کامران غنی صبا
عبادت کے معاملہ میں ہمارا دینی تصور اس قدر محدود ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ، حج اور زکوۃ سمجھتے ہیں۔یقینا یہ ساری عبادتیں ہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ انہیں ادا کر لینے سے عبادت کا حق ادا ہو جائے گا تو یہ بڑا فکری مغالطہ ہوگا۔عبادت کا معنی انتہائی وسیع ہے۔لفظی اعتبار سے عبادت کا مطلب پرستش، غلامی اور اطاعت ہے۔ عبادت کی ایک جامع تعریف یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالی کے ان احکامات کی اطاعت کرنا ہے جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم تک پہنچائے۔امام ابن تیمیہؒ عبادت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں۔مثلاً نماز، روزہ ، حج، زکوۃ،راست گوئی، امانت داری،اطاعت والدین،ایفائے عہد،امربالمعروف و نہی عن المنکر،جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک،جانوروں کے ساتھ اچھا برتائو،دعا، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اور اس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادت کے اجزا ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت،رحمت خداوندی کی امید اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص ، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔‘‘
عبادت کا یہ جامع تصور ہماری عملی زندگی میں بہت کم نظر آتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا اگر عبادت ہے تو ایسا کیوں ہے ہم عبادت کے کچھ پہلو پر توجہ دیتے ہیں اور بیشتر پہلو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے نظر انداز ہو جاتے ہیں؟جن عبادتوں میں ذہنی، جسمانی اور مالی قربانی مطلوب ہو وہاں ہماری توجہ کم ہوتی ہے۔بلاشبہ نماز و روزہ فرائض میں سے ہیں لیکن ان کے ساتھ کچھ اور فرائض بھی ہیں جن پر ہم توجہ نہیں دے پاتے۔ اللہ اور اس کے رسول کا ہر حکم فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ نمازکی ادائگی کے معاملہ میں تو ہم بہت حد تک بیداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں لیکن ہمارے پڑوس میں کوئی بھوکا ہو تو اس کی بھوک مٹانے کی فکر ہمیں اتنی شدت سے نہیں ہو پاتی۔ جبکہ اللہ کے رسولﷺ کا واضح فرمان ہے کہ ’’وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘دین ہم سے ادخلوفی السلم کافۃ (اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو)کا مطالبہ کرتا ہے لیکن ہم نے دین کے جزوی پہلوئوں کو ہی کل اسلام سمجھ لیا ہے۔ جسمانی اور مالی قربانی پیش کرنے میں ہمارے اندر وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو جذبہ دینی اجتماعات اور جلسے جلوس کے انعقاد میں نظر آتا ہے۔ جتنی محنت ہم تحریر و تقریر کے ذریعہ انقلاب لانے کی کوشش میں کرتے ہیںاس کا معمولی سا حصہ بھی اگر عملی میدان میں پیش کرنے لگ جائیں تو ہم اپنے سماج میں بہتر تبدیلی تو ضرور لا سکتے ہیں۔ ہمارے آس پاس میں کئی ایسے گھر موجود ہیں جہاں ٹھیک سے دو وقت کھانا نہیں بن پاتا۔ نہ جانے کتنے بچے پیسوں کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ ہفتہ میں کسی ایک دن کسی غریب پڑوسی کے گھر ایک وقت کا کھانا پہنچا دیا یا صدقہ زکوۃ کے نام پر سو دو سو سے کسی کی مدد کر دی۔ یقینا اتنا کر دینا بھی نیکی کا کام ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر ہم باضابطہ اپنے کسی غریب پڑوسی کی کفالت کی ذمہ داری لے لیں۔ غریب اور یتیم بچوں کو اپنے بچوں کی طرح اچھے اسکول میں تعلیم دلوانے کی ذمہ داری قبول کر لیں۔ کسی بے روزگار کو روزگار دلانے کی کوشش کریں۔
سیرت رسولﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگی کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ پاک نفوس تھیں جن کی راتیںاللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے گزرتیں اور دن خدمت خلق میں تمام ہوتا۔خدمت خلق کے معاملہ میں یہ لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس ضمن میں صرف ایک واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
خلافت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے پڑھتے۔ حضرت ابوبکر نماز کے فوری بعد کہیں روانہ ہوجاتے‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کو اکثر نوٹ کرتے وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوتی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں۔کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے۔
ایک بار وہ چپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے‘سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ دیہات میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے۔کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خیمے میں داخل ہوئے،کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بڑھیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا‘اے اللہ کی بندی!تم کون ہو؟ بڑھیا نے جواب دیا‘ میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں‘ہمارے والدین ہمیں اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا‘ یہ شیخ کون ہے جو تمہارا گھر میں آتا ہے؟ بوڑھی عورت (جو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی) نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے‘ہمارے لئے کھانا بناتا ہے اور ہماری بکریوں کا دودھ دھوتا ہے اور یہاں ہمارے پاس رکھ کرچلا جاتا ہے۔
حضرت عمر یہ سن کر رو پڑے اور کہا‘ اے ابو بکر! آپ نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے۔ آپ کے بعد آنے والے خلیفہ اس امتحان میں کیسے کامیاب ہوں گے۔
خدمت کا یہی جذبہ صوفیائے کرام کی زندگی میں بھی ملتا ہے۔ مثالیں بھری پڑی ہیں۔ آج ہمارے یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ایک دیوار سی حائل ہو چکی ہے۔ ہم میں سے بعض لوگ صرف نماز ، روزہ، درس قرآن و حدیث اور دینی اجتماعات کو ہی کل دین سمجھتے ہیں جبکہ خدمت کے نام پر جو افراد یا ادارے کام کر رہے ہیں ان کے پیش نظر سیاسی یا سماجی مفادات زیادہ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے سے بھی سرشار ہوں۔ جو ایک طرف پابند صوم و صلوۃ ہوں تو دوسری طرف بندگان خدا کے مسائل کے حل کے لیے بھی ان کا جذبہ ہمیشہ بیدار رہے۔ مختلف محلوں اور علاقوں میں نوجوانوں کی ایسی جماعتیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے افراد اور ایسی جماعتیں نہیں ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پہلوئوں کو ساتھ لے کر چلتی ہوں لیکن مثالیں مفقود ہیں جس کی وجہ سے اسلام کا عملی نمونہ بہت کم نظر آ پاتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