طلاق سے متعلق حکومت کے حلف نامہ کا مقصد!
مسلمانوں کوآپس میں لڑانے کی سنگھی سازش کوعمل میں لانا
ڈاکٹراسلم جاوید
جیساکہ ہندوستان کے مسلم دانشوروں،ملی قائدین اورمذہبی رہنماؤں کو پہلے سے ہی یقین تھا کہ مودی اپنے قول و عمل میں زمین و آسما ن کا تضاد رکھتے ہیں،لہذا ان کی مسلم ہمدردی کی باتوں کو سیاسی حربہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔بلکہ مودی اور بی جے پی کا خفیہ ایجنڈہ یہی ہے کہ کسی طرح بھی ہندوستانی مسلمانوں کو آپس میں ہی الجھا کرانہیںترقی کے لئے حکومت سے مطالبے کرنے کا موقع ہی نہ دیاجائے ۔اس کی ابتدامورخہ7اکتوبر2016کومسئلہ طلاق کے ذریعہ مودی سرکار نے شروع کردی ہے۔خبروں کے مطابقہندوستان کی آئینی تاریخ میں پہلی بار مرکزی حکومت نے تین طلاق، نکاح حلالہ اور متعدد شادیوں کے رواج کی سپریم کورٹ میں مخالفت کی ہے۔مرکزی حکومت کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق خواتین کے ساتھ جنسی امتیاز ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ جنسی امتیاز اور خواتین کے وقار ایسی چیزیں ہیں جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کو ان کے آئینی حقوق دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور تین طلاق کو مذہب کے اہم ارکان کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مرکزی حکومت نے صنفی مساوات اور سیکولرازم جیسی بنیادوں پر ان مسائل پر نظر ثانی کرنے کی حمایت کی ہے۔حالاں کہ نکاح و طلاق اورمیراث جیسے امور خالصۃ مذہب اسلام کے عائلی مسائل ہیں۔جس ملت اسلامیہ ہند کا اتفاق بھی ہے۔اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوتا ہے ماہرین علوم اسلامیہ اورعائلی قانون کی سب سے بڑی محافظ تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پوری شرح و بسط کے ساتھ حکومت ہند کے حلف نامہ کو مسترد کرتے ہوئے مودی سرکار کے اس قدم کومسلمانوں کے درمیان تنازع پیدا کرکے ان کی ترقی کے راستے مسدود کا حربہ قرار دیا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر نائب صدر اور دارالعلوم وقف کے صدر مہتمم مولانا محمد سالم قاسمی نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کا مسلم پرسنل لا بورڈ میں مداخلت کر کے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔انہوں نے کہا کہ قراٰن کریم، حدیث اور شریعت پر کسی قسم کی بحث قبول نہیں کی جائے گی، مسلمان کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، مرکزی حکومت کی مذہبی معاملات میں مداخلت مسلمانوں کے استحقاق پر حملہ اور ہندوستانی روایات کے خلاف ہے۔
جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی)کے صدرنے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا خفیہ ایجنڈہ اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کے لئے حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے پرسنل لا ء میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاق اور تعدد ازدواج کے خلاف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ ملک میں آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا ء کے خلاف اتنا جارحانہ رخ اختیار کیا ہے۔جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق اور تعدد ازدواج کے تعلق سے سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے ذریعے پیش کی گئی رائے ناقابل قبول ہے اور جمعیۃعلما ء ہند اس کی نہ صرف سخت مذمت کرتی ہے، بلکہ اسے خارج کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کے لئے قراٰن اور حدیث ہی سب سے بڑا دستور ہے اور مذہبی امور میں شریعت ہی قابل تقلید ہے ۔جس میں تا قیامت کوئی ترمیم ممکن نہیں اور سماجی اصلاحات کے نام پر شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ واضح ہو کہ مودی سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’پرسنل لا ء کی بنیاد پر مسلم خواتین کے آئینی حقوق نہیں چھینے جا سکتے اور اس سیکولر ملک میں تین طلاق کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تین طلاق کے مسئلے پر مرکزی حکومت کے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامے پر درگاہ اعلی حضرت نے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ جماعت رضا ئے مصطفی کے جنرل سکریٹری مفتی شہاب الدین نے اس معاملے پر صاف کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ دیا ہے، وہ شرعی طور پر بالکل غلط ہے۔ اس میں علمائے کرام کی رائے لینے کے بعد ہی حلف نامہ دیا جانا چاہیے تھا۔درگاہ نے اس حلف نامے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کو الجھانے کی سازش ہے۔ مرکزی حکومت کو ملک میں غربت، کرپشن اوربے روزگاری پر توجہ دینی چاہئے، نہ کہ مسلمانوں کے شرعی معا ملا ت میں اسے مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ میں داخل مرکزی حکومت کے حلف نامے پر سخت اعتراض ظاہرکرتے ہوئے بریلی درگاہ اعلی حضرت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ حلف نامہ مسلمانوں میں خلفشار پیدا کرنے کے لئے جان بوجھ کر دیا گیا ہے۔ملی رہنماؤں کے مذکورہ بالا رد عمل کے بعدضروری ہے کہ تین طلا ق کے وقوع یا عدم وقع پر جمہور کا موقف کیاہے؟اس اختصار کے روشنی ڈال جائے۔
