علامہ عثمان غنیؒ: اک گوہر یکتا اک در فرید
لقمان عثمانی
کائناتِ ہست و بود کے طول و عرض میں جدھر اور جس طرف بھی اپنی چشم ہائے دور بیں کو اٹھا کر، اور انکی پتلیوں کو ہٹا کر زحمتِ نظارہ دیجیے تو قسّامِ ازل کی تقسیم و عطا کے ایسے لا معدود و غیر محدود نمونہائے گراں مایہ کواکب و سیارہ کی طرح جھلملاتے، بلکہ جگمگاتے نظر آئینگے؛ جو نہ صرف تمغۂ آدمیت سے سرفراز تھے؛ بلکہ بجا طور پر جنونِ آگہی کے پیکر، علوم و فنون کے شناور، تبحرِ علمی کے جوہر، فضائل و محاسن کے مستجمع، کمالات و کرامات کے مرقع، ثقافت و لیاقت کا سنگم، نابغۂ دہر و یگانۂ روزگار جیسے ان گنت اوصافِ حمیدہ و عاداتِ ستودہ کے علمبردار بھی تھے؛ جو انہیں لاکھوں کروڑوں کے بیچ ستاروں کی جھرمٹ میں چاند کی مانند ممتاز و منفرد اور جداگانہ رکھتے تھے؛ لیکن یہ بھی اک نا قابلِ انکار حقیقت ہیکہ:
کمالِ عاشقی ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا
ہزاروں میں کوئی مجنوں کوئی فرہاد ہوتا ہے
کیوں کہ کامیابی کے یہ زینے طے کرنے کیلیے بے کراں کد و کاوش کرنی اور سر دھڑ کی بازی لگانی پڑتی ہے اور کچھ نہیں، بہت کچھ لگانا، بلکہ کھپانا پڑتا ہے ”تب کوئی فرہاد بنے، تب مجنوں کہلائے ہے“ ورنہ خدائے سخن کو یہ ہرگز نہ کہنا پڑتا:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
بر سرِ قرطاس رقم کردہ یہ تمہیدِ طولانی اگر انسانی روپ دھار لے تو ایک ایسی ہی متنوع صفات ہستی و مخلتف الجہات شخصیت کوہِ قاف سے نکل کر لالۂ صحرائی میں رنگ بھرتے ہوئے جلوہ گر ہوگی؛ جسے دنیا بیگوسرائے کی سر سبز و شاداب و زرخیز سر زمین سے اگنے والی، ایشیاء کی سب سے بڑی دینی درسگاہ ―دارالعلوم دیوبند― کے ہونہار و قابلِ فخر سپوت، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رحمہ اللہ) کے شاگرِ رشید، فقیہ الاسلام حضرت مولانا و مفتی مظفر حسین صاحب (رحمہ اللہ) کے خلیفۂ اجل اور دوسری بڑی دینی درسگاہ ―مظاہر علوم (وقف) سہارنپور― کے منصبِ شیخ الحدیث پر فائز، نامور شارحِ بخاری، صاحبِ نصرالباری: ”حضرت علامہ و مولانا محمد عثمان غنی قاسمی“ (نور الله مرقده و برد مضجعه(2011، 1922) کے طور پر جانتی، پہچانتی اور یاد کرتی ہے اور انکی وقیع و گراں قدر علمی تالیفات و تصنیفات سے عمومی طور پر پورا عالم اسلام اور خصوصا برصغیر: ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے طالبانِ حدیث و تفسیر آج بھی نہ صرف استفادہ کی راہ میں مصروفِ عمل ہیں؛ بلکہ ان کی خدمات جلیلہ کی بارگاہ میں جبینِ نیاز خم کرتے ہوئے سلامِ عقیدت، نذرانۂ عظمت اورخراج محبت پیش کرتے ہیں اور بہ زبانِ قال یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ:
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں
آپ بہ یک وقت تیغِ کوہ کو سر کرکے اپنی پا بوسی پر مجبور کردینے والے باکمال عالم بھی تھے اور ہزاروں طلبہ کو وادیِ علم و عرفاں میں چلنا سکھانے والے بہترین مدرس بھی، میدانِ خطابت و بیان کے شہسوار بھی تھے اور شیریں سخن و شیریں گفتار بھی، اپنی طلاقتِ لسانی و حاضر جوابی سے باطل کے چاروں خانے چت کردینے والے مناظر بھی تھے اور اپنی دور اندیشی سے درپیش ریشہ دوانیوں کو بھانپ کر اسکا سدِّ باب کرنے میں ہمہ دم مگن رہنے والے مدبّر بھی، بیدار مغز رہنما بھی تھے اور وسیع الظرف دانشور بھی، اپنوں کے درد میں ہمدرد بھی تھے اور اغیار کی فکر میں فکر مند بھی، درجنوں بیش بہا کتابوں کے مایہ ناز مصنف بھی تھے اور اپنی تالیفات سے مستفدین کے اذہان پر چھا جانے والے گراں قدر مؤلف بھی، فنِّ تفسیر کی باریکیوں، پیچیدگیوں کو اپنے رمز شناسی کے ملکے سے پل بھر میں سلجھا دینے والے ماہر مفسر بھی تھے اور صحرائے علمِ حدیث کے پر پیچ راستوں سے واقف اور اس لق و دق میدان میں بھرپور جولانیان بھرنے والے کامل محدث بھی؛ غرضیکہ آپ کا علم غیر محصور و لا محدود تھا، ہند و بیرونِ ہند میں آپ کے علم کا ڈنکا بجتا تھا؛ گویا آپ علمی سمندر کے ایسے کہنہ مشق غواص تھے، جن کے بارے میں علامہ سید عبدالعزیز ظفر جنکپوری کا یہ کہنا ہرگز بےجا نہ ہوگا:
وہ محدث، وہ مفسر، صاحبِ فکر و نظر
تھا یقینا علم بردار فکر و آگہی
اب وہ عثمانِ غنی اس دارِ فانی میں کہاں
جو وفا کے طور پر دیتا تھا درسِ آگہی
آپکی عملی زندگی 6 دہائیوں کو محیط ہے، جس میں سے پانچ دہائیوں سے زائد تک مختلف کتبِ احادیث و تفسیر کی درسی خدمات انجام دینا شامل ہے اور ان میں سے بھی 40 سال تو صرف وہ ہیں، جن میں بخاری شریف کا بھی زیرِ درس رہنا اور 22 سالوں تک مظاہر علوم (وقف) کے منصبِ حدیث پر فائز رہنا شامل ہےـ
مظاہر علوم کی تاریخ ایسی بے شمار شخصیتوں کا آئینہ دار ہے؛ جنہوں نے اپنے تحقیقی و تخلیقی کارناموں، تصنیفی و تدریسی صلاحیتوں، تادیبی و تربیتی مشغلوں اور علمی و روحانی مجلسوں کی بارانِ رحمت سے اپنے مریدین با وفا و مسترشدین با صفا کو ایسی قابلِ رشک حیاتِ جاوداں بخشی، کہ جسکے تابندہ نقوش عالمِ اسلام کی تمام امت مسلمہ کیلیے سنگِ میل ثابت ہو رہے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہینگے نیز انکی خدماتِ گراں مایہ کی بہ دولت انکے مبارک و مسعود ناموں کو جلی حروف سے لکھا جاتا اور برسوں نہیں، صدیوں تک انہیں یاد کیا جاتا رہے گا:
فرحتؔ ترے نغموں کی وہ شہرت ہے جہاں میں
واللہ ترا رنگ سخن یاد رہے گا
ان اشخاص باکمال و اصحاب علم و فضل اور مظاہر علوم کی مسند حدیث کو اپنے بابرکت وجود سے زینت بخشنے والوں کی فہرست میں جہاں حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری (رحمہ اللہ)، حضرت مولانا زکریا صاحب مہاجر مدنی (رحمہ اللہ)، اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کامل پوری (رحمہ اللہ) ―وغیرھم― کے اسمائے گرامی آتے ہیں، وہیں مظاہر علوم کی تاریخ کے اوراق اک اور عظیم المرتبت شخصیت اور جلیل القدر ہستی کے تذکرے اور انکے مبارک نام کی سیاہی کا تشنہ لب ہوتے ہیں؛ جنکا ذکر کیے بغیر آگے بڑھنا، نہ صرف مظاہر علوم کی تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہے بلکہ مظاہر کی 22 سالہ حدیثی خدمات کو حذف کردینے کے مرادف بھی اور وہ مثالی شخصیت حضرت علامہ کی ہے ـ
آپ با رعب چہرہ، سخت لہجہ، طلسمی و کڑک آواز، باوقار انداز، نرم دل، منکسر المزاج، خوش طبع و ملنسار، ہوشمند و بیدار، عمدہ سیرت و عادات اور عجز و انکساری کے علمبردار ہونے کی صفات لا زوال و بے مثال کے تنہا شہسوار تھےـ
