طلاق دینے کا صحیح اور غلط طریقہ!

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

 اسلام میں نکاح کی ایک حیثیت عبادت کی بھی ہے، نکاح کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ نبی اکرم ﷺنے نکاح کو نصف ایمان قرار دیاہے، آپ نے صاحبِ استطاعت کو اس کی ترغیب دی ہے اوراسلامی تہذیب وتمدن میں اس کو  شمار کیاہے۔ نکاح کے ذریعہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تسکین اورصنفی ضرورت کی تکمیل کرتاہے۔جس سے اس کے قلب کو سرور اوردماغ کو سکون نصیب ہوتاہے۔اسی کے ساتھ نکاح ہی بقاء ِانسانی کاذریعہ اورصاف وستھرا ماحول کاضامن ہے؛  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ جو دو اجنبی رشتہ نکاح میں مربوط ہوئے ہیں ،وہ الگ الگ دل ودماغ رکھتے ہیں ،سوچنے اورغوروفکر کے لگ الگ طریقے ہیں ۔دونوں کے فکر وعمل اورطرز زندگی مختلف ہوسکتے ہیں ۔اس لیے دونوں کاہر معاملہ میں مکمل طورپر ہم آہنگ ہوناضروری نہیں ۔ان ہی دشواریوں کی وجہ سے یہ رشتہ بجائے راحت وسکون کے دردسری اورایک مصیبت کی شکل اختیارکرلیتاہے۔دونوں ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے لگتے ہیں ،ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے خلاصی کے لیےشریعت نے طلاق کی راہ ہموارکررکھی ہے۔

طلاق کے فوائد:

 جس طرح نکاح کے بہت سارےاغراض ومقاصداورفوائد ہوتے  ہیں ،اسی طرح طلاق کےبھی بہت سے اغراض و مقاصداورفوائد ہیں ،نکاح حرام کو حلال کرنے کاذریعہ ہے، تو طلاق بھی حلال کو حرام کرتاہے۔جس طرح نکاح کرناشریعت کاحکم ہےاورنکاح سے متعلق احکام پرعمل کرناضروری ہے، اسی طرح طلاق دینابھی شریعت کاحکم ہے اوراس سے متعلق احکام پر عمل کرناضروری ہے۔دراصل خالق کائنات نے ہر مرد وعورت کو آزاد پیداکیاہے، ہر ایک کو شریعت کے دائرہ میں رہ کراپنی زندگی گزارنے کاحق حاصل ہے۔ہر ایک پر لازم ہے کہ دوسرے کے حقوق اداکرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق  بھی اداکرے،مگر جب میاں بیوی رشتہ نکاح میں رہ کرایک دوسرے کے حقوق کو ادانہ کرسکیں ،دونوں کے درمیان اس طرح اختلاف رونما ہوجائے کہ ان دونوں کایاان میں سے کسی ایک کاآرام وسکون سے زندگی گزارنادشوارہوجائے،اورنکاح کےجومقاصد ہیں وہ فوت ہونے لگیں ،تو پھر طلاق کے ذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرلینے کاحکم دیاگیاہے، تاکہ دونوں اپنی اپنی  پسند کے مطابق زندگی گزاریں ، کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔گویا کہ طلاق میاں بیوی کےدرمیان ہونے والےذہنی  تناؤ،روز روزکے جھگڑے،اورایک ناختم ہونے والی مہابھارت کےخاتمہ کانام ہے۔طلاق میاں بیوی کے درمیان پیداشدہ مسائل کاحل ہے۔مرد اپنی بیوی کو طلاق دیکراوراس کوباعزت رخصت کرکے سکون حاصل کرکےاپنی پسندکے مطابق دوسری بیوی بھی لاسکتاہے،تو عورت بھی اپنی پسند کے مطابق دوسراشوہر تلاش کرسکتی ہے ۔گویاکہ دونوں کے لیےاپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کاذریعہ طلاق ہے۔

