رمضان المبارک :روحانیت کی اصلاح وارتقاء کا مہینہ

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

 ماہ ِ رمضا ن المبارک کی آمد ِپرُ بہارہونے والی ہے ،جس کی آمد سے ہر مسلمان خوشی ومسرت سے سرشار ہوتا ہے ،اور جس کی آمدسے ہر طرف نورانی ماحول چھاجاتا ہے ۔اور جس کا انتظار سید الرسل محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی ہواکرتا تھا اور آپ ﷺ اس کی آمد سے قبل اس کی اہمیت و عظمت کو صحابہ کرام ؓ کے سامنے اجاگر کیا کرتے تھے۔کریم پروردگار کے لاتعداد احسانات اور بے شمار انعامات میں سے ایک ماہ ِ رمضان المبارک کا بھی نصیب ہوجانا ہے ۔جس مہینہ کو خیر وخوبی کے ساتھ پانے اور عافیت کے ساتھ گزارنے کے لئے نبی کریم ﷺ اللہ تعالی سے دعائیں مانگا کرتے تھے ۔بڑے اہتمام کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے اس عظیم الشان مہینہ کی عظمتوں کو بیان فرمایا اور امت کو اس مہینہ سے بھر پور فائدہ اٹھانا کی ترغیب دی ۔

 ماہ ِ رمضان المبارک اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں اور نوازشوں کا مہینہ ہے ۔اس مہینہ کو اللہ تعالی نے مختلف حیثیتوں سے اہمیت دی ہے ، اسی مہینہ میں روزے رکھے جاتے ہیں جس کے ذریعہ ظاہر وباطن کو سنورا جاتا ہے ،اخلاق و کردار کو سدھارا جاتا ہے ،اسی مہینہ میں اللہ تعالی نے اپنی عظیم کتاب اور نبی کریم ﷺ کا دائمی معجزہ قرآن مجید کو نازل فرمایا،جوساری انسانیت کے لئے ہدایت کا آخری خدائی نسخہ ہے،اسی مہینہ میں اللہ تعالی نے شب ِ قدر کو رکھاجو ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے ، اسی مہینہ میں دیگر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ۔غرض یہ کہ بے شمار خوبیوں اور خصوصیتوں کا حامل یہ مبارک مہینہ ہے ۔انسا نوں کی تربیت اور اصلاح کے لئے یہ ایک جامع دستور کی حیثیت بھی رکھتا ہے ،جس میں ہمدردی و غم خواری کو پروان چڑھا یا جاتا ہے ،ایثار و قربانی کا سبق دیا جاتا ہے ،صبر و ضبط کی تعلیم دی جاتی ہے ، نیک اعمال کو انجام دینے کا خوگر بنایا جاتا ہے ،برائیوں اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرواجاتا ہے ،آنکھ ،کان ،زبان ،دل و دماغ اور دیگر اعضا ء کے درست استعمال کرنے کا سلیقہ سکھایاجاتا ہے ،عبادات و طاعات کی لذتوں سے آشنا کروایا جاتا ہے ،تلاوت ِقرآن اور ذکر و دعاسے صبح و شام کو منور کروایا جاتا ہے ، نماز و تراویح کی عبادت سے مقصد ِبندگی کی اہمیت کو اجاگر کروایاجاتا ہے ،جائز و حلال چیزوں سے بھی بسااوقات بچنے کی تربیت کی جاتی ہے ، رضائے الہی کو مقصود بناکر دن و رات گزارنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے ،اور ایک انسان کو مکمل نظام العمل اور اصول کا پابند بنایاجاتا ہے۔

