عجب نہیں ہے ، کہ الزام میں نہیں آتا
شاہدؔکمال
عجب نہیں ہے ، کہ الزام میں نہیں آتا
ہمارا نا م کسی نام میں نہیں آتا
…
میں کھولتا ہوں بدن کی گرہ تسلسل سے
مگرجنون کے افہام میں نہیں آتا
…
کسے ملال ہے زخموں کی رائیگانی کا
ہمارا درد کسی کام میں نہیں آتا
…
ہمارا دل ہے سو اس بات کا خیال رہے
کسی بھی قریہ گمنا م میں نہیں آتا
…
بدن کی ریت میں سب جذب ہوتا رہتا ہے
لہو جگر کا مرے جام میں نہیں آتا
…
کمند ڈالی ہے ظالم نے کس سلیقے سے
غزال ہے کہ مگر دام میں نہیں آتا
…
مصالحت شب غم سے کمال نے کرلی
کہ اب خلل کوئی آرام میں نہیں آتا
تبصرے بند ہیں۔