غزل

راجیندر منچندہ بانی

عکس کوئی کسی منظر میں نہ تھا

کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا

صبح اک بوند گھٹاؤں میں نہ تھی

چاند بھی شب کو سمندر میں نہ تھا

کوئی جھنکار رگِ گل میں نہ تھی

خواب کوئی کسی پتھر میں نہ تھا

شمع روشن کسی کھڑکی میں نہ تھی

منتظر کوئی کسی گھر میں نہ تھا

کوئی وحشت بھی مرے دل میں نہ تھی

کوئی سودا بھی مرے سر میں نہ تھا

تھی نہ لذت سخن اول میں

ذائقہ حرفِ مکرر میں نہ تھا

پیاس کی دھند بھی ہونٹوں پہ نہ تھی

اوس کا قطرہ بھی ساغر میں نہ تھا

مٹھی بھر اون نہ تھی بھیڑوں پر

لقمہ بھر گوشت کبوتر میں نہ تھا

جون میں تھی نہ سلگتی ہوئی لُو

برف کا لمس دسمبر میں نہ تھا

چاند تارے کسی گردش میں نہ تھے

دل کسی شوق کے چکر میں نہ تھا

اب گِرہ کوئی مقدر میں نہ تھی

خم کوئی گیسوئے ابتر میں نہ تھا

راہ شفاف تھی چادر کی طرح

یعنی کچھ بھی مری ٹھوکر میں نہ تھا

خود روی قلبِ قلندر میں نہ تھی

بے دھڑک حوصلہ لشکر میں نہ تھا

دن میں تھا کارِ  جنوں کا نہ سرور

شب کا آرام بھی بستر میں نہ تھا

شاہ کردار تھا غائب، یعنی

ذکرِ دل شوق کے دفتر میں نہ تھا

یوں تو ہم ڈرتے تھے غم سے اب بھی

پر کوئی خاص مزہ ڈر میں نہ تھا

بعض طائر تو منڈیروں پہ نہ تھے

رزق کا ہمہمہ اکثر میں نہ تھا

میری پلکوں سے سفر کرتا ہوا

تھا کوئی سایہ کہ دم بھر میں نہ تھا

اک مہک بعد کی بارش میں نہ تھی

اِک دھواں صحنِ منور میں نہ تھا

کوئی تشبیہ علامت میں نہ تھی

استعارہ کوئی پیکر میں نہ تھا

کیا عجب فصل تھی ویرانی کی

پھول تک دستِ پیمبر میں نہ تھا

اب ہوا جاتی کہیں کیا لے کر

کچھ بھی ماحول مکدر میں نہ تھا

یوں اکیلے کا سفر تھا بانیؔ

میں بھی خود اپنے برابر میں نہ تھا

تبصرے بند ہیں۔