صوفی خواتین کا تذکرہ : ایک تعارف ( دوسری قسط)

(یعنی ابو عبد الرحمن السلمیؒ کی کتاب ذکر النسوۃ المتعبدات الصوفیات پر ایک نظر)

ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی

صوفی خواتین کی خدمات کا ایک خاص پہلو ان کا وعظ و نصیحت اور درس و تدریس رہاہے۔سلمیؒ نے ایسی متعدد صوفی خواتین کا تذکرہ کیاہے، جنھوں نے عام لوگوں میں وعظ وارشاد کی محفل آراستہ کی۔ مثلاً عبیدہ بنت ابی کلاب البصریہؒ کے بارے میںلکھاہے کہ وہ طُفاۃ نام کے قبیلے میں آتیں اور وعظ و ارشاد کرتی تھیں ۔ سلمیؒ نے ان کو جید المواعظ لکھا ہے۔ ام الاسودؒ اور فاطمہؒ کے بارے میں سلمیؒ نے لکھا ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر بیان کیا کرتی تھیں۔
سلمی نے مختلف مذہبی اور عام انسانی زندگی کے مسائل پر بھی خواتین کی آراء نقل کی ہیں جن سے اندازاہ ہو تا ہے کہ اس وقت بھی خواتین کا مذہبی شعور کتنا بیدار تھا اور مختلف مسائل پر وہ کتنی بصیرت کے ساتھ اظہار خیال کرتی تھیں مثلا فاطمہ ام الیمن کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے زاہدوں پر تنقید کر تے ہوئے فرمایا’’کہ ان کازہد بھی راہ فرار ہے وہ دنیا کمانے کی مشقت سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے زہد کی راہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔ غالبا زہد کے اس پہلو کی طرف کسی مرد صوفی نے بھی کبھی توجہ نہیں دی۔
صوفی خواتین کا ایک پہلو جس کا تذکرہ بعض تذکرہ نگاروں نے کیا ہے وہ صوفی اور تصوف کی تعریف سے متعلق ہے۔ السلمی نے اس کتاب میں بھی بعض خواتین کی آراء نقل کی ہیں مثلا فاطمہ بنت احمدؒ جو ابو عبد اللہ الروذباری ؒکی اہلیہ تھیںان کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میرا بیٹا صوفی نہیں ہے۔ وہ ایک صالح انسان ہے، صوفی تو میرے بھائی ابو علی الروذباریؒ ہیں۔ام الفضل الوھطیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ حقیقی صوفی کا طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ تو مانگے اور نہ کسی سے امید باندھے۔
بعض صوفی خواتین اپنے شطحات اور مدہوشی کے لیے بھی مشہور رہی ہیں۔ بعض صوفی خواتین نے راہ سلوک کے علوم و معارف اور احوال و کیفیات کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے اور انھوں نے مراقبہ، محبت، نفس کی آفات وغیرہ پر بے مثال اہم نکات پیش کیے ہیں۔السلمی نے ان کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔
راہ سلوک میں ایک مقام آتا ہے، جب اعلیٰ درجات کے حامل صوفیہ کی نگاہیں ایسے لوگوں پر ٹھہرتی ہیں، جن کے یہاں تصوف حقیقت سے عاری محض ایک رسم ہے تو وہ ان صوفیہ پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وصف جس طرح مرد صوفیہ میں ہے، اسی طرح خواتین صوفیہ کے یہاں بھی اس کی نظیر ملتی ہے۔ سلمیؒ نے ایک خاتون کا تذکرہ کیا ہے، جو صوفیہ پر تنقید کے لیے مشہور تھیں۔ ان کا نام فاطمہ الدمشقیہؒ تھا۔
تصوف کی تاریخ میں سب سے عظیم خاتون رابعہ بصریہؒ ہیں۔ لیکن حضرت رابعہ بصریہؒ کی شخصیت جتنی اہم ہے اتنے ہی واعظوں اور قصّہ گویوں نے ان کی شخصیت کے گرد اساطیری کہانیوں کے ہالے بن دیے ہیں۔ ان کی وجہ سے آج ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو ان کے وجود کو بھی مشکوک سمجھنے لگیہیںاور اس کی ضرورت پیش آئی کہدور حاضر کے نامور عالم علامہ یوسف القرضاوی نے ایک مستقل کتابچہ لکھ کر یہ ثابت کیاکہ حضرت رابعہؒ کا وجود اساطیری نہیں ،بلکہ حقیقی ہے۔ حضرت رابعہ بصریہؒ کے بارے میں مراجع کی کمی ہے۔ مثلاً دور اول کے اہم تذکرے جیسے ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے طبقات الصوفیہ، ابو نصر السراج ؒنے کتاب اللمع میں سرے سے حضرت رابعہؒ کا ذکر ہی نہیں کیا۔ ابوالقاسم القشیریؒ نے الرسالۃ القشیریہؒ میں صرف ضمناً تذکرہ کیا ہے اور بہت غیر واضح انداز میں کیا ہے۔ ان وجوہ سے بھی ان کی شخصیت پورے طور پر واضح ہو کر سامنے نہ آ سکی ۔ حضرت رابعہ کا سب سے تفصیلی ذکر فرید الدین عطارؒ کی کتاب تذکرۃ الاولیا میں ملتا ہے لیکن اس میں غیر تاریخی واقعات اور بعض کمزور روایتیں ان کی طرف منسوب کردی ہیں۔ اس لیے حضرت رابعہؒ کی شخصیت تاریخی طور پر پردہ ذہول میں چلی گئی اور صوفیانہ روایت میں ان کے گرد کرامات اور مافوق العادت واقعات کا ایسا ہالہ بن گیا کہ ان کی اصل شخصیت ہی دھندلا گئی۔
ابو عبدالرحمن السلمیؒ نے زیر نظر کتاب میں حضرت رابعہؒ کے جو حالات لکھے ہیں، وہ زیادہ مستند ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ بصرہ کی رہنے والی تھیں اور آل عتیک کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ سفیان ثوریؒ رحمۃ اللہ علیہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ ان کی باتوں پر بھروسا کرتے تھے ان سے نصیحت سنتے تھے اور ان سے دعا کرانے کے متمنی رہتے تھے۔ رابعہ کے علوم و حکمت کو سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ نے روایت کیا ہے۔( ان کا تفصیلی ذکر اصل کتاب میں آ رہا ہے)
حضرت رابعہ بصریہؒ کے سلسلے میں ایک مشکل اور بھی ہے، وہ یہ کہ رابعہ نام کی متعدد خواتین ہیں۔ تذکرہ نگاروں نے ان خواتین کو آپس میں ملتبس کر دیا ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے اپنی کتاب میں رابعہ نام کی چار صوفی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ علامہ جامیؒ نے نفحات الانس میں رابعہ نام کی دو خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ ایک رابعہ العدویہ اور دوسری رابعہ الشامیہ جو احمد بن ابی الحواریؒ کی اہلیہ تھیں ۔ امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں رابعہ العدویہ اور رابعہ بنت اسماعیل دونوں میں التباس کر دیا ہے۔(تاریخ الاسلام ،241،8-343) ابو عبد الرحمن السلمی ؒنے زیر نظر کتاب میں حضرت رابعہؒ کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ آل عتیک کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ والد کا نام یا خاندان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ ابو عبدا لرحمن السلمیؒنے لکھا ہے کہ رابعہ العدویہؒ اور رابعہ الشامیہؒ دونوں کے والد کا نام اسماعیل تھا۔(صفۃ الصفوۃ ص734) لیکن ابو عبد الرحمنؒ کی مطبوعہ کتاب میں اس طرح کی کوئی بات نہیں مل سکی ہے۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