احمد اشفاق: ’بے سمت منزلوں کا نشاں ڈھونڈتے ہیں ہم’ ( پہلی قسط)

نوشاد منظر

احمد اشفاق کا شمارمعاصر عہد کے ان نمائندہ غزل گو میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے شاعری کو نئی جہتیں عطا کی۔ بہار کے سمستی پور سے تعلق رکھنے والے احمد اشفاق کا اصل نام اشفاق احمد ہے۔ اپنی شاعری کی ابتدائی دنوں میں انہوں نے اشفاق قلق کے نام سے شاعری کی۔شاعری سے دلچسپی نو عمری میں ہی پیدا ہوگئی تھی اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں انہوں نے شعر گوئی کا باضابطہ آغاز کیا حالانکہ ان کی پہلی تخلیق ۱۹۹۵روزنامہ پندار، پٹنہ میں شائع ہوئی۔آج وہ بیرون ملک(قطر) میں قیام کے باوجود ادبی حلقے میں اپنی موجودگی قائم رکھا ہوا ہے۔یہ ان کی شاعری سے دلچسپی اور اعلی ذوق کا نمونہ ہے کہ انہوں نے بسمل عارفی کے ساتھ مل کر ’شعرائے سمستی پور‘ کے نام سے سمستی پور کے شاعروں کے کلام کا انتخاب پیش کیا ۔اس فہرست میں وہ شعرا بھی ہیں جن کی شاعری ایک عرصے تک اہل علم حضرات کو مسحور کرتی رہی مگرآج وقت کی گرد نے دھندلا دیا۔بسمل عارفی اور احمد اشفاق کی مشترکہ کاوشوں نے ان شعرا کو نئی زندگی عطا کی ہے۔احمد اشفاق کی شاعری کاپہلا مجموعہ ’’دسترس‘‘ستمبر ۲۰۱۴ میں شائع ہوا۔اس مجموعے میں غزلوں کے ساتھ حمد باری تعالیٰ اور رسول پاک ﷺ کے حضور نذرانہ عقیدت اور معاصر عہد کے نمائندہ ناقدین اور مبصرین کی تحریریں شامل ہیں۔
اللہ کی ذات اور اس کی عظمت کو بیان کرنا انسان کیا کسی مخلوق کے بس میں نہیںاور ان کے عنایات کا شکریہ ادا کرنا بھی ناممکن ہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے معبود کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنی حقیر حیثیت اور اللہ کی عظمت کا اظہار بھی کرتا ہے اور اس کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے۔ احمد اشفاق کی شاعری میں اللہ کی عظمت اوراس کے عنایات کا اظہار ملتا ہے۔
نہیں ہے در کوئی جس پہ جاؤں، طلب کا منشا جسے سناؤں
بس ایک تیرا ہی آستاں ہے، تو ہی خدا ہے تو ہی خدا ہے
کہاں ہماری ہے اتنی جرأت، کہ لکھیں تیری ثنا و مدحت
ثنا تری بحر بیکراں ہے، تو ہی خدا ہے تو ہی خدا ہے
ہر ایک سجدہ ترے لئے ہے ہر اک عبادت ہے تیری خاطر
تو ہی تو آقائے بندگاں ہے، تو ہی خدا ہت تو ہی خدا ہے
اللہ پاک کی عظمت بھلا کوئی کیا لکھ سکتا ہے۔زمین اور آسمان کاغذ ہوجائیں اور سمندر سیاہی پھر بھی اللہ کی عظمت نہیں لکھی جاسکتی۔احمد اشفاق نے بالکل درست لکھا ہے کہ معبود برحق کی ثنا خوانی لکھنے کی جرأت بھی انسان میں نہیں ہوسکتی۔
احمد اشفاق نے حضور پاک ﷺ کی خدمت کی شان میں چندنعت کہی ہیں ، ان کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم کو اپنے نبیﷺ سے کس قدر محبت ہے۔نعت کا فن دو دھاری تلوار کے مانند ہوتا ہے۔ شاعر کے پیش نظر کئی چیزیں ہوتی ہیں، محبت اور عقیدت بعض موقعے پر شرک کے قریب بھی کرسکتی ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ حضور پاک ﷺ کی خدمت میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے قرآن و حدیث کو پیش نظر رکھے تاکہ بہکنے کا ڈر دور ہوجائے۔احمد اشفاق کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خوبصورت انداز میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دنیا جو نہیں میری، نہ ہو، میری بلا سے
اک ربط ہے کافی مرا، محبوب خدا سے
بخشش کا اس نے حشر میںسامان کرلیا
دین محمدی کا ہواجو بھی پاسباں
علم و ہنر میں آپ کا ثانی نہیں کوئی
لاریب بے مثال نمونہ رسول ہیں
روز محشر ہم بھی ہوں گے سرفراز
مل گیا ہم کو وسیلہ آپ کا
رسول پاکﷺ کی عظمت کا بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ان کی شخصیت لاریب ہے ۔ قیامت کے دن جس شخص کو ان کی شفاعت مل گئی وہ کامیاب ہوگیا۔ متکلم کے یہاں عقیدت ، محبت اور امید کا ایک خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔مذکورہ اشعار مختلف نعت سے لیے گئے ہیں۔ان اشعار کی قرأت قاری کے روح کو محبت اور عقیدت سے سرشار کردیتی ہیں۔
احمد اشفاق کی شاعری بنیادی طور پر غزل کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ غزل کے روایتی رنگ کو برتنے کا ہنر تو جانتے ہی ہیں شاعری کی جدید اصطلاحات سے بھی اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہماری تشنگی کو اب تھکن محسوس ہوتی ہے
یہی صحرا نوردی ہے تو صحرا چھوڑ دیتے ہیں
اس عہد خزاں میں کسی امید کے مانند
پتھر سے نکل آوں مگر ابر تو برسے
ظاہر ہے پتھر پہ گھاس کے نکلنے کی اصطلاح جتنی نئی ہے اتنی پرانی بھی۔غالب نے درو دیوار کا ذکر کیا تھا، ان کے یہاں در ودیوار پر سبزہ کے اگنے کا ذکر ملتا ہے مگر احمد اشفاق کے یہاں امید اور نا امید کی کشمکش نظر آتی ہے۔امید اس بات کی کہ وہ اگر ابر بن کے برسے تو پتھر بھی سبزہ زار بن سکتے ہیں باوجود وہ برسنے کو تیار نہیں۔احمد اشفاق کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول لکھتے ہیں:
’’ؑغزل میںسچے تخلیقی اظہار کی راہ وہی تلاش کر پاتا ہے جس کی ذہنی اور دلی مناسبتوں کا ادراک ہو اور جس کے یہاں جذبے کی صداقت، احساس کی نزاکت اور اظہار کے حسن میں متناسب اختلاط راہ پاگیا ہو۔علاوہ ازیں احمد اشفاق کی غزل میں کلاسیکی رچاؤ اور موضوعات کی تازگی پر بھی نظر ٹھہرتی ہے۔‘‘
(فن شعر پر دسترس کا شاعر۔ پروفیسر شہپر رسول، دسترس ۔ص 24)
پروفسیر شہپر رسول نے احمد اشفاق کی شاعری میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ ان کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہے۔چند اشعار بطور ملاحظہ فرمائیں۔
زخم ترتیب دے رہا ہوں میں
اور کچھ وقت دے ادھار مجھے
ٹوٹ جاتا ہے دم محبت کا
بد گمانی اگر جواں ہوجائے
ہجرتوں میں بڑی تمازت تھی
لمحہ لمحہ پگھل رہا ہوں میں
زخم کو ترتیب دینے کی اصطلاح نئی معلوم ہوتی ہے مگر مجموعی طور پریہ خیال پرانا ہے۔ متکلم کا یہ کہنا کہ کچھ وقت اور دے مجھے ،اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ متکلم اس درد کی لذت سے محظوظ ہورہا ہے وہ نہیں چاہتا کہ وہ اس تکلیف سے آزاد ہو ۔دوسرے شعر میں متکلم کا خیال رشتے کی مضبوطی کی طرف اشارہ کرتا ہے،کسی بھی رشتے کی بنیاد اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب اس میں محبت و خلوص کے ساتھ بھروسہ اور اعتماد موجود ہو۔شاید یہی وجہ ہے کہ رشتے کے ٹوٹنے اور بکھرنے میں سب سے اہم کردار بدگمانی اور عدم اعتماد کا ہوتا ہے۔ احمد اشفاق نے نہایت سلیقے سے رشتے کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔اس ضمن کے اور بھی شعر’ دسترس‘ میں شامل ہیں۔جس میں محبوب سے شکایت اور رشتے کی نازکی کا ذکر ملتا ہے۔
کسی بھی فن پارے کی تکمیل میں انسان کے ذاتی تجربات بہت اہم ہوتے ہیں بعض موقعوں پر یہی تجربہ فن پارے کو اہم بھی بناتا ہے۔احمد اشفاق کے یہاں انسانی تجربات کی عمدہ مثال نظر آتی ہے۔ حسن و عشق اور محبوب کے لب و رخسار کا خوبصورت اظہار ملتا ہے۔احمد اشفاق کی شاعری میں محبوب کی روایتی شبیہ بھی نظر آتی ہے۔ ہماری کلاسیکی شاعری میں محبوب کے ہجر کی مختلف احساسات تو نظر آتے ہیں مگر وصال کی شادمانی نظر نہیں آتی ۔اردو شاعری کا بیشتر حصہ حسن وعشق کے واردات سے متعلق ہے ۔ اردو شاعری میں محبوب کی ظاہری خد وخال کا ذکر بھی بڑے خوبصورت انداز میں کیا جاتا رہا ہے، حالانکہ احمد اشفاق کی شاعری میں محبوب کی ظاہری خدو خال کا ذکر کم ہی نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں محبوب کا کلاسیکی رنگ نظر آتا ہے جو ہماری اردو شاعری کا وطیرہ ہے ۔
میں انتظار میں صدیاں گزار دوں لیکن
تو میری یاد کے لمحوں کو ماہ و سال تو کر
ہے اعتبار کہ وہ میری بات مانے گا
اگرچہ کرتا ہے کافی اگر مگر پھر بھی

(جاری)

تبصرے بند ہیں۔