آپ درمیانہ قد، کشادہ پیشانی، سنتی بال اور خوبصورت و جوان آنکھوں کی ظاہری کیفیات کے حسین مرقع تھے نیز آپ دو پلی ٹوپی، سادہ لباس اور حسبِ موسم شانے پہ اونی رومال رکھا کرتے تھے اور 2002ء میں کسی پروگرام میں جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوجانے کی وجہ سے بیساکھی کے سہارے چلا کرتے تھے، انتہائی سادہ دل، ساہ مزاج اور سادگی پسند تھے؛ گویا:
سبھی اندازِ حسن پیارے ہیں
مگر ہم سادگی کے مارے ہیں
کی آپ سراپا مثال تھے
آپ نے 1922ء میں بیگوسرائے میں واقع بستی ”چلمل“ کی عطر بیز فضا میں پہلی سانس لی اور جب اپنی آنکھیں کھولیں تو خود کو مولوی عبداللہ کے گھر میں پایا نیز ابتدائی تعلیم مدرسہ محمدیہ عربیہ گوگری کھگڑیا میں بیگوسرائے کی عبقری شخصیت، مولانا حسین احمد مدنی (رحمہ اللہ) کے تلمیذِ اجل، مفسرِ قرآں، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب نیموی (رحمہ اللہ) سے حاصل کی، اس کے بعد بنگلہ دیش کی طرف اپنا رختِ سفر باندھا؛ جہاں پر آپ کے والدِ گرامی کا تجارتی مشغلہ تھا ـ آپ نے عربی سوم تک کی تعلیم بنگلہ دیش میں ہی حاصل کی اور ساتھ ہی اپنے والد صاحب کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتے رہے ـ آپ کی علمی تشنگی کو محسوس کرتے ہوئے اور حصولِ علم کیلیے جان توڑ محنت و جان گسل کوشش کے جذبے کو سراہتے ہوئے والد صاحب نے انہیں دارالعلوم دیوبند بھیجنے کا فیصلہ کر لیا؛ چناں چہ 1946ء میں آپ اپنے نو ساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیوبند پہنچے جن میں سے کامیابی صرف آپکے حصے میں آئی اور عربی چہارم میں آپکا داخلہ ہوگیا ـ
دارالعلوم دیوبند کے پانچ سالہ تعلیمی سفر میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رحمہ اللہ)، علامہ شبیر احمد عثمانی (رحمہ اللہ)، شیخ المنطق و الفلسفہ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (رحمہ اللہ)، شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہوی (رحمہ اللہ) سمیت متعدد علمائے کرام اور معزز شیدائیانِ اسلام سے فیضیاب ہوتے اور تسلسل و تواتر کے ساتھ وہاں کے مختلف ابرِ گہر سے اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہےـ
1950ء میں آپ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد واپس بنگلہ دیش تشریف لے گئے اور وہیں کے کسی مدرسے سے اپنے تدریسی و تصنیفی سفر کا آغاز فرمایا نیز اسی دوران مرآت شرحِ مرقات، فیض الامامین شرحِ جلالین اور اسی طرح شرح العقائد النسفی کی اردو شرح سمیت کئی دیگر کتابیں بھی انکے قلم سے معرض وجود میں آئیںـ
1955ء میں مدرسہ رشید العلوم چترا (جھارکھنڈ) تشریف لے آئے؛ جہاں آپ نے ترمذی شریف و مسلم شریف کا درس دیا اور پھر کچھ عرصہ تک مدرسہ حسینیہ گریڈیہہ و مدرسہ حسینیہ دیگھی بھاگلپور میں متوسطات پڑھانے کے بعد اپنے آبائی وطن "چلمل” کا رخ کر لیا اور 1962ء میں اپنے استاذ گرامی قدر مولانا حسین احمد مدنی (رحمہ اللہ) کی نسبت سے ”مدرسہ حسینیہ چلمل“ قائم فرمایا؛ جو بیگوسرائے میں مدرسہ بدرالاسلام (قائم شدہ: 1920) کے بعد قائم ہونے والا دوسرا سب سے بڑا مرکزِ علم رہا ہے؛ جہاں عربی سوم، چہارم تک کی تعلیم ہوتی تھی نیز اسی چمنستان میں اور اسی موسمِ بہار میں