اسلام کا تصور نکاح اور موجودہ شادیوں کی محفلیں!

شیخ فاطمہ بشیر

  اسلام ایک دینِ فطرت ہے، ایک طرزِ زندگی ہے،  ایک طریقہ ہے،  ایک راستہہے،  ایکمذہب ہے۔ رحمت و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ سماجی، معاشی، انفرادی، معاشرتی اور ازدواجی  زندگی کا  ایک بہترین گائیڈ اور رہنما ہے، جو انسان کے جذبات و احساسات کی روشنی میں صحیح اور غلط طریقوں کی پہچان کرواتا ہے۔ خوشی کے موقع پر  خوشیاں منانا جہاں انسان کا فطری تقاضہ اور ضرورت ہے وہیں دینِ فطرت بھی اسکی اہمیت کو محسوس کرتا ہے۔ کچھ حدود و شرائط اور بندشوں کے ساتھ انضرورتوں کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جائز موقعوں پرخوشی    منانے کا پورا حق دیتا ہے۔ان خوشیوں میں اسلامی ذوق اور ہدایات و آداب کا لحاظ رکھنے کا حکم   دیتا ہے۔ان لمحات کو فراہم کرنے والے کا شکر ادا کرنے کی ترغیب  دیتا ہے۔مسرّت کے اظہار کے وقت اعتدال کے ساتھ نہ صرف خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے عین   دین داری کا درجہ قرار دیتا ہے۔ لیکن ایسے  موقعوں پرفخر و غرور کے  اظہار سے روکتا ہے۔ ایسے عمل، رویے، برتاؤ، اخلاق و عادات سے منع کرتا ہے جن کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو اسلامی آداب وہدایات کے بر خلاف ہو۔

 ’شادی ‘جو لفظ’شاد‘ کا مصدر ہے، جسکے معنی ہی  خوشی اور مسرّت کے ہے۔ یہ ایک ایسا اسلامی،    سماجی، معاشی اور معاشرتی   عمل ہے جس سے بہت سے خوشگوار  احساسات اور یادگار   لمحات وابستہ ہوتے ہیں ۔اسلام جہاں جنسی انحرافات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے وہیں نکاح کو انتہائی آسان بناکر بیک وقت راحتِ اعصاب اور راحتِ ضمیر کا بھی ضامن بن جاتاہے۔  جہاں یہ عمل اسلامی فریضہ کا درجہ رکھتا ہے ،   وہیں ایک پاک و صالح معاشرے کی بنیاد بھی ڈالتا ہے۔  جہاں یہ دو افراد اور دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے، وہیں یہ نسلِ انسانی کی بڑھوتری کے جائز راستے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایک ایسے اسلامی معاشرے کا تصوّر پیش کرتا ہے جہاں اسلام کے اصولوں اور احکامات کی پیروی اوّلین فرائض میں شامل ہو۔ جہاں شعبۂ ـزندگی میں اسلامی نظریات مدِّنظر رکھے جائیں ،  اور انفرادی     زندگی بھی اسلامی تعلیمات سے رَچی بَسی ہو۔

 ’مال‘ جو خالقِ کائنات کی ایک بڑی نعمت ہے اور ساتھ ہی ایک بہت بڑی آزمائش اور وبال بھی ہے۔  جائز ذرائع سے حاصل کرکے  صحیح  راستوں اور طریقوں پر خرچ کی گئی دولت،  دنیاوی اور اخروی دونوں جہاں کے لیے بہتر ہی بہتر ہے۔ لیکن اسکے برعکس ناجائز  طریقوں پر برباد کی گئی حلال آمدنی صرف اورصرف عذاب اور وبالِ جان ہے اور آخرت میں ذلّت و رسوائی کا سودا ہے۔ عزیز قارئین! آئیے مالی لحاظ سے لوگوں کی کچھ اقسام پر نظریں دوڑاتے ہیں ۔ دنیا میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں ، امیر اور غریب۔ امیر وہ جنکے پاس روپیوں پیسوں کی فراوانی ہو۔ خواہشات کی تکمیل میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ کھانے، پینے، پہننے اور رہنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔ دوسری قسم ہیں بیچارے غرباء و مساکین، جنکی زندگی کسم پُرسی اور تکالیف کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہوتی ہے۔ مختلف آلام و مصائب سے پُر اور بے انتہا تنگی و دشواری سے زندگی بسر ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ ایک علاحدہ قسم جو اِن دونوں کی مشترکہ شاخ ہے، اور وہ ہے درمیانے درجے کے لوگ، جن کے پاس ہر چیز میں میانہ روی اور اعتدال کا رویہّ ہوتا ہے۔ نہ زیادہ مہنگا رہن سہن اور نہ ہی زیادہ بدترین صورت میں گزربسر ہوتی ہے۔

