اسکول بیگ

تحریر: محمد اسحاق … ترتیب: عبدالعزیز

انگریزی زبان کے مشہور ناول نگار ، کہانی نویس مسٹر آر کے نارائن بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔ راجیہ سبھا کے ممبر کی حیثیت سے دو سال خاموش تماشائی کی طرح بیٹھنے کے بعد بالآخر ان کی رگِ اظہار کو جنبش ہوئی اور پہلی مرتبہ 25 اپریل 1992ء کو معصوم بچوں پر کتابوں اور نوٹ بکس کے بوجھ کے خلاف آواز بلند کرکے نہ صرف اراکین راجیہ سبھا بلکہ ملک کے ماہرین تعلیم والدین اور تعلیم سے دلچسپی رکھنے والوں کو متوجہ کیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ پہلی تا دسویں جماعت کے بچوں کو تین تا پانچ چھ کیلو وزنی کتابیں اور کاپیاں پیٹھ پر لاد کر لے جانا پڑتا ہے۔ بچوں پر تعلیم کا یہ بوجھ سراسر ظلم ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد سارے ہندستان میں پہلی مرتبہ کم از کم ایک دانشور تو ایسا سامنے آیا جس نے بچوں کے ایک خاص مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بچے برسہا برس سے تعلیم کے اس بوجھ کو خاموشی سے اٹھائے چلے جارہے ہیں، اس کا اثر یہ ہوا کہ اسکولوں کے پرنسپل و عہدیدارانِ تعلیمات اس بوجھ کو کم کرنے کیلئے چند اقدامات کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
کوئی بارہ برس قبل دہلی میں ایک فوٹو تصاویر کی نمائش ہوئی تھی۔ فوٹو گرافرس کیلئے مقابلہ کا عنوان تھا ’’بچے‘‘۔ یہ نمائش بڑی دلچسپ تھی، اس تصویر نمائش میں جس کو پہلا انعام ملا وہ ایک دس سالہ لڑکے کی تصویر تھی جو پیچھے سے لی گئی تھی۔ اس کا سر اطراف سے چکنا تھا اور درمیان میں خوبصورت بالوں کی چوٹی (جٹا یا جٹو) جس کے آخر میں گانٹھ پڑی ہوئی تھی۔ اسکول بیگ کا تسمہ سر پر لگائے اور بیگ پیٹھ پر اٹھائے بڑی بیزاری سے اسکول کی جانب قدم اٹھائے جارہا تھا۔ تصویر ہمارے دیہات کے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی بہترین عکاسی کرتی تھی۔ آر کے نارائن کی تقریر پڑھتے ہی یہ شاہکار تصویر آنکھوں میں پھر گئی۔
بعض کا خیال ہے کہ برسوں وزنی بیگ بچپن سے لے کر چلنے سے بچوں کے جسم کا فریم بگڑ جاتا ہے اور کوب نکل آتی ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ بات عرض کرنی ہے کہ آج کل وزنی اسکول بیگ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی نشانی ہے۔ چنانچہ خانگی، پبلک اور مشن اسکولوں کے طلبہ کے بیگ کافی بھاری بھرکم ہوتے ہیں۔ صبح میں جب بچہ اسکول یونیفارم، بوٹ، ہاتھ میں ٹفن بکس، کاندھے سے لٹکی ہوئی پانی کی بوتل اور سر پر کاندھوں سے لٹکائے ہوئے پیٹھ پر کتابوں کاپیوں کا تھیلا لئے ہوئے نکلتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سپاہی محاذِ جنگ پر جارہا ہے۔ یہ منظر ماں باپ کیلئے بڑا دل خوش کن ہوتا ہے، محبت کی اس خوشی میں بچے کی مصیبت کا انھیں احساس نہیں ہوتا۔
بچوں کی مصیبت اور بیزارگی کا منظر دیکھنا ہو تو سر شا دیکھئے، جب وہ رکشوں یا بسوں میں سفر کرکے گھر پہنچتے ہیں، ان کیبال بکھرے ہوئے، پاؤڈر تو کبھی کا صاف ہوچکا ہے، چپرے پر تھکان اور چڑچڑے پن کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس بیگ کے ’’خچری بوجھ‘‘ کو فرش یا میز پر پٹک دیتے ہیں۔ ٹفن، واٹر بوٹل، یونیفارم، جوتے سارے گھر میں بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ ماں کو اس زلزلہ کا احساس پہلے ہی سے ہوتا ہے، یہ تو روز کا قصہ ہے۔ وہ ہدایت پر ہدایت نشر کرتی جاتی ہے لیکن کوئی اس کی نہیں سنتا۔ جب تک اس بکھرے ہوئے انبار کو یکجا کرکے نہیں رکھا نہیں جاتا، دوسرے دن بچے اسکول کیلئے پھر روانہ نہیں ہوسکتے۔
وزنی اسکول بیگ کا مسئلہ بڑے شہروں کے خانگی اور پبلک اسکولوں کے طلبہ کا ہے۔ شہر کے غریب محلوں، قصبات اور دیہات کے ہزاروں سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کے مسئلہ کی نوعیت بالکل جداگانہ ہے۔ لاکھوں بچے ان اسکولوں میں پڑھتے ہیں، یہاں پر بیگ وزنی نہیں بلکہ ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ اکثر تو اس بیگ ہی سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب شہر کے کسی سرکاری اسکول میں چلے جائیں اور کسی کلاس کو دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ آدھی جماعت کے پاس کوئی نصابی کتاب ہی نہیں ہے۔ آدھی کلاس کے پاس کوئی نوٹ بک نہیں اور کچھ ایسے بھی بیٹھے ہوئے ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی کتاب، کاپی یا پنسل ہی ہے، جب یہ اسکول چلے تھے تو خالی تھے جب واپس ہوئے تو ان کے دماغ پر بھی تعلیم کا کوئی بوجھ نہیں۔
اپنے بچپن کی بات ہے کہ مہتمم تعلیمات نے اپنے ہاتھوں میں انعام میں دو تاؤ کاغذ، ایک پتہ قلم اور ایک چھوٹی سی شیشہ کی سیاہی دوات دی تھی۔ اس انعام کی کل مالیت دو آنے تھی، اس انعام پر سارے خاندان والے واہ واہ کر رہے تھے اور لڑکا خوشی میں پاگل ہوا جارہا تھا۔ ہمارے اسکول کا اصل مسئلہ بچوں کے وزنی بیگ کا نہیں بلکہ اس ہلکے پھلکے بیگ کا ہے کہ جس طرح کتابوں، کاپیوں سے اس کا وزن بڑھایا جائے۔ سستی تعلیم غیر معیاری ہوتی ہے، خوشی ہوتی ہے کہ مسٹر آر کے نارائن یا پھر کوئی دانشور یا ماہر تعلیم نے اسکول کے وزنی بیگ کے ساتھ ’’مالگدی‘‘ جیسے دیہات کے ان غریب طلبہ کے بیگ کا بھی تذکرہ کیا ہوتا جن کی تعداد ملک میں لاکھوں نہیں کروڑوں تک پہنچتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