چلمل کے کتنے ہی بلبلوں کو چہکنے، غنچوں کو چٹکنے اور پھولوں کو مہکنے کا درس ملا اور مولانا محمد اسحاق صاحب مظاہری (رحمہ اللہ)، مولانا عبدالحنان صاحب مفتاحی (رحمہ اللہ)، مولانا محمد حاذق صاحب مظاہری (رحمہ اللہ)، مفتی محمد داؤود صاحب مظاہری اور مولانا محمد شہادت صاحب مظاہری جیسی کئی نامی گرامی مقتدر علمی شخصیات کو حضرت علامہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا اور یہی حضرات مدرسہ حسینیہ چلمل کے اولین متدرسین و متعلمین میں سے ہیںـ
چلمل بستی اس سے پہلے ظلمت و ضلالت، جہالت و سفاہت، بدعات و خرافات اور اختراعات و رسومات کی ایسی گھنگھور گھٹاؤں و ابر آلود فضاؤں میں گھرا ہوا تھا کہ ہندو و مسلم کے مابین کوئی خاص فرق و تفاوت اور کوئی حد فاصل نہیں تھی؛ جس کی بنیاد پر انکے مذہب و مسلک کا اندازہ لگایا جا سکے؛ چوں کہ آپ کو اپنے علاقے کے سب سے پہلا عالم ہونے کا اعزاز حاصل تھا؛ اسلیے آپکو اپنی کراں ذمہ داریوں کا احساس ہوا، تا آں کہ انہوں نے اپنی قوم کی اصلاح اور انکی فلاح و بہبود کو ہی اپنا اولین مقصد بنا لیا؛ اور اپنی تمام تر توانائیاں انہیں شرک و بدعت کی دلدل سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کرنے اور تاریک دلوں کو ایمان و یقین کی شمع سے روشن کرنے میں صرف کردی؛ جس کیلیے انہیں اپنے کرم فرماؤں کی داد کے ساتھ مخالفین کے وار کا بھی سامنا کرنا پڑا، حتی کہ بہت سی خارش زدہ زبانوں نے، فتنہ پرور دماغوں نے، فسق آمیز دلوں اور غبار آلود ذہنوں نے اپنے اپنے طور پر پنجہ آزمائی کی بھی کوشش کی اور آپکے ارادۂ کوہستانی کو ریت کا ٹیلا سمجھ کر اپنی نہرِ زیادتی کی زد میں لانا چاہا؛ لیکن آپ ہواؤں کے زور پر لچک جانے والی درختوں سے کہیں زیادہ اپنی جگہ ہمہ دم اٹل رہنے والے پہاڑوں پر یقین رکھتے تھے، آپ کے اندر عزم و استقلال اور ثابت قدمی کی اک دنیا بستی تھی؛ جس کی شہادت انکے ایسے بہت سے کارہائے نمایاں سے ملتی ہے؛ جو انکے دلِ دردمند اور فکرِ ارجمند کی عملی ترجمانی اور ماحصل بھی ہیں؛ چنانچہ اسی دورِ قحط الرجال میں انکے وطنِ مالوف (چلمل) میں ہی اک امام باڑا تھا؛ جو رسومات قبیحہ و بدعات صریحہ کا مستقل اڈہ، برائی و گمراہی کی جائے پناہ اور فسق و فجور کا ملجا و ماویٰ تھا؛ تا آں کہ لوگ اسکی تعظیم و تکریم میں آسمان کی بلندیوں کو چھو جاتے تھے ـ پہلے تو لات کی بھوت کو بات سے ہی بھگانے اور سیدھی انگلی سے ہی گھی نکالنے کی حتی المقدور کوشش کرتے رہے؛ لیکن جب بات سے، بات نہیں بن پائی اور سیدھی انگلی سے گھی نکالنے میں ناکامیابی ملی، تو انگلی کی بجائے کلہاڑی کا استعمال کیا اور شیر کی طرح دہاڑتے اور للکارتے ہوئے میدانِ کارزار میں پہنچ گئے اور باڑا کو مسمار و منہدم کرکے اسے ہمیشہ کیلیے اکھاڑ پھینکنے کا مجاہدانہ کارنامہ انجام دینے اور سنت ابراہیمی پر عمل کرنے لگے اور راتوں رات اس باڑا کو تہہ و بالا کر دیا، پوری رات اسکی دل ربا و نیند اڑا آوازیں سب کے کانوں میں چینختی رہی؛ لیکن کسی نے بھی مصیبت مول لینے کی ہمت نہ کی؛ جب صبح ہوئی اور سورج نے آنکھیں کھولی تو چشم فلک نے بھی یہ دیکھا کہ باڑا کا بیڑا غرق ہوچکا اور وہ اپنا منحوس وجود کھو چکا ہےـ