    رمضان المبارک دراصل اہل ایمان کے لئے ایک حیات ِ نو کا پیغام لے آتا ہے ،نفس کو پاک کرنے اور قلب کی ظلمتوں کو صاف کرنے کے لئے رمضان المبارک رکھا گیا ،انسان جو شب و روز کی مصروفیتو ں میں رہ کر اپنے مالک و خالق سے دور ہوچکا تھا ایک مرتبہ پھر اسے قرب نصیب کرنے کے لئے رمضان المبارک کو عطاکیا گیا تاکہ بندہ ٔ مومن اس ماہ میں عبادتوں کو انجام دے کر اور رب کی مرضی کے مطابق ایک مہینہ کو گزارکر پھر سے ایمانی زندگی میں ترو تازگی اور روحانی حیات میں ترقی پاسکے۔

    حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ رمضان کے روحانی اور ایمانی اثرات کے قلب ِ انسانی پر مرتب ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں : رمضان کو لیجئے تو اس میں افعالِ بر اور تروک تقوی کو باہم ایک دوسرے سے اس طرح گوند ھ دیا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ،چناں چہ ہلال ِ رمضان نظر آتے ہی اول شب ہی سے اس ماہ کا افتتا ح دوچیزوں سے کیا گیا جو اعمال ِ بر کی جان ہیں یعنی تلاوت قرآن اور نماز ِ تراویح ،یہی دوچیزیں ہیں جس سے انسانی نفس کو قرب خداوندی اور لذت ِ وصال کی دولت میسر آتی ہے۔وہیں اس مبارک مہینہ کے دنوں میں نفس کی ہوسناکیوں اور نفسانی لذات کو بھی قوت سے ترک کرایاجاتا ہے ،کھاناپینا بھی ترک ،مقاربت ِ نسواں بھی بند،حتی کہ ان چیزوں سے خیالی لذت لینا بھی ناپسندیدہ ۔۔۔کیوں ؟محض اس لئے کہ وہ شب کی غیر معمولی لذت ِ وصول و قبول ،جو افعال میں سے فعل تروایح و تلاوت سے ملتی تھی بغیر ان تقوائی تروک کے میسر آنی ناممکن تھی۔پس رمضان کے مہینہ میں دن بھر روزہ کے ذریعہ جو مجموعہ ٔ تروک ہے نفس کو مانجھا اور صاف کیا جاتا ہے اور شب کو اس صاف شدہ ظرف پر تلاوت وتراویح سے جو مجموعہ ٔافعال ِ بر ہے قلعی کی جاتی ہے جس سے چمک اٹھتا ہے ۔( خطبات ِ حکیم الاسلام :9/99)

    رمضان المبارک کن بلند صفات سے اہل ایمان کو مزین کرنے کے لئے آتا پر اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابو الحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں :رمضان ہر سال ہر شخص کو اپنی سطح سے ترقی دینے کے لئے آتا ہے ،جو شخص جس سطح تک پہنچ گیا ہے ،خواہ وہ سطح کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، اس سے بلند کرنے کی طاقت اس میں موجود ہے ،ہر شخص عمل ، روحانیت ،ذکر وعبادت ،تعلق باللہ ، اخلاص ،جفاکشی ومجاہد ہ ، زہد و قناعت ،ایثار ، غم خواری اور مواساۃ کی جس منزل ومقام پر بھی ہے ،ہر نیا رمضان اس کو اس سے آگے بڑھانے کے لئے اور زیادہ بلند منزل کا شوق دلانے کے لئے آتا ہے ،رمضان کی ساخت ،رمضان کا نظام ،رمضان کے اجزاء ،رمضان کے مشاغل اور رمضان کا ماحول ایسا بنایا گیا ہے کہ ہر شخص کو اپنے ترقی دینے کا موقع حاصل ہوتا ہے ،مادی موانع تقریباً دو ر ہوجاتے ہیں ، ذکر و عبادت میں جذبہ ٔ مسابقت پیدا ہوتا ہے ،اچھے دینداروں اور روزہ داروں کا ساتھ ہوتا ہے ،قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ کا زیادہ سے زیادہ موقع ملتا ہے ،قلب و روح میں لطافت پیدا ہوتی ہے ۔غرض وہ سارے مواقع بہم پہنچ جاتے ہیں جو انسان کی روحانی ترقی اور اصلاح کے لئے ضروری اور مفید ہیں اور ہر شخص کو اپنی سطح کے مطابق ترقی ہوتی ہے۔( رمضان اور اس کے تقاضے:25)

    مفسر قرآن حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ اپنے اچھوتے اسلوب ا وردلنشین انداز میں اس عظیم مہینہ کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :یہ پرُ بہار مہینہ جب کسی کے شوق و ارمان میں گزرے گا،یہ متبرک گھڑیاں جب کسی کی یاد میں بسرہوں گی ،یہ مبارک دن جب کسی کے اشتیاق میں بغیر بھوک وپیاس کے صرف ہوں گے ،یہ برکت والی راتیں جب کسی کے انتظار میں آنکھوں میں کٹیں گی، تو ناممکن ہے کہ روح میں لطافت ،قلب میں صفائی ،اور نفس میں پاکیزگی پیدانہ ہوجائے ،حیوانیت دور ہوگی ،ملکوکیت نزدیک آئے گی ، اور انسان خود اپنی ایک جدید زندگی محسوس کرے گا ،ایسی حالت میں بالکل قدرتی ہے کہ سوز ِ دل اور تیز ہوجائے ،قرب و وصل کی تڑپ اور بڑھ جائے ،تزکیہ و مجاہد ہ کے اثر سے زنگ دور ہوکر کسی کا عکس قبول کرنے کے لئے آئینہ قلب بے قرار و مضطر ہونے لگے ۔( تفسیر ِ ماجدی :1/527)

    اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے جنات و شیاطین کو بھی قید کردیا تاکہ بندہ یکسو ہو کر عباد ات و طاعات میں مصروف رہے اور اپنی روحانی ترقی میں منہمک ہو۔شیاطین و جنات کے قید کئے جانے کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی مختلف حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔چناں چہ آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہے:اذاکان اول لیلۃ من شھر رمضان صفدت الشیاطین ومردۃ الجن وغلقت ابواب النار فلم یفتح منھا وفتحت ابواب الجنۃ فلم یغلق منھا باب وینادی مناد یا باغی الخیر اقبل ، ویا باغی الشر اقصر ، وللہ وعتقا ء من النار وذلک کل لیلۃ ۔ ( ترمذی :حدیث نمبر :617)جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین و جنات جکڑدئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں ۔ان میں سے کوئی دروازہ بھی نہیں کھلا رہتا ۔اور جنت کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،اس کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا ،اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب آگے بڑھ،اور اے اور شر کے طلب کر نے والے رک جا،اور اللہ کی طرف سے بہت سے ( گنہ گار) بندوں کو دوزخ سے رہا ئی دی جاتی ہے ( یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے )اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے ۔

رمضان میں کیسے رہیں ؟

    رمضان کی آمد چوں کہ انسانوں کو روحانی بلندیوں پر پہونچانے کے لئے ہوتی ہے اور اعمال و افعال میں اصلاح کے لئے ہوتی ہے ،اور یہ حقیقت ہے کہ جو بندہ رمضان کو اس کے حقوق اور تقاضوں کے مطابق گزارے گا اور نبوی تعلیمات کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے رمضان کو بسر کرے گا تو یقینا ا س کے اثرات اور برکات انسانی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں اور یقینی طور پر انسان کو روحانی عروج اور ایمانی بلندی نصیب ہوتی ہے۔تو اس سلسلہ میں ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک کی صحیح قدردانی کرنے والے بنیں ،اس کے حقوق اور تقاضوں کو بجالائیں ،لمحہ لمحہ کی قدر کرتے ہوئے رمضان المبارک کو گزاریں ۔چناں چہ رمضان المبارک کے استقبال اور اس کے اہتمام کے سلسلہ میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔

   ٭رمضان المبارک کی آمد پر خود نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام خوش ہوتے تھے ،ہمیں بھی اس کی آمد پر خوش ہونا چاہیے ،نبی کریمﷺ رمضان کو سلامتی اور عافیت کے ساتھ پانے کے لئے اللہ تعالی سے دعافرمایا کرتے تھے ،ہمیں بھی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اللہ ہمیں بھی رمضان پوری صحت اور سلامتی کے ساتھ نصیب فرمائے۔٭رمضان کی صحیح قدردانی یہ ہے کہ روزوں کو ان تمام چیزوں سے بچایا جائے جس سے وہ ناقص ہوجاتا ہے اور اس کی روح ختم ہوجاتی ہے ،مثلاًبے کارباتیں ،فضول کھیل کود ،غیبت ،چغل خوری ،جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔٭تلاوت ِ قرآن کا اہتمام کرنا چاہیے اور راتوں کو قیام کی کوشش کرنی چاہیے ،بطور خاص نماز ِ تراویح کا پورے اہتمام کے ساتھ اداکرنا ضروری ہے ، اس کے علاوہ بھر پور کوشش کرنی چاہیے کہ راتوں کا کچھ نہ کچھ اللہ تعالی کے سامنے گزرے۔٭مسکینوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ۔٭نظام الاوقات کی پابندی کے ساتھ نیک اعمال کو انجام دینے کی فکر ہونی چاہیے اور سیئات سے بچا جائے ۔غفلت ،سستی اور کاہلی سے روکا جائے ،چوں کہ اسی مہینہ کی سترہ تاریخ کو غزوہ ٔ بد ر کا معرکہ پیش آیا اوراسی مہینہ میں فتح مکہ کا یادگار واقعہ بھی ہے ،جو پیغام دیتا ہے کہ مسلمان غفلت او ر سستی کا شکار نہ ہو۔٭تمام عبادات میں ا خلاص ِنیت کا اہتمام ہو۔٭ہرعمل کو سنت ِ رسول ﷺ کے مطابق کرنے کی کوشش ہو ۔نبی کریم ﷺ ،صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے طریقہ کے مطابق نمازِ تراویح کا التزام کرنا چاہیے۔٭ دعا ؤں میں الحاح و زاری ،صبح و شام استغفار کی کثرت ہونی چاہیے۔( کیف نستقبل رمضان:11)

    اگر ان باتوں کو پیش ِ نظر رکھ کر رمضان المبارک کا استقبال کریں گے اور ان باتوں کے اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کو گزاریں گے تو ان شاء اللہ رمضان ہمارے لئے سعادتوں کا ذریعہ ہوگا ،روحانی ترقی کا سبب ہوگا ،ایمانی زندگی کے کمال کا وسیلہ ثابت ہوگا ،خدا سے قریب ہونے میں معاون بنے گا،دل کو پاک و صاف کرنے ،اور اعمال و افعال کو بہتر بنانے میں مددگار ہوگا۔ہم رواجی اور روایتی انداز کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں رمضان کا استقبال کریں اور دل و جان سے رمضان کو گزارنے کا عز م و ارادہ کریں ،اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوگی اور اعمال کو انجام دینے میں لطف وسرور بھی حاصل ہوگا ،یہ بات ہمارے ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ رمضان اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے ،معلوم نہیں کہ یہ نعمت ہمیں آئندہ سال نصیب ہوگی یا نہیں ؟اپنے آپ کو نیک اور دین دار بنانے کی فکر اگر واقعی ذہن و دل پر سوار ہوگی تو پھر ہم کسی لمحہ کو ضائع کرنے والے نہیں بنیں گے۔اس مبارک مہینہ کے ذریعہ ہمارا شفیق پروددگار ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل کرنا چاہتا ہے اور ہمارے سطح ِ ایمان کو بلند کرنا چاہتا ہے ،ہماری ایمانی زندگی میں اصلاح و انقلاب لانا چاہتا ہے ،کیا ہم جانتے بوجھتے ان مبارک لمحوں کو اور قیمتی اوقات کو ضائع کردیں گے؟؟

تبصرے بند ہیں۔