مسئلہ تین طلاق یعنی ایک شخص اپنی بیوی کوایک ہی لفظ میں کہے کہ تجھے تین طلاق یا کہے تجھے طلاق طلاق طلاق یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے توتین ہی شمار ہوں گی یا ایک شمار ہو گی۔اس کے جواب میں اگرقراٰ نی احکام کو دیکھا جائے تواللہ رب العزت فرماتے ہیں۔’الطلاق مرتن الخ‘یہ قول ربانی اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ اگردوبار طلاق دی جائے تو رجعت کی گنجائش ہے ۔مگردوسے زیادہ بارطلاق دیدی گئی تو چڑیا ہاتھ سے نکل گئی۔اگرتین پر بھی رجعت کی گنجائش باقی رہتی تو قراٰن کریم ’’مرتن ‘‘کے بعدخاموش نہیں رہتا۔
قراٰن کریم،مرفوع احادیث ،خلفائے راشدین کے فتاوٰی جات اور پوری امت کا اجماع اسی بات پر ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتیں ہیں،چاہے ایک لفظ سے دی جائیں یا متفرق،ایک مجلس میں دی جائیں یا ایک طہر میں۔اس موضوع پر دلائل کے انبار لگائے جاسکتے ہیں، لیکن یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اجمالاچند دلائل ذکر کئے جاتے ہیں۔
شارح مسلم امام نوویؒ،شرح مسلم ج1ص478میں لکھتے ہیں،من قال لامرأتہ انت طالق ثلاثافقال شافعی ؒو مالکؒ و ابوحنیفۃؒ واحمدؒ وجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث۔
حضرت عمر ؓکے دور خلافت میں اس مسئلہ پر اتفاق ہو چکا کہ تین طلاقیں تین ہی ہیں اورصحابہ کرامؓکا قولی و فعلی دونوں قسم کا اجماع اس پر ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ اب اس مسئلے پر اختلاف کرنا مردود ہے(فتح الباری ج9ص293)
علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں صحابہ کرامؓ کا اس پر اتفاق ہو چکاتوبغیر کسی نص کے تو یہ نہیں ہو سکتا،یہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے۔(روح المعانی ج2ص118)
حافظ ابن القیم ؒتحریر فرماتے ہیں کہ جمہور نے یہی مذہب عمرؓ،علیؓ،ابن مسعوؓد،ابن عمرؓ،ابن عباسؓ،ابن عمروؓ،ابن زبیرؓ،عمران بن حصینؓ ،مغیرہ بن شعبہؓ اورحسن بن علیؓ کا نقل کیا ہے اور تابعین کا تو کوئی شمار ہی نہیں(اغاثۃ اللہ ان ج1ص322)۔
مودی سرکار نے اپنے حلف نامہ میں تین طلاق کے عدم نفاذپر سعودی عرب کاحوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں بھی تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا ہے۔اس دعوے نے سنگھی منصوبے کی ساری قلعی کھول دی ہے۔یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے بغیر کسی دلیل کے سعودی عرب کا حوالہ دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مودی سرکارسنگھی ایجنڈے کوملک کے مسلمانوں اور دیگراقلیتوں پر تھوپنے کیلئے کیسے کیسے خوبصورت فریب وفراڈتیار کررہی ہے۔حالاں کہ سعودی عرب کامتفقہ فیصلہ تین طلاق کے وقوع کی ہی حمایت کرتا ہے،ملاحظہ کیجیے۔
حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد:ہیئۃکبارالعلماء۔
حکومت سعودیہ نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ علماء حرمین اور ملک کے دوسرے نامور ترین علماء کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی مجلس قائم کر رکھی ہے،جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذہے،بلکہ خود بادشاہ بھی اس کا پابند ہے، اس مجلس میں’ طلاق ثلاث‘کامسئلہ پیش ہوا۔مجلس نے اس مسئلہ سے متعلق قراٰن و حدیث کی نصوص کے علاوہ تفسیروحدیث کی سینتالیس کتابیں کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعدبالاتفاق واضح الفاظ میں فیصلہ دیا ہے کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی ہیں(احسن الفتاوٰی ج5ص225)
اس فیصلہ کی مکمل تفصیل سہ ماہی مجلہ بحوث اسلامیہ،دارلافتاء ریاض ص3 ج1میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
پوری امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ایک نہیں۔یہاں ایک تاریخی حقیقت سے بھی پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جمہور کے اس متفقہ مسئلہ کے خلاف آٹھویں صدی میں علامہ ابن تیمیہؒنے آواز اٹھائی جس کی تردیدخود اکابر حنابلہ نے بھی کی تھی۔ البتہ ابن قیمؒ نے اپنے استاد کی تائید کی جس کی پاداش میں انہیں حکومت وقت کی طرف سے سزا دی گئی، کیونکہ اس وقت تک تین طلاق کو ایک قرار دے کر شوہر کے لئے مطلقہ ثلاثہ کو حلال قرار دینا نہ صرف جمہور کے خلاف تھا بلک،ہ وہ روافض کا شعار بھی تھا،اس لئے تما م علماء مذاہب وسلاطین اسلام کے متفقہ فیصلوں کی وجہ سے یہ فتنہ دب گیا۔مگر پانچ سو سال بعد ہندوپاک کیمسلمانوں کو ایک غیر ضروری تنازع میں الجھا نے کی غرض سے اس فتنے کو پھر سے جگانے کی کوشش کی ۔المیہ یہ ہے کہ مودی سرکار نے اسی تلبیسی سازش کو اسلحہ بناکر مسلمانوں کی توانا ئی ترقی سے ہٹاکر نئے تنازع میں ضائع کرنے کا پھندہ تیار کرچکی ہے اورمسئلہ طلاق کو اس کیلئے پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