 قوم کے کچھ المناک حالات پر سرسری سی نظر دوڑاتے چلتے ہیں ۔ بیچارے ہماری قوم کے افراد ہر وقت روپیوں پیسوں کا رونا روتے ہیں ۔چیریٹیبل اسپتالوں میں دور دور تک  ہماری برقع پوش مائیں اور بہنیں ہی نظر آتی ہیں ۔ رمضان میں زکـوٰۃ کے مو قع پر ،      رمضان کِٹ اور عید کِٹ کی فراہمی کے موقعوں پرقوم کی غریبی اور لاچاری سے دِل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ 7 سے 10 فیصد ریزرویشن کے حصول کے لیے ہم سڑکوں پر احتجاج کے لیے آجاتے ہیں ۔ فیس کی ادائیگی میں مشکلات کے سبب تعلیم کے اعلیٰ شعبوں میں ہماری نمائندگی نہیں ہے۔   آئیے ان حالات کے سکّے کا دوسرا رُخ دیکھتے ہیں ۔

 امام الانبیاء حضرتِ مصطفی ؐ کا ارشاد ہے:

’اِن لَکل اُمَّۃفِتنہ وَ فتنہ اُمَّتی المَال‘  (ہر امّت کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہے، اور میری امّت کا فتنہ مال ہے۔)  (ترمذی)

 شادی کا مقصد شرعی طور پر دو افراد کے درمیان ایک پاکیزہ رشتہ قائم کرنا ہے۔ محفلِ نکاح میں ’خطبۂـــ نکاح‘  نکاح کی شرعی حیثیت کو سمجھانے، اسکے تقاضوں کو ذہن نشین کروانے اور اسکے تعلق سے عائد ہونے والی عظیم ذمّہ داریوں کی یاد دہانی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ محفلیں بجائے سادگی اور پاکیزگی کے، ایک دکھاوا بن کر رہ گئیں ہیں ۔خصوصاً شادی کے ان موقعوں پر ہم ایسے مسلمان بن جاتے ہیں جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرنے کے باوجود غیروں کی نقّالی کرتے ہیں ۔ جہاں قرآن فضول خرچ لوگوں کا  ’ شیطان کے بھائی‘  سے موازنہ کرتاہے وہیں شادیوں کے موقع  پر ہمارے معاشرے میں اسراف اور دولت کے بہتے دریا کو دیکھ کر عقل دنگ، زبان گنگ اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔ مومن کی نشانی ہے کہ وہ خوشی میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتا ہے۔ اپنے گفتار و کردار سے ، خدا کے فضل و کرم اور عظمت و جلال کا اظہار و اعتراف کرتا ہے۔ بے جا رسومات اور نمود و نمائش سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن  ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر ہونے والی فضول رسومات اور روایات، پُر تکلّف سجاوٹ و بیش قیمت آرائش، جوایک طرف صاحبِ ثروت لوگوں کے لئے دلوں کے ارمان نکالنے کا ایک بہانہ بن گیا ہے، تو وہیں دوسری طرفان سب باتوں  نے شادی کو ایک جھنجھٹ بناکر مفلس و خستہ حال طبقے کی جان مصیبت میں ڈال رکھی ہے۔

 ؎  حقیقت خرافات میں کھوگئی

  یہ اُمّت روایات میں کھوگئی

 دیکھنے میں آتا ہے کہ  مسلم معاشرے میں بہت سی  رسومات اورخرافات عام ہو گیی ہیں ، بے ہودہ رسمیں جو صرف بے حیائی اور بے پردگی کا طوفان نہیں لاتی،  بلکہ ایسی تقریبات اسلامی عقائد اور تعلیمات کی پامالی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔  شادی  میں بے انتہا اسراف اور خود نمائی ، ہلدی و مہندی کے لئے بیش بہا قیمتی لباس ، زیورات ، سنگھار اور صرف ایک دن کے لئے ہزاروں لاکھوں کے عروسی جوڑوں کی خریداری، مختلف اقسام کے کھانے اور اسٹیج کی سجاوٹ میں ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ’مال‘ جیسی نعمت کے بارے میں یہ بات فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ یومِ آخرت اِسکا حساب چُکائے بغیر ہمیں اللہ رب العزّت کے دربار سے ہلنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

 اگر ہم عہدِ نبوی ؐ کے نکاح کی مجلسوں کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ جب کسی نکاح کی تقریب میں جاتے تو مبارکبادی کے طور پر کچھ اس طرح دُعا فرماتے:

بَارَکَ اللہُ لَکَ وَ بَارَکَ علیکُمََا وَ جَمَعَ بَینَکُمَا فی خَیر۔(خدا تمہیں خوش حال رکھے اور تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور خیر و خوبی کے ساتھ تم دونوں کا نباہ کرے) (ترمذی)