میاں بیوی کے جھگڑوں کابرااثربچوں پر بھی پڑتاہے، اگر بچوں کی موجودگی میں ماں باپ جھگڑااورلڑائی کرتےہیں ،توجہاں ایک طرف بچوں کی تعلیم وتربیت متاثر ہوتی ہے،وہیں دوسری طرف ان کی ذہنی نشونمااورسوچ وفکر بھی اسی طرح ہوجاتی ہے،بچے بھی گالم گلوچ، لعن طعن اورلڑائیکرنےکوسیکھتے ہیں ، پھر وہ خود اپنی شریک حیات کے ساتھ وہی رویہ اپناتے ہیں ،اس طرح گویااپنی زندگی اجیرن ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کابھی مستقبل خراب ہوتاہے۔بعض دفعہ دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں  کی وجہ سے پڑوسیوں کوبھی تکلیف ہوتی ہے،ان دونوں کی آوازیں ، اورگالم گلوچ سے پڑوسی تنگ آجاتے ہیں ،ان کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں ، اس لیے طلاق کے ذریعہ جس طرح میاں بیوی کو سکون حاصل ہوتاہے،اوروہ اپنی پریشانیوں سے نجات پاتے ہیں ،اسی طرح ان کے بچوں کو بھی پرسکون ماحول نصیب ہوتاہے۔جس سے ان کی تعلیم وتربیت اچھی ہونے کے امکانات بھی ہیں ۔نیز پڑوسی بھی سکون وراحت کی سانس لیتے ہیں ۔

طلاق کے نقصانات:

 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:«أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَىالطَّلَاقُ»(ابوداؤد:2187)یعنی طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے،کیوں کہ اس سےمیاں بیوی کے درمیان کامقدس رشتہ ٹوٹ جاتاہے،دو اجنبی مردوعورت جنھوں نے اپنی زندگی کو خوشگواربنانے،صنفی ضرورت کو پوراکرنے اوردیگر امورمیں ایک دوسرے کاتعاون کرنےکاعہد کیاتھا،طلاق کے ذریعہ یہ سارے معاہدے ٹوٹ جاتے ہیں ،دونوں سے اگر بچے ہیں توان کو جہاں ایک طرف پیارومحبت کی آغوش چاہئے، وہیں دوسری طرف انھیں باپ کی نگرانی  کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے۔مگر طلاق کی وجہ سے  ماں کی مامتااورباپ کینگرانی سے محروم ہونے کے امکانات کافی بڑھ جاتےہیں ، اس لیے طلاق اللہ تعالیٰ کےنزدیک نہات ہی ناپسندیدہ ہے۔طلاق کی وجہ سے نہ یہ کہ دونوں میاں بیوی الگ الگ ہوجاتے ہیں ، بلکہ دوخاندان  کارشتہ ٹوٹ جاتاہے۔اسی وجہ سے طلاق ہر زمانہ میں اورہر معاشرہ میں ایک ناپسندیدہ عمل سمجھاجاتارہاہے۔بلکہ اس طرح کے بھی واقعات ہیں کہ جب آں حضورﷺکو خبر پہونچی کی فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے تو آپ ﷺغصہ سے لال پیلےہوگئےاورکہنے لگے کہ  کیامیری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑکیاجارہاہے؟(سنن نسائی:3401)

طلاق کاحکم:

حرام:     چوں کہ طلاق اللہ تعالیٰ، اس کےرسول اورعام لوگوں کے نزدیک بھی ناپسندیدہ عمل ہے ،اس لیے صرف مخصوص حالات میں ہی اس کااستعمال کرناضروری ہےاورحالات ہی کے اعتبار سے طلاق کاحکم بدلتے رہتاہے۔ایسانہیں ہے کہ ہر طلاق ناپسندیدہ ہو، اس کی تفصیل یہ ہے کہ عام حالات میں یعنی جس میں میاں بیوی بحسن وخوبی ایک دوسرے کے حقوق اداکررہے ہوں ،دونوں کے درمیان خوشگوار ماحول ہوتو ایسی صورت میں  طلاق دیناممنوع اورحرام ہے،گناہ کاکام ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ ؒ سے یہی منقول ہے۔صاحب ہدایہ علامہ مرغینانیؒ فرماتے ہیں :أن الأصل في الطلاق هو الحظر لما فيه من قطع النكاح الذي تعلقت به المصالح الدينية والدنيوية والإباحة للحاجة إلى الخلاص(ہدایہ:1/221،المیزان:2/135)

واجب:  اگر حالات ایسےپیدا ہوجائیں کہ  شوہر کااپنی بیوی کےحقوق کو اداکرناممکن نہ ہو،یااس پر وہ ظلم  کررہاہو، مثلاوہ اس کی صنفی ضرورت کو پوراکرنے پر قادر نہ ہو،یانفقہ ادانہیں کرپارہاہو،یااس کے ساتھ گالم گلوچ اورمارپیٹ کرتاہو،اوربیوی رہنانہیں چاہتی ہوتوایسی صورت میں طلاق  کےذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرلیناواجب ہے۔اگر مرد طلاق نہیں دیتاہےیابیوی کےخلع کو قبول نہیں کرتاہےتو وہ گنہگارہوگا۔

