا۔

          دوسرے پولرائزنگ امیدواروں کے برخلاف، جو مخصوص شناختوں پر مبنی سیاست کرکے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں، ان کے برخلاف کنہیاکمار ایسے ایشوز پر بات کرتا ہے، جوہم سب سے متعلق ہیں۔ کسانوں کے مسائل، قیمتوں میں بڑھوتری، بے روزگاری، محرومی و پسماندگی وغیرہ۔ کنہیاکمار تیرہ و تار ماحول میں امید کی کرن ہے۔ ایسے وقت میں، جبکہ بدعنوانی نے سارے سسٹم کو اپنے چنگل میں لیاہوا، ہمیں کنہیاکمار جیسے بے خوف اور ثابت قدم لیڈرکی ضرورت ہے، جو اقتدار کے سامنے پوری قوت اورخود اعتمادی کے ساتھ اپنی بات رکھے۔

          ہم سب جمہوریت کے مندر میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے طویل سلسلوں سے بور ہوچکے ہیں۔ کنہیاکمار پارلیمانی مباحثوں میں اپنی خطابی صلاحیتوں، محقق دلائل، ہلکے پھلکے مذاق اور فکاہی انداز سے ایک نئی تبدیلی لائے گا۔ کنہیااگر پارلیمنٹ پہنچ گیا، تو بیگوسرائے ماضی کی تاریخ میں سمٹ کر نہیں رہے گا، اس کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ کنہیانے ایک یونیورسٹی، انجینئرنگ کالج اور کئی تعلیمی ادارے بنوانے کے وعدے کیے ہیں۔ اسے ان وعدوں کی تکمیل اور بیگوسرائے کے بیٹا کو اپنی جنم بھومی کی خدمت کا موقع ملنا چاہیے۔ 29؍اپریل کو یہ طے ہوگا کہ بیگوسرائے نوجوان، قوتِ عمل سے سرشار بیٹا کو منتخب کرتا ہے یا دو اَزکار رفتہ نیتاؤں میں سے ایک کا انتخاب کرتاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