شیخ التفسیر و الحدیث ابو محمد فہیم انوار اللہ خان (قسط دوم)
ابوعبد القدوس محمد یحییٰ
بڑا آدمی وہ نہیں جو خود کسی بڑے منصب پر فائز ہوجائے بلکہ وہ ہے جو دوسروں کو بھی بڑا بننے میں مدد دے۔ اس لئے بڑے آدمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جن میں بڑا بننے کی صلاحیت ہو انہیں بڑا بنادے۔ لوگوں کا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی منصب یامقام پر فائز ہوجائیں تو وہ اپنی ذات اورخاندان کے سوا سوچتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی تمام ترتوجہ ذاتی خواہشات کی تکمیل اوراعزہ واقرباء کے لئے جاہ منصب کی سفارش و کوشش پرمرکوز ہوتی ہیں اور کسی دوسرے کوتو وہ اپنے سامنے سرتک نہیں اٹھانے دیتے لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے بھی علماء ربانیین ہیں جن کاکردار اس کے یکسر برعکس ہے اوروہ ایسا کرکے دکھاتے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ
بے لوث اورغمگسارشخصیت
آج اس مادہ پرستی کے دور اور تاجرانہ ذہنیت کے عالم میں ایسا بے لوث، مخلص، شفیق،ہمدرد، غمگسار، طلبہ کی معاونت کرنے والااور ان کے دکھ درد بانٹنے والا، اپنا تن، من،دھن، طلبہ کی کامیابی وفلاح و بہبود کی خاطر نچھاور کرنے والا شاید کوئی نہ ہو۔
ان کے کردار میں بے پناہ اخلاص و صداقت، اور جذبہ ہمدردی ونفاست ہے۔ وہ خوددار شریف النفس انسان ہیں کوئی بھی ایسا کام کرناگوارانہیں کرتے جس سے ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے۔ آپ نے ملکی اور غیر ملکی پرکشش تنخواہوں اورمراعات کی پیشکشوں (Offers) کے باوجود جامعہ علیمیہ کو ترجیح دی اور اپنی پوری زندگی اس(جامعہ) میں انوار بکھیرنے اور روشنی پھیلانے میں صرف کردی۔آپ کی مکمل زندگی جامعہ کے لئے اس شعر کی مانند ہے۔
زندگی پھول بھی ہے رنگ بھی ہے
نور تنویر بھی ہے موجۂ انوار بھی ہے
سدابہار شخصیت
حضور اکرم کا فرمان ہے: عجبا لامر المؤمن ان امرہ کلہ لہ خیرولیس ذالک لاحد الا للمؤمن۔ ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرالہ۔ "مومن کے لئے ہرمعاملہ میں خیروبھلائی ہےاور ایسا مؤمن ہی کے لئے ہےاورکسی کے لئے نہیں۔ اگر اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس پر رب کا شکر اداکرتا ہے اور یوں بھلائی اس کے حق میں بہتر ثابت ہوتی ہےاور اگر اس کو کوئی رنج یاغم پہنچے تو اس پر وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ غم بھی اس کے لئے خیر کا باعث ہوتاہے۔ ” (مسلم)
یوں وہ اس خوشی اور غم سے بھی رب کی رضا حاصل کرلیتا ہے جو مومن کی زندگی کا مقصد حقیقی ونصب العین ہے۔ یہی معاملہ جناب استاذ محترم کے ساتھ ہے کہ آپ خوشی اور غم کو رب کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس کی تقسیم پر راضی رہتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نہ آپ خوشی، مسرت،کے لمحات میں فخر وغرور سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی غم وحزن کی کیفیت آپ کےمنور چہرےپر کوئی تکدر و کراہت اورناگواری کے اثرات پھیلاتی ہے۔اور آپ دیکھنے والوں کونہ صرف پرسکون بلکہ شگفتہ اور شادمان ہی نظرآتے ہیں۔ کیا ہی سدابہار شخصیت ہے۔(سبحان اللہ!)
شادمانی میں گزرتے اپنے آپے سے نہیں
غم میں رہتے ہیں شگفتہ شادمانوں کی طرح
محرم اسرار حیات ابدی
آپ روحانی امراض، مثلاً حسد،عناد،حرص، ہوس،غیبت، کینہ،نفرت، انتقام،بغض،دشمنی اور دیگر دنیاوی آلائشوں سے پاک ہیں۔ آپ کا تعلق افراد کے اس گروہ سے ہے جو اس دنیاکے جاہ ومنصب، مال و دولت، امارت و اقتدار،نمود ونمائش،عزت و شہرت وغیرہ سے مکمل استغناء وبے نیازی برتتے ہیں کیونکہ وہ دنیاوی زندگی( عارضی وفانی) اور اخروی زندگی (ابدی و دائمی) کے راز یعنی فلسفہ حیات دنیا و آخرت کوسمجھ جاتے ہیں اور پھر اپنے دامن کو دنیا کی آلائشوں سے آلودہ اورداغدار نہیں ہونے دیتے۔
جو محرم اسرار حیات ابدی ہیں
دامن کو وہ آلودہ دنیا نہیں کرتے
فرض شناسی ونظم و ضبط
ذمہ داری ملنے پر رویوں کے لحاظ سے دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں۔ ایک جب کوئی ان پر نگران نہ ہوتو وہ آزادمنش ہوجاتے ہیں اور لاپرواہی، تساہل و تغافل کا رویہ اپناتے ہیں۔ آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کام سے حددرجہ غفلت برتے ہیں اور ادارے کے خسارہ اور نقصان کا باعث بنتے ہیں لیکن دوسرے وہ افراد ہیں جب انہیں آزادی دی جائے تو اپنی تمام تر صلاحیتوں، خوبیوں، کو بروئے کار لاتے ہیں یہاں تک کہ اپناجسم وجان سب قربان کرتے ہوئے ادارے کو مزید نکھار دیتے ہیں، حسین، خوبصورت روشن اورمنور بنادیتے ہیں۔ یعنی آزادی ملنے پران کے کام بھی مانندِ انوار ہوجاتے ہیں۔ علامہ انوار صاحب کا تعلق اسی دوسرے طبقے و گروہ سے ہے۔آپ انتہائی فرض شناس، ذمہ دار اورنظم ضبط کے پابند ہیں۔ آپ تمام تر سختیوں دشواریوں کے باوجود محنت و مشقت سے کبھی گھبراتے واکتاتے نہیں ہیں کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اگرراستے دشوارگزاروپرخار ہوں توان کانٹوں پر چلنا دشوارضرور ہے لیکن کامیابی(منزل) کے لئے ضروری ہے۔بقول حالی
سعی سے اکتاتے اورمحنت سے کنیاتے نہیں
جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کی طرح
مردم شناسی
اللہ رب العزت نے آپ کو مردم شناسی یعنی دل کے نور سے بھی متصف فرمایا۔مردم شناسی آپ کا خاص جوہر ہے۔ آپ کی بیشتر عمر تعلیم و تدریس میں گزری ہے۔طلباء بالخصوص نوجوانوں کی نفسیات کا گہرامطالعہ کیا ہے۔ آپ بات چیت( انٹرویو) کے دوران ہی ادراک کرلیتے ہیں کہ آیا یہ طالبعلم پڑھنے والا ہے یا نہیں ہے بعض اوقات آپ اشارۃً یا کبھی صراحتاً اپنی رائے کا اظہاربھی فرمادیتے۔آپ کی پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتے نہ دیکھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ظاہری بصارت کے ساتھ دل کی بصیرت اور نورسے بھی مالامال ہیں۔ بقول اقبال
دل بینا بھی کرخدا سے طلب
آ نکھ کانور دل کا نور نہیں
قائدانہ صلاحیت پیدا کرنا
بڑا آدمی وہ نہیں جو خود کسی بڑے منصب پر فائز ہوجائے بلکہ وہ ہے جو دوسروں کو بھی بڑا بننے میں مدد دے۔ اس لئے بڑے آدمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جن میں بڑا بننے کی صلاحیت ہو انہیں بڑا بنادے۔ لوگوں کا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی منصب یامقام پر فائز ہوجائیں یاکوئی بلندمرتبہ حاصل کرلیں تو وہ اپنی ذات اورخاندان کے سوا سوچتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی تمام ترتوجہ ذاتی خواہشات،لذات وآسائشوں کے حصول اوراعزہ واقرباء کے لئے جاہ منصب کی سفارش و کوشش پرمرکوز ہوتی ہیں اوروہ کسی دوسرے کواپنے سامنے سرتک نہیں اٹھانے دیتے بلکہ اگر کسی میں قائدانہ جوہر دیکھتے ہیں تو اس کی راہ میں بھی رکاوٹ پیداکرتے ہیں چہ جائیکہ ان کو بلند کرنے میں خود اپنی توانائیاں صرف کریں لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے بھی علماء ربانیین ہیں جن کاکردار اس کے یکسر برعکس ہے اوروہ ایسا کرکے دکھاتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں، آسان و سہل مسائل صغار کوسکھاتے و سمجھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ ادق علمی موشگافیاں اورباریک بینی کے قابل ہو جاتے ہیں یعنی قاعدہ (ابجد) پڑھانے سے لے کر قواعد کا اجراء کرانے تک کی خوبیوں سے مالامال کر دیتے ہیں اور آخر کاروہ صغار خود کبارو علماء بن کرقائد اوررہبر کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
(کونوا ربانیین) حکماء علماء فقہاء ویقال الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ۔ ترجمہ:”کونوا ربانیین” سے مراد حکماء، فقہاء،علماء ہیں اور ربانی اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کرلوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔(صحیح بخاری، کتاب العلم)
صغار میں قیادت کاجوہر پیداکرکے انہیں کباربنانے کی خوبی بھی آپ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ طالبعلم میں بلند اڑان بھرنے کی صلاحیت دیکھنے کے بعد آپ اس کلی کو پھول اورطالبعلم کوممتاز وہونہاربنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔چھوٹوں پراس حد تک شفقت کرتے ہیں کہ جو ان کی آغوش میں آیا اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب ساری ذمہ داری ان ہی کی ہے۔بقول سلیم احمد
مری نگاہ تو امکاں تلاش کرتی ہے
جو گل کِھلا نہیں وہ بھی مری بیاض میں ہے
آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگر ہیرے حاصل کرنا چاہتے ہو تو کوئلے کی کانوں سے ہی یہ ہیرے مل سکتے ہیں۔ کوئلہ دیکھ کر صرف ظاہر پر نہ جانا چاہئے کہ یہ توکوئلے کی کانیں ہے یہاں رکھا ہی کیا ہے۔ اسی طرح دیہاتیوں اور گنواروں کے بھی ظاہر ی حلیہ کونہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کونکھارکراورصحیح تعلیم و تربیت کا لباس پہناکر ان سے بلندکردار اور عالی افکار علماء کوپروان چڑھاناہے۔بقول حالی
بے ہنروں میں ہیں قابلیت کے نشاں
پوشیدہ ہیں وحشیوں میں اکثرانساں
عاری ہیں لباس تربیت سے ورنہ ہیں
طوسی ورازی انہیں شکلوں میں نہاں
علوم القرآن والحدیث کے ساتھ نفسیات، جدید منطق، جغرافیہ،معاشیات اورعمرانیات وغیرہ پر گہری نظر رکھنے اور جدید سائنسی معلومات سے آگاہی رکھنے کے باعث آپ کا انداز تدریس بڑاہی بلیغانہ، عالمانہ اور حکیمانہ ہے، آپ دوران تفسیر آیات کی تشریح جدید مثالوں کے ذریعے کرتے ہیں اور جابجا ان تمثیلات وجدید تحقیقات کو بیان فرماتے ہیں۔ آپ صرف کتاب نہیں پڑھاتے بلکہ عملی زندگی کے تجربات اور نچوڑ پیش کرتے ہیں جو صرف کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔
سبع سنابل
آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ادارے میں طلباء کی سات پشتیں براہ راست آپ سے اکتساب علم کرچکی ہیں۔ یعنی ایسے طلباء بھی ہیں جو آپ سے براہ راست استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اساتذہ کے بھی شاگرد ہیں جن میں شاگرد اور استاد کے رشتہ کی بناء پر قائم ہونے والی سند میں انوار اللہ صاحب ساتویں درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔ اور خود آپ کے طلباء کے سینکڑوں شاگرد ہیں۔ اس طرح آپ قرآن کریم کی اس آیت کے مصداق ٹھہرے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم (البقرۃ: ٢٦١)
ترجمہ:مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کواللہ کی راہ میں ایسی ہے جیسے ایک دانہ جواگاتا ہے سات بالیں اور ہر بالی میں سو دانہ ہو، اور اللہ تعالیٰ (اس سے بھی) بڑھادتیا جس کے لئے چاہتا ہے، اور اللہ وسیع بخشش والا، جاننے والا ہے۔
آپ کا سلسلہ تلامیذ کچھ یوں ہے:مثلاً آپ کے شاگردعالمگیر شہرت یافتہ عالم دین ومبلغ جناب پروفیسرعمران نذر حسین صاحب، ان کے شاگرد جناب محمد شاہ بخاری صاحب، شیخ محمد اقبال لاسی صاحب،جناب سرفرازصابری صاحب،جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب،جناب محمدشاہدخان،مفتی خرم غزالی۔ یہ تمام افرادباعتبار ترتیب اپنے سے بالااستاذ کے تلمیذ ہونے کے علاوہ براہ راست آپ (استاذ محترم)سے اکتساب علم کی سعادت بھی رکھتے ہیں۔ بقول منشاء الرحمن منشاء
جنھیں حاصل ہوا قرب تیرا
وہ ذرے ماہ کامل بن گئے
تبصرے بند ہیں۔