مستحب: اگر بیوی اپنے شوہر کے حقوق اداکرنے کے بجائے اسےذہنی یاجسمانی  تکلیف دیتی ہو،اس کی وجہ سے خود مرد پریشان ہو،مرد کادنیاوی یااخروی نقصان ہورہاہو،بیوی کی وجہ سےوہ دوسروں کے حقوق ادانہیں کرپارہاہو،تو ایسی بیوی کو طلاق دیدینامستحب ہے،تاکہ مرد اس کی طرف سے ہونے والی تکلیفوں سے نجات پالےاوردوسروں کےحقوق کوصحیح سے اداکرسکے۔علامہ حصکفی ؒ فرماتے ہیں : (وَإِيقَاعُهُ مُبَاحٌ) عِنْدَ الْعَامَّةِ لِإِطْلَاقِ الْآيَاتِ أَكْمَلَ (وَقِيلَ) قَائِلُهُ الْكَمَالُ (الْأَصَحُّ حَظْرُهُ) (أَيْ مَنْعُهُ) (إلَّا لِحَاجَةٍ)۔۔۔۔۔بَلْ يُسْتَحَبُّ لَوْ مُؤْذِيَةً أَوْ تَارِكَةً صَلَاةَ غَايَةٍ، وَمُفَادُهُ أَنْ لَا إثْمَ بِمُعَاشَرَةِ مَنْ لَا تُصَلِّي وَيَجِبُ لَوْ فَاتَ الْإِمْسَاكُ بِالْمَعْرُوفِ وَيَحْرُمُ لَوْ بِدْعِيًّا. وَمِنْ مَحَاسِنِهِ التَّخَلُّصُ بِهِ مِنْ الْمَكَارِه۔(درمختارعلی ردالمحتار:3/227)

طلاق دینے کاصحیح طریقہ:

 اگر ایسی صورت حال پیش آجائے کہ طلاق دیناواجب یامستحب ہوجائے تواس صورت میں طلاق دینے سے کوئی گناہ نہیں ہوگا،بلکہ حکم شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے ثواب ہوگا، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئےطریقہ کے مطابق ہی طلاق دی جائے، اوریہ ایسے اصول ہیں کہ اگر ان کی رعایت کی جائے تو نوے فیصدمعاملات میں علیحدگی کی نوبت نہیں آئے گی۔مردو عورت دونوں کو پچتاواہوگااوردونوں اپنی حرکت پر ندامت کے آنسو بہاکر دوبارہ نکاح کے بندھن میں بندھ سکتے ہیں ۔وہ اصول وضوابط حسب ذیل ہیں :

1۔         پہلے مرد وعورت کو چاہئے کہ  وہ خود ہی صلح کرنے کی کوشش کریں ،دونوں سوچیں کہ مکمل سکھ دنیامیں ملناناممکن ہے،ایک دوسرےکو جھیلنابھی کارثواب ہے،صبراوربرداشت کرنابھی عبادت ہے۔معافی تلافی کرلیں ،گزری ہوئی باتوں کو فراموش کرجائیں ، اپنی آنے والی زندگی کے بارے سوچیں کہ کیاان کی دوسری شادی آسانی سے ہوجائے گی،کیاان کو اپنی پسند کے مطابق شریک حیات مل جائے گا،کیااس کے اندرکوئی خامی نہیں ہوگی؟کہیں ایسانہ ہوکہ جس طرح کی مصیبت سے چھٹکارہ کے لیے علیحدگی  اختیارکی جارہی ہے، اس سے زیادہ مصیبت میں گرفتارہوجائیں ۔اگر دونوں میاں بیوی سے بچے ہیں تو ان کی زندگی کے بارے میں سوچاجائے کہ کیااس علیحدگی سے ان کی تعلیم وتربیت متاثرتونہیں ہوگی؟ان کی ذہنی وجسمانی نشوونمامیں کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟کہیں اس علیحدگی کی وجہ سے اپنے بچوں کی زندگی تباہ نہ ہوجائے،اگر بچے شادی کے لائق ہوگئے ہیں تو سوچاجائے کہ کیاان بچوں کی شادی کرانے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی؟کیاان کو اچھاشریک حیات مل پائے گا؟کیاجب کوئی  آدمی رشتہ کے لیے آئے گاتو ان کے ماں باپ کو تلاش  نہیں کریں گے؟اگر ان لوگوں نے ماں باپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھ لی توکیاجواب دیاجائے گا؟ان خدشات کو سوچاجائے ،اس کے بعدکوئی قدم اٹھایاجائے۔