اس دوران آپ پر بہت سارے نا گفتہ بہ حالات بھی آئے، باطل سے مقابلہ بھی ہوا؛ لیکن انکی نا ہنجاری کی پروا کیے بغیر اپنی منزل کی طرف قدم رنجاں رہے اور:
کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا
کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے دیگر برائیوں کا بھی صفایا کرنے، لوگوں کے تاریک دلوں کو اپنے علمی چراغ سے منور و روشن کرنے کی کوشش کرتے رہے اور ”میں نے دیا جلا کے لبِ بام رکھ دیا“ کا عملی نمونہ پیش کرتے رہے ـ بادِ مخالف کے منہ زور جھونکوں نے بارہا اسے گرانا، بجھانا، اسکی لو کو کم کرنا چاہا؛ لیکن انکی ہمت فولادی بہ زبانِ حال ”وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں جو جلا تو جل کے بجھا نہیں“ کہتی ہوئی نظر آتی؛ کیوں کہ وہ خوب جانتے تھے کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جاں کاہیِ مسلسل و مغز پاشیِ پیہم کے بعد آپکی محنتیں رنگ لائیں اور اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں حق شناسی کا ملکہ ودیعت کردی اور اللہ کا فرمان ”جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا“ ہمیشہ کی طرح سچ ثابت ہوگیاـ
حضرت علامہ کے مدرسہ حسینیہ چلمل میں چند سالوں تک قیام پذیر رہنے اور تعلیمی، تربیتی، تبلیغی و اصلاحی امور کو انجام دیتے رہنے کے بعد مدرسہ عالیہ فتحیہ فرفرہ شریف ضلع ہگلی سے خطوط آنے لگے، اصرارِ متواتر کے بعد آپ وہاں تشریف لے گئے اور بارہ سال تک وہاں کی مسندِ حدیث پر براجمان رہے اور بخاری شریف، کشاف سمیت مختلف کتبِ احادیث کا درس دیتے، اپنے دولت کدۂ علمی سے میراث نبوی بانٹتے و سرمایۂ علمی لٹاتے اور طلبہ کو اپنی حذاقت سے فیضیاب کرتے رہے نیز آپ نے اپنے معمول کے مطابق یہاں بھی تنصنیفی و تالیفی مشغلے کو جاری رکھا اور اسی زمانے میں کئی مقبول ترین کتابیں لکھیں اور زیورِ طبع سے آراستہ فرما کر طلبہ و اساتذہ کیلیے اک بہترین مرجع فراہم کر دیاـ
چند سالوں تک آپ نے تیلنی پاڑہ ہگلی میں بھی درس دیا نیز دگھی ضلع گڈا جھارکھنڈ میں بھی ایک ادارہ قائم فرمایا تھا کچھ دنوں تک اسکی بھی سربراہی فرماتے رہےـ
حضرت علامہ کے علم کا شہرہ ہر چہار جانب پھیل چکا تھا، جبھی حضرت مولانا عبدالاحد صاحب تاراپوری (بانی و مہتمم: دارالعلوم تاراپور گجرات) کی مردم شناس نظر بھی آپ پر پڑی تو بطورِ شیخ الحدیث آپکو دارالعلوم تاراپور آنے کیلیے کہنے اور اصرار بالتکرار کرنے لگے، جب یہ سلسلہ دراز ہوگیا تو آپ نے بھی حامی بھردی اور 1983ء میں دارالعلوم تاراپور چلے گئے؛ جہاں بخاری شریف کامل و جامع ترمذی کامل کا درس آپ کے سپرد کیا گیاـ
اک لمبے عرصے تک کتبِ احادیث، بالخصوص بخاری شریف کا درس دینے کے بعد آپ نے بخاری شریف کی اردو شرح (مکمل) ناپید و نابود ہونے کی وجہ سے طلبہ کی پریشانیوں اور حلِ کتاب و تطبیقِ ترجمۃ الباب میں در پیش مشکلات کو محسوس کیا؛ کیوں کہ جلد اول کی شروحات تو دستیاب تھیں، لیکن بخاری جلدِ ثانی کی اردو شرح اس وقت تک معرضِ وجود میں نہیں آئی تھی؛ چناں چہ آپ نے تاراپور میں ہی دوسری جلد (کتاب المغازی) سے بنامِ ”نصرالباری“ ایک شرح لکھنا شروع کردی، جس کی تکمیل مظاہر علوم (وقف) سہارنپور میں ہوئی، جو کل تیرہ جلدوں پر مشتمل ہے ـ
نصرