اسلام کے نزدیک ایمان ہی عمل کی جڑہے  ( پہلی قسط)

ایمان کے بغیرتمام اعمال بے اصل اوربے وزن ہیں

تحریر : مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ ترتیب : عبدالعزیز

حضرت رسول ﷺنے صریح الفاظ میں عقائدکے پانچ اصول تلقین کئے ۔خداپرایمان ، خداکے فرشتوں پرایمان ،خداکے رسولوں پرایمان ،خداکی کتابوںپرایمان اوراعمال کی جزااورسزاکے دن پرایمان ، یہ تمام وہ حقائق ہیںجن پردل سے یقین کرنازبان سے اقرارکرناضروری ہے ۔ان کے بغیرخالص عمل کاوجودmنہیں ہوسکتا۔
1-اللہ تعالیٰ پرایمان کہ وہ اس دنیاکاتنہاخالق ومالک ہے اورہرظاہروباطن سے آگاہ ہے تاکہ وہی ہمارے کاموںکی قبلہ اورمقصودقرارپاسکے ۔اوراسی کورضاجوئی اوراسی کی مرضی کی تعمیل ہمارے اعمال کی تنہاغرض وغایت ہواورہم جلوت کے سواخلوت میں بھی گناہوںاوربرائیوںسے بچ سکیں،اورنیکی کواس لئے اختیارکریںاورہربرائی سے اس لئے بچیںکہ یہی ہمارے خالق کاحکم ہے اوریہی اس کی مرضی ہے ، اس طرح ہمارے اعمال ناپاک اغراض اورناجائزخواہشوں سے مبراہوکرخالص ہوسکیںاورجس طرح ہمارے جسمانی اعضاگناہوں سے پاک ہوں، ہمارادل بھی ناپاک خیالات اورہواوہوس کی آمیزش سے پاک ہو،اوراس کے احکام اوراس کے پیغام کی سچائی پردل سے ایسایقین ہوکہ ہمارے ناپاک جذبات ، ہمارے غلط استدلات ، ہماری گمراہ خواہشیںبھی اس یقین میں شک اورتذبذب پیدانہ کرسکیں۔
2۔ خداکے رسولوں پربھی ایمان لاناضروری ہے کہ خداکے ان احکام اورہدایات اوراس کی مرضی کاعلم ان ہی کے واسطہ سے انسانوں کوپہنچاہے ۔اگران کی صداقت ، سچائی اورراست بازی کوکوئی تسلیم نہ کرے توپیغام ربانی اوراحکام الٰہی کی صداقت اورسچائی بھی مشکوک ومشتبہ ہوجائے گی اورانسانوں کے سامنے نیکی اورمعصومیت کاکوئی نمونہ موجودنہ رہے گاجوانسانوں کے قوائے عملی کی تحریک کاباعث بن سکے ۔پھراچھے اورصحیح اورغلط کاموں کے درمیان ہماری عقل کے سواجوہمارے جذبات کی محکوم ہے کوئی اورچیزہمارے سامنے ہماری رہنمائی کے لئے نہیں ہوگی۔
3۔ خداکے فرشتوں پربھی ایمان لاناواجب ہے کہ وہ خدااوراس کے رسولوں کے درمیان قاصداورسفیرہیں،مادیت اورروحانیت کے مابین واسطہ ہیں، مخلوقات کوقانون الٰہی کے مطابق چلاتے ہیں۔اورہمارے اعمال وافعال کے ایک ایک حرف کوہردم اورہرلحظہ نقل کرتے جاتے ہیں تاکہ ہم کواچھایابرابدلہ مل سکے۔
4۔ خداکے احکام وہدایات جورسولوں کے ذریعے انسانوں کوپہنچائے گئے ان کودوردرازملکوں اورآئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہواکہ وہ تحریری شکلوں یعنی کتابوںاورصحیفوں میں یالفظ وآوازسے مرکب ہوکرہمارے سینوں میں محفوظ رہیں۔ اس لئے خداکی کتابوں اورصحیفوں کی صداقت پراورجوکچھ ان میں ہے اس کی سچائی پرایمان لاناضروری ہے ۔ورنہ رسولوں کے اورخداکے احکام اورہدایتوں کوجاننے کاذریعہ مسدودہوجائے اورہمارے لئے نیکی وبدی کی تمیزکاکوئی ایسامعیارباقی نہ رہے جس پرتمام ادنیٰ واعلیٰ ، جاہل وعالم ، بادشاہ اوررعایاسب متفق ہوسکیں۔
5۔ اعمال کی بازپرس اورجوابدہی کاخطرہ نہ ہو، اوراس کے مطابق جزاوسزاکاخیال نہ ہوتودنیاوی قوانین کے باوجوددنیامیں انسانیت سراپادرندگی اوربہیمیت بن جائے ۔ یہی وہ عقیدہ ہے جوانسانوں کوجلوت وخلوت میں ان کی ذمہ داری محسوس کراتاہے اس لئے روزجزااوریوم آخرت پرایمان رکھے بغیرانسانیت کی صلاح وفلاح ناممکن ہے ۔ اسی لئے محمد رسول اللہ ﷺکی تعلیم نے اس پربے حدزوردیاہے ۔بلکہ مکی وحی کابیشترحصہ اسی کی تلقین اورتبلیغ پرمشتمل ہے۔
یہی پانچ باتیں اسلا م کے ایمانیات کے اصلی عناصرہیںیعنی اللہ تعالیٰ پر، اس کے تمام رسولوںپر، اس کی کتابوںپر، اس کے فرشتوں پراورروزجزاپرایمان لانا۔
بنیادی ایمانیات پرایک عقلی نظر :
اوپرکے صفحہ میںجن پانچ بنیادی عقائدکاذکرکیاگیاہے وہ سب امورغیب کے قبیل سے ہیں اورعالم آب وگل سے ماوراء ، اس لئے یہ مذہبی وروحانی ایمانیات ہیں۔لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے ان پراپنے روحانی نظام ہی کی نہیں بلکہ خارجی وسیاسی اورتمدنی نظام کی بنیادبھی رکھی ہے اس نے دین ودنیاکوملاکرایک ایسانظام وضع کیاہے جس کے تحت انسانی زندگی کے تمام شعبے حرکت کرتے ہیں۔اس نظام کواپنے قیام وبقااوراپنے تصرفات کے لئے جتنی طاقت کی ضرورت ہے وہ سب انہی پانچوں ایمانیات سے حاصل ہوتی ہیں۔یہ اس کے لئے قوت کاایک لامتناہی سرچشمہ ہیں جس کی رسدکبھی بندنہیں ہوتی۔
اب ہم کودیکھناچاہئے کہ جن ایمانیات سے اتنابڑاکام لیاگیاہے وہ عقلی حیثیت سے کیاپایہ رکھتے ہیں؟اوران میں ایک ایسے ہمہ گیراورترقی پذیرنظام کے لئے اساس اورمنبع قوت بننے کی کہاں تک صلاحیت موجودہے ؟
اس سوال کی تحقیق میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے ہم کویہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ اسلام ایک ایسی تہذیب کی بنیادرکھناچاہتاہے جوصحیح معنوں میں انسانی تہذیب ہو۔ یعنی اس کاتعلق کسی خاص ملک یانسل کے لوگوں سے نہ ہو، نہ کوئی مخصوص رنگ رکھنے والی یامخصوص زبان بولنے والی قوم اس کے ساتھ اختصاص رکھتی ہو، بلکہ تمام نوع انسانی کی فلاح اس کی مقصودہو،اوراس کے زیراثرایک ایسانظام اجتماعی قائم ہوسکے جس میں ہراس چیزکوپرورش کیاجائے جوانسان کے لئے بحیثیت انسان ہونے کے خیروصلاح ہے اورہراس چیزکوپرورش کومٹایاجائے جواس کے لئے شراورفسادہے ۔ ایسی ایک خالص انسانی تہذیب کی بنیادان ایمانیات پرنہیں رکھی جاسکتی جومحض عالم آب وگل سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس لئے کہ مادیات اورمحسوسات دوحال سے خالی نہیں ہیں۔یاتووہ ایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کاتعلق یکساں ہے ، مثلاًسورج، چاند، زمین، ہوا، روشنی وغیرہ ، یاایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کاتعلق یکساں نہیںہے ، مثلاً وطن ، نسل، رنگ، زبان وغیرہ ۔ پہلی قسم کی چیزوں میں تو’ایمانیات‘بننے کی صلاحیت ہی نہیںکیونکہ ان کے نفس وجودپرایمان لاناتومحض بے معنی ہے اوران پراس حیثیت سے ایمان لاناکہ وہ انسان کی صلاح میں کوئی اختیاری تاثیررکھتے ہیںازروئے علم وعقل غلط ہے ۔ علاوہ بریں ان پرکسی حیثیت سے بھی ایمان لانے کاکوئی نفع انسان کی روحانی، اخلاقی اورعملی زندگی میں مترتب نہیں ہوتا۔رہیں دوسری قسم کی چیزیں توظاہرہے کہ وہ ایک مشترک انسانی تہذیب کے لئے اساس نہیں بن سکتیںکیونکہ وہ بنائے تفریق وتقسیم ہیں نہ کہ بنائے جمع وتالیف ۔لہٰذا یہ قطعاًناگزیرہے کہ اس قسم کی تہذیب کی بنیادایسے ایمانیات پررکھی جائے جومادیت ومحسوسات سے ماوراء ہوں۔
لیکن ان کامحض مادیات ومحسوسات سے ماوراء ہوناہی کافی نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ ان میں چنداورخصوصیات بھی پائی جائیں :
1۔ وہ خرافات اوراوہام نہ ہوںبلکہ ایسے امورہوںجن کی تصدیق پرعقل سلیم مائل ہوسکتی ہو۔
2۔ وہ دورازکارباتیںنہ ہوںبلکہ ہماری زندگی سے ان کاگہراتعلق ہو۔
3۔ ان میں ایسی معنوی قوت ہوجس سے تہذیب کانظام انسان کے قوائے فکروعمل پرتسلط قائم کرنے میں پوری طرح مددحاصل کرسکے۔
اس لحاظ سے جب ہم اسلام کے ایمانیات پرنظرڈالتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ وہ ان تینوں آزمائشوںمیں پورے اترتے ہیں۔
اولاًاسلام نے خدا، ملائکہ ، وحی، رسالت اوریوم آخر کاجوتصورپیش کیاہے اس میں کوئی استحالۂ عقلی نہیںہے۔اس کے اندرکوئی ایسی چیزنہیں ہے جس کاصحیح ہوناغیرممکن ہو، نہ کوئی ایسی بات ہوجس کوماننے سے عقل سلیم انکارکرتی ہواس میں شک نہیںکہ محض عقل ان کااحاطہ نہیں کرسکتی ۔لیکن ہمار ے اہل علم وحکمت نے اب تک جتنے مجردات ومفادات کی تصدیق کی ہے ان اس کایہی حال ہے ۔توانائی حیات ، جذب وکشش ، نشووارتقاء اورایسے ہی دوسرے امورکی تصدیق ہم نے اس بناپرنہیں کی ہے کہ ہم ان حقیقتوں کوپوری طرح سمجھ چکے ہیں،بلکہ اس بناپرکی ہے کہ ہم نے جن مختلف قسم کے مخصوص آثارکامشاہدہ کیاہے ان کی توجیہ وتعلیل کے لئے ہمارے نزدیک ان امورکاموجودہوناضروری ہے اورظواہراشیاء کے باطنی نظام کے متعلق جونظریات ہم نے قائم کئے ہیںوہ ان امورکے موجودہونے کااقتضاء کرتے ہیں۔ پس اسلام جن مجردات پرایمان لانے کامطالبہ کرتاہے ان کی تصدیق کے لئے بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری عقل ان کی حقیقتوں کوپوری طرح سمجھ لے اوران کااحاطہ کرلے بلکہ اس کے لئے عقلی طورپرصرف اتناسمجھ لیناکافی ہے کہ کائنات اورانسان کے تعلق جونظریہ اسلام نے پیش کیاہے وہ خلاف عقل نہیں ہے، اس کاصحیح ہونااغلب ہے اوروہ ان پانچوں امورکے وجودکامقتضی ہے جواسلام نے ایمانیات کے طورپرپیش کئے ہیں۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