لیکن آج جب ہم نکاح کی محفلوں میں جاتے ہیں تو صرف اسٹیج کی سجاوٹ ، کھانے کی میزوں پر عقابی نظریں اور دلہن کے زیور اور کپڑے ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ ہم ایسے موقعوں پر مبارکباد تو ضرور دیتے ہیں لیکن نبیؐ کے ذریعے سکھائی گئی یہ دعا دینا بھول جاتے ہیں ۔

 نکاح ایک ایسا موقع ہے جہاں تحفوں کی تبادلی تعلقات میں تازگی اور استواری پیدا کرتی ہے۔ کشیدگی اور ناراضگی کو رَفو کرتی ہے۔ محبت کی گرمی میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن آج ہم اس مادّی اور دکھاوے کی دنیا میں ، تحفوں کی ادائیگی میں بھی ایک ایسے انوکھے تحفے کے بارے میں سوچتے ہیں جو نایاب ہو یا جسکے ذریعے میزبان ہمارے زیرِ اثر ہو اور ہماری دولت سے ہمیشہ مرعوب رہے۔ اسلام شادی بیاہ کی خوشیوں میں اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق رشتہ داروں ، دوستوں اور غریبوں کو کھلانے کا حکم دیتا ہے۔ اتنا خرچ کرنے سے روکتا ہے جو وسعت سے کئی گنا زیادہ ہو۔ یا جسکے لیے گھر بیچنے کی نوبت ، قرضے کی ضرورت، عزّت کی نیلامی اور دَردَر ہاتھ پھیلانا ضروری ہوجائے۔ ’ولیمہ‘  ،جیسی سنّت کی ادائیگی پر بے انتہا زور دیتا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے: ’اور کچھ نہ ہو تو ایک بکری ہی ذبح کرکے کھلادو۔‘ (بخاری)

لیکن آج ہم ولیمے کی سنت پوری ہی نہیں کرتے اور اگرکرتے بھی ہیں تو امیروں کو دعوت دے کر اور غریبوں کو بھلاکر۔ جبکہ حدیثِ میں ارشاد ہے: ’ سب سے بُرا ولیمہ وہ ہے جس میں غریبوں کو نہ بُلایا جائے۔‘ (مسلم۔ ترمذی)

اسکے علاوہ شادیوں میں مختلف اقسام کے کھانے اور ان کی بربادی کا عالَم دیکھ کریہ محسوس ہوتا ہے کہ رزق کی بے حرمتی کو گناہِ عظیم قرار دینے والے دین کے’ نام لیوا‘، ہمارے اُن ماں ، باپ، بہنوں اور بھائیوں کو کیوں بھول جاتے ہیں جو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ترستے ہیں ۔ وہ معصوم بچے جو دِن دِن بھر فاقے کرتے ہیں ۔ ایسے ادکھلے وہ پھول جو کچرے سے کھانا چُن کر کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔وہ عزّت دار بہنیں اور مائیں جو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور ہوجاتیں ہیں ۔وہ باپ اور بھائی جو دِن بھر محنت مزدوری کرکے بمشکل ایک وقت کی روٹی کا انتظام کر پاتے ہیں ۔ وہ جو گھاس اور پتے اُبال کر پیٹ کی آگ بُجھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔کیا اس رزق کی نعمت اور اسکی بربادی کے متعلق ہم سے پوچھ تاچھ نہیں ہوگی؟ کیا اسکے حساب کے لیے ہمیں بارگاہِ خداوندی میں حاضری   نہیں دینی ہوگی؟کیا ہم بِنا سوال و جواب کے چھوڑ دیئے جائیں گے؟ جبکہ قرآن کہتا ہے:

  ’کہتا ہے کہ میں نے اتنا وافر مال خرچ کر ڈالا۔ کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اُسکو کسی نے دیکھا نہیں ۔‘ (سورۃ البلد: آیات 6-7)

 دعائے باریٔ تعالیٰ ہے کہ اللہ رب العز ّت ہمیں ایسی سوچ، ایسی خوشی، ریا نمود و نمائش، دکھاوا، جھوٹی شاباشیاں اور واہ واہیاں ، دولت کے غرور، گھمنڈ، تکبّر اور اکڑ سے بچائے۔ ہمارے نکاح کی تقاریب سادہ ہو،  جہاں سنت پر عمل ہو،  رزق کی بربادی اور فضول خرچی نہ ہواور ایسے ہی سنت طریقے سے نکاح کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرسکے۔ (آمین ثم آمین)

 ؎  اپنی امّت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

  خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ؐ

تبصرے بند ہیں۔