پارلیمانی جمہوریت میں۔۔۔۔۔

 حکومت سے اختلاف ،سوال، بحث ومباحثہ نہ صرف جائزہے بلکہ ضروری ہے

عبدالعزیز

جمہوریت کی تعریف میں کہاجاتاہے کہ ایک طرزحکومت ہے جوعوام کی ہوتی ہے ، عوام کے لئے اورعوام کے ذریعہ عالم وجود میں آتی ہے ۔(Democracy is for the people, of the people by the people)

بھارتیہ جنتاپارٹی کی فلاسفی اوراصول جمہوریت سے قدرے مختلف ہے حالانکہ اگرجمہوریت کی جڑیں ہندوستان میں مضبوط اورگہری نہیں ہوتیںتوآر ایس ایس جیسی آمریت پسند تنظیم کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی کبھی بھی برسراقتدارنہیں آتی ۔اقتدارمیں آنے کے بعدبھارتیہ جنتاپارٹی جمہوریت کی تمام قدروںاوراصولوں کوپائمال کرنے کامنصوبہ رکھتی ہے اورہندوبھائیوںکی دیومالائی تصورکوہروقت بھنانے (Cash)کی کوشش میں لگی رہتی ہے خواہ گائے یاگنگاکامعاملہ ہوسب کودھرم سے اس طرح جوڑدیتی ہے کہ جمہوریت کی روح فناہوجاتی ہے یہ جب ماتربھومی ، بھارت ماتایاکسی اورماتاکی بات کریں توجوبھی ان کی باتوں سے اختلاف کرے گااسے دیش بیرودھی دیش کامخالف اورغدارقراردیئے بغیرنہیں رہتے ۔ ان کے ہاتھ میں دھرم کاایک ایساہتھیارہے کہ سب کواسی ہتھیارکے ذریعہ زیرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہندوستان ہی کاکبھی پاکستان حصہ تھامگرآپسی اورباہمی ٹکراؤاورتصادم سے دوحصہ ہوگیا، کیسے ہوا؟کس نے کیا؟ کس کافائدہ ہوا؟ اورکس کافائدہ ہورہاہے ؟اس وقت یہ موضوع بحث نہیں ہے مگردیکھاجائے تواس تقسیم سے آر ایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیموںنے ملک کے اندرخواہ ان کے حکومت رہی ہویانہ رہی ہوہزاروں دنگے اورفسادکرانے میں کامیاب ہوئی۔ کانگریس کے اندربھی ایسے جن سنگھی افرادموجودتھے اوراب بھی ہوںگے جوکانگریس کوبھی فرقہ پرستی سے اوپرہوکرسوچنے پررکاوٹ اورروڑے اٹکاتے رہے ہیںاورایک ایساموقع آیاکہ کانگریس کے جن سنگھی دماغ کونرسمہاراؤکے اقتدارکے زمانے میں طاقت اورقوت مل گئی اوربابری مسجدکی پانچ سوسالہ عمارت کوفوج اورپولس کی موجودگی میں منہدم کردیااورجمہوریت کی عمارت اوربنیادکوبھی متزلزل کردیا۔
جب سے نریندرمودی کی حکومت ہوئی ہے فرقہ پرستوں کی بن آئی ہے ۔ لوجہاد، گھرواپسی، یوگا، سوریہ نمسکار، طلاق ثلاثہ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ ان مسائل کاتعلق مسلم اقلیت سے ہے اسی لئے ان کودیش بھگتی (حب الوطنی )کے نام پردبانے میں آسانی ہوتی تھی ۔ مسلمان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے دبے اورسہمے ہی رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں، صبروتحمل سے کام لیتے ہیں۔جب بھی ان پرآفت پرآفت آتی ہے ۔
اب معاملہ یوپی اورپنجاب کے الیکشن کاہے اوراسی موقع پربھاجپاکی حکومت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کافائدہ لینے کاپورامنصوبہ بنالیاہے ۔ اپوزیشن پارٹیاںخاص طورسے کانگریس آخرالیکشن میں فوجیوں کے خون اورقربانی کواگرکوئی سیاسی جماعت پارٹی مفادکے لئے استعمال کرے گی اورووٹروں کواپنی دیش بھگتی اوردوسروں کی دیش کی دشمنی کاطعنہ دیگی آخرکیسے کوئی دوسری یاتیسری جماعت برداشت کرے گی؟ مسٹرراہل گاندھی نے اگرمودی کوخون کی دلالی کاالزام لگایاہے توامیت شاہ یاان کے کسی لیڈرکوحق ہے کہ اس کاجواب دیں مگرجواب یہ نہیں ہے کہ راہل گاندھی ملک کی فوج کی شان کوگھٹارہے ہیں یااس کی بے عزتی کررہے ہیں۔ کپل سبل نے درست کہاہے کہ ایک ایساآدمی جوجیل کی کوٹھری میں اپنے جرائم کی وجہ سے رہ چکاہے وہ کیسے کانگریس یادوسری پارٹیوں کودیش بھگتی کی تعلیم دینے کااہل ہوسکتاہے؟
کپل سبل نے کہاہے کہ یہ جماعت کبھی دھرم کی دلالی ، کبھی گائے کی دلالی، کبھی گنگاکی دلالی اورکبھی اسٹرائیک کی دلالی کرنے پرتلی رہتی ہے ۔ کپل سبل نے ایک اچھے اورقابل وکیل کی طرح سے کانگریس کی ترجمانی کاحق اداکیاہے بی جے پی میں ارون جیٹلی کے سواکوئی ایسانہیں ہے جوکپل سبل کے سوالوں کاجواب دے سکے ۔ امیت شاہ تیسرے درجہ کے لیڈرہیں مگرمسٹرمودی کی حمایت کی وجہ سے انہیں قومی درجہ کی ذمہ داری بی جے پی کوسونپنی پڑی ہے ۔بھاجپاکے سارے بڑے اورقومی درجے کالیڈرحاشیہ پرکردیئے گئے ہیں۔
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ محترمہ مایاوتی نے بھی بی جے پی جس طرح لکھنؤ، کانپور، بنارس اورآگرہ میں مودی کی بہادری کاپوسٹروں کے ذریعہ ڈنکابجارہی ہے اس پرکہاہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کاسہراوزیروں یامودی کے سرنہیں باندھناچاہئے بلکہ فوجیوں کے باندھناچاہئے صرف فوج کے جوان ہی اس کے مستحق ہیں۔
ہندوستان کے دوبڑے صحافی اور مصنف مسٹرراج موہن گاندھی اورسوننداکے دتہ رے نے بھاجپاکی جمہوریت مخالف پالیسی کی کھل کرمذمت کی ہے ۔راج موہن گاندھی مہاتما گاندھی کے خاندان کے چشم وچراغ ہیںاوردنیابھرمیں اپنی دانشوری ، تصنیف اورصحافت کے ذریعہ جانے جاتے ہیں۔انہوں نے دوملکوںیعنی ہندوپاک کومریض بتایاہے اورسرجیکل اسٹرائیک کے بارے میں کہاہے کہ اس اصطلاح سے کسی مریض کی نشاندھی ہوتی ہے جس کے فاسدحصے پرنشترزنی کرنے کی ضرورت ہے مگرایک ڈاکواورڈاکٹرکی نشترزنی میں بڑافرق ہوتاہے ، ڈاکواپنے مفادکے لئے اپنے دشمن کوچیرپھاڑدیتاہے اورنہایت سنگ دلی دکھاتاہے ۔ اس کے برعکس ڈاکٹرمریض کے صرف فاسد اورمتاثرہ حصہ پرہی نشترلگاتاہے تاکہ مریض صحت یاب ہوسکے اوراس کے نشترسے مزیدخرابی یابگاڑنہ پیداہو۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ جومیڈیکل ٹیم ہووہ ہندستان اورپاکستان کے ڈاکٹروں پرمشتمل ہوتاکہ مریضوں کی پرواہ اوردیکھ بھال کرسکے اورعوامی رائے عامہ کوبھی صحت مندرکھ سکے جیسے وزیراعظم نے اپنے لوگوں کی جنونیت اورپاگل پن کوکم کرنے کی نصیحت کی ہے ۔
راج موہن گاندھی نے ہندستانیوں کوٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے کی ترغیب دی ہے اورکہاکہ ہرڈاکٹراس حالت میں ایسے ہی نسخہ کی تجویزکرے گا،انہوں نے مزیدکہاہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کوئی ایسی چیزنہیں ہے جوجنگی جنون پیداکرے ، اختلاف رائے سے عنادودشمنی کاجذبہ جنم دے بحث وسوال وجواب کے دروازے بندکردے ۔ حقیقت تویہ ہے کہ بحث مباحثہ ، صاف گوئی یہ سب جمہوریت کی علامتیں ہیں ان کاہوناضروری ہے ۔
مسٹرسونندادتہ رے نے کہاہے کہ اپوزیشن کے لیڈروں کاسوال یاگزارش پارلیمانی جمہوریت میں بالکل جائز اورمناسب ہے اسے فوج کے رتبہ اورمرتبہ کے خلاف تصور کرناصریحاً غلط ہے۔

"The danger this time, is that even Rahul Gandhi and Arvind Kejriwal praising the strikes, heady triumphalism might get the better of long-term political judgment. The BJP can expect to reap well in the coming state elections but sounds defensive when it accuses people of doubting the defence forces. The published accounts don’t indicate anyone has done that; at the most, some have asked the government to share the evidence, which it keeps iterating it has. This is a perfectly legitimate request in a parliamentary democracy. It certainly does not indicate any mistrust of or disrespect to the armed forces. The reference is solely to government politicians who are the only people to make public statements regarding the military’s action across the LoC. It’s cheap to accuse such questioners of disloyalty with jibes that they should go to Pakistan. The Indian identity becomes very narrow and bigoted in the hands of such guardians. There was no such hullabaloo in 2011, 2013 and 2014 when the United Progressive Alliance government reportedly carried out similar strikes because they didn’t stridently trumpet the event. That’s the handiwork of johnny-come-lately politicos. It has nothing to do with the military.” (The Telegraph 8th Oct’ 2016)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