2۔         طلاق دینے سے پہلےاپنےاورسسرال کےذمہ داروں سے مشورہ کرلیاجائے۔ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ دونوں میاں بیوی کی بات سن کر صلح کرانے کی کوشش کریں ،انھیں طلاق کے فوائد اوراس کے نقصانات سے آگاہ کریں ۔

3۔         معتبر علمائے کرام، دارالافتاء، مدرسہ اور مسجد کے ذمہ داران سےبھی مشورہ کرلیاجائےاوران سے طلاق دینے کاطریقہ  بھیمعلوم ہونے کے باوجود مزید پوچھ لیاجائے۔انھیں بھی چاہئے کہ میاں بیوی کی بات سن کر صلح کرانے کی کوشش کریں ۔

4۔         اگر کسی بھی طرح سے صلح ممکن نہ ہوتوجب بیوی پاکی کی  حالت میں  ہویعنی حالتِ حیض میں نہ  ہو،اوراِس پاکی میں صحبت بھی نہ کی گی ہو،تو اس وقت ایک طلاق دی جائے۔دراصل پاکی کی  حالت میں بیوی کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے ،اس لیے کافی امکان ہے کہ شوہر کے دل میں رغبت پیداہوجائے اورطلاق دینےکاخیال دل سے نکل جائے۔یاپھر اس دوران بیوی معافی تلافی کرلے۔

5۔         دومسلمان مرد یاایک مرد اوردوعورتوں کی موجودگی میں طلاق دی جائے۔

            لکھ کرطلاق دی جائے،اوردستخط بھی کیاجائے۔دونوں گواہ بھی دستخط کریں اورتاریخ بھی لکھیں ۔

6۔         صرف ایک طلاق دی جائے،مثلایوں کہاجائےیالکھاجائے:”میں نے تم کو ایک طلاق دی”،بس، اس کے علاوہ آگے پیچھے کچھ نہ کہاجائے ، اس جملے کودوتین  بار دوہرایابھی نہ جائے۔

   اس جملہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی،طلاق دینےکا یہی بہترین طریقہ ہے اوریہی سنت ہے۔اس کے بعدتین حیض (ماہواری)گزرنے تک رجوع کرنے کی گنجائش رہتی ہے، یعنی اس دوران مرد اگر چاہے تو بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لے سکتاہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کواپنے پاس بلالے،یایوں کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو واپس لیا، یااس کے ساتھ وہ کام کرلے جو صرف اپنی بیوی کے ساتھ جائزہوتاہے، مثلابوسہ لے لےیاصحبت کرلے، تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گااوردونوں دوبارہ میاں  بیوی بن جائیں گے۔بہتر ہے کہ دومسلمان مرد یاایک مرد اوردوعورتوں کی موجودگی میں رجوع کرے۔

 اگر عدت کے اندر رجوع نہیں کیاتو پھر تین حیض مکمل ہوجانے کے بعد یہی طلاقِ رجعی طلاق ِبائن بن جائے گی، اورعورت بائنہ ہوجائے گی، یعنی نکاح مکمل طورپر ختم ہوجائے گا۔اس کے بعدبھی  اگر دونوں چاہیں تو ازسرے نونئے مہرکے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں ۔

طلاق دینے کےغلط طریقے:

طلاق دینے کابہتر اورمحفوظ طریقہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، مگر افسوس کہ طلاق دینے کےجوغلط اورغیرمحفوظ طریقے ہیں ہمارے معاشرہ میں بدقسمتی سے وہی رائج ہوگئے ہیں ، جس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے اورالجھ جاتاہے۔مثلا اس طرح طلاق دیناغلط ہے:(الف)میں نے تم کو تین طلاق دیا،(ب)میں نے تم کو طلاق دیا،طلاق دیا،طلاق دیا، (ج) طلاق، طلاق، طلاق وغیرہ کیوں کہ اس صورت میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے، جس میں رجوع کرنے یانکاح کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔اسی طرح حالتِ حیض میں طلاق دینا،یاحالتِ حمل میں طلاق دینا کہ دونوں صورتوں میں عدت کی مدت لمبی ہوجاتی ہے، یاایسی پاکی میں طلاق دیناکہ اس میں صحبت ہوچکی ہو کہ اس میں حمل ٹھہرنے کااندیشہ رہتاہے ،اگر حمل ٹھہرجاتاہے تو پھر عدت وضع حمل ہوگی،جو کم از کم نومہینے تک دراز ہوگی۔غصہ کی حالت میں طلاق دینا کہ اس میں آدمی کادماغی توازن معتدل نہیں رہتاہےاورایسی صورت میں کیاگیاکام عموماندامت کاباعث ہوتاہے۔اسی طرح بغیرصلح کی کوشش کے طلاق دینا، بغیرگواہ کے طلاق دینا،صرف زبانی طلاق دینا،بیوی کو خبر کئے بغیرطلاق دینایہ سب ایسی صورتیں ہیں جس میں طلاق تو واقع ہوجاتی ہے اورجتنی دیتاہے اتنی واقع ہوتی ہے، مگر طلاق دینے کے یہ طریقے غیرمناسب اور غلط ہیں ۔

تین بڑی غلط فہمیاں :

(1)پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ ایک طلاق سے طلاق رجعی پڑتی ہے دوسےطلا ق بائن اورتین سےطلاق مغلظہ،حالاں کہ ایسانہیں ہے، بلکہ ایک طلاق طلاق رجعی بھی ہوتی اوربائن بھی مثلااگر ایک طلاق کے ساتھ لفظ بائن بڑھادیایاعوض کے بدلہ میں طلاق دیاتو یہ طلاق بائن ہوگی چاہے ایک دیاہو، اس میں رجوع تو نہیں ہوسکتاہے، مگر عدت کے دوران اوربعد میں بھی دونوں صورتوں میں ازسرنونئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں ۔یہی صورت حال دو طلاق کی بھی ہے۔فرق صرف ایک اوردو کے الفاظ کاہے۔

(2)دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ بعضلوگ یوں سمجھتے ہیں پہلے ایک طلاق دیناچاہئے پھر دوسرے مہینے میں دوسری اورپھر تیسرے مہینے میں تیسری طلاق دیناچاہئے، حالاں جب ایک طلاق دینے کےبعد عدت گزرجاتی ہے تو یہی طلاق بائن ہوجاتی ہے، لہذا دوسرے اورتیسرے مہینے میں طلاق دینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔

(3)تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ ہر طلاق میں حلالہ کرناپڑتاہے،حالاں کہ حلالہ نہ فرض ہے نہ مستحب اورنہ سنت ، بلکہ حدیث میں حلالہ کرنے والے اورکروانے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ (ابوداؤد:2076)اگرتین طلاق دیدی جاتی  ہے،تو پھر میاں بیوی کے درمیان رجوع اورنکاح کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے،یہی شریعت کامزاج اورمنشاء ہے۔تاہم اگر بعد عدت اس عورت کانکاح کسی دوسرے مرد سے ہوگیا،اورسوء اتفاق کہ اُس دوسرے مرد کاانتقال ہوگیایااُس نے بھی اس عورت کو طلاق دیدی تو اب اگر یہ عورت اپنے پہلے شوہر کےساتھ نکاح کرناچاہے تو عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکتی ہے،کوئی لازم وضروری نہیں ہے۔فقط

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مرد اگر طلاق دے رہا ہو تو اس صورت میں مال مہر عورت کا حق ہے ۔ یعنی عورت کو ہر صورت میں مہر دینا ہی ہے. بلکہ بھلائی کا امر بھی ذکر ہوا ہے.
    ارشاد باری تعالی ہے :

    )الطَّلَاقُ مَر َّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آَتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا( [البقرة/229]

    “طلاق [رجعی ] دو مرتبہ ہے ،اس کے بعد یاتو نیک نیتی کے ساتھ بیوی کو روک رکھو ، یا بھلائی کے ساتھ اسے چھوڑ دو ،اس صورت میں تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ واپس لو ”

    لیکن اگر خاوند نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے :

    )لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (236) وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (237) (

    [البقرة/236، 237]
    “تمہارے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں ہے ، کہ اگر اپنی بیویوں کو انہیں ہاتھ لگانے [یعنی جماع کرنے ] اور ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو ، اور انہیں کچھ مال بطور متعہ [تحفہ ] دے دو ۔خوشحال آدمی پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی طاقت کے مطابق مناسب مقدار میں ہونا چاہئے ، احسان کرنے والوں پریہ حق ہے ۔اور اگر تم انہیں ہاتھ لگانے[یعنی جماع کرنے ] سے پہلے طلاق دو جبکہ ان کا مہر مقرر کر چکے ہو تو انہیں نصف مہر دے دو۔الا یکہ وہ[اپنا حصہ] از خود معاف کردیں ، یاوہ [مرد اپنا باقی حصہ بھی] چھوڑ دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ،اور اگر تم [مرد ] ہی [اپنانصف حصہ ] معاف کردو تو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے ۔[ایسے معاملات میں بھی ]آپس میں خیر خواہی کرنا مت بھولو ، بلاشبہ اللہ تعالی تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے ”

    مذکورہ آیات میں
    دو عورتوں کا ذکر ہو اہے ،

    * ایک جس کے ساتھ نہ مباشرت کی گئی اور نہ اس کا مہر مقرر کیا گیا،تو ایسی صورت میں مرد کو چاہئے کہ وہ اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ تحفہ تحائف دیدے ،
    ۔ لیکن یہ تحائف نصف مہر جیسا متعین نصاب نہیں ہے ۔

    * دوسری وہ خاتون جسے اس حالت میں طلاق دی گئی کہ اس سے خاوند نے فائدہ نہیں اٹھایا لیکن مہر مقرر کیا گیا یا اسے ادا کردیا گیا تھا ،ایسی صورت میں اس کا حق نصف مہر کا ہے یعنی یہ نصف مہر تو مرد کو ادا کرنا ہی ہوگا.

    # اب اگر عورت طلاق کا مطالبہ کریں …بغیر کسی شریعی عذر کے… بس وہ صرف علیحدگی چاہتی تھی تو اس صورت میں فقہا کے رائے میں اختلاف ہے جیسا کہ اپ نے دارلفتاوہ کا بھی ذکر کیا ہے…
    البتہ غامدی مکتبہ فکر کے رو سے مہر ، نان نفقہ ، تحائف مرد واپس نہیں لے سکتا…البتہ ان تینوں کے علاوہ اگر کچھ دولت وغیرہ دی ہو اس کا مطالبہ کر سکتا ہے .
    عورت کے مطالبہ طلاق کے ضمن میں کہتے ہیں :

    “[عورت کے مطالبہ پر اگر شوہر طلاق دے تو] اس طلاق کے بعد شوہر کے لئے رجوع کا حق نہیں ہوگا أور بیوی پابند ہوگی کہ مہر أور نان ونفقہ کے علاوہ اگر کوئی أموال واملاک شوہر نے اسے دے رکھے ہیں أور طلاق کے موقع پر وہ انہیں واپس لینا چاہتا ہے تو فصل نزاع کیلئے عدالت سے رجوع کرے یا أس کا مال اسے واپس کردے “۔

    [ إشراق ۔دسمبر 2008)

    یہ بات یاد رہیں یہاں یہ بعض املاک کی واپسی کے مطالبے کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ طلاق کے ارادے سے دونوں فریقین رجوع کریں…یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اسلام کسی ایک فریق کو سپورٹ کر رہا ہے… یہ حکمت بھی مدنظر رکھیں کہ چونکہ مہر وغیرہ کی ادائیگی مرد کے زمے ہیں تو طلاق دیتے وقت یہ اسے ادا کرنا پڑتا ہے ..اسی طرح دوسری شادی کی صورت میں بھی مرد کو دوبارا مہر دینا پڑتا ہے …اس لیے وہ طلاق دیتے وقت نفساتی طور پر سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ طلاق کی نوبت نہ ائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے گھر کو بچایا جائے. …دوسری طرف عورت کو خلع جیسے خاص کیس میں جس میں عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو مہر ،نان نفقہ اور تحائف کے علاوہ بعض اموال سے منع کرنے میں یہ حکمت ہے کہ طلاق سے رجوع کر یں … اگر ایسا نہ کی جائے تو سماج میں یہ بھی ممکن ہے کہ مثال کے طور پر کوئی عورت شادی کے بعد طلاق کا مطالبہ کریں… اموال حاصل کریں…پھر دوسری شادی کریں اور طلاق کا مطالبہ کریں اور اموال حاصل کرتی رہے… یہ سلسلہ جاری رہی… اسلام کا اموال کو روکنے مقصود نہیں ہے بلکہ طلاق سے دونوں فریقین کو منع کرنا مقصود ہیں تاکہ صحت مند معاشرہ ہو تاکہ میاں بیوی اور بچے خوشحال زندگی بسر کر سکے.

تبصرے بند ہیں۔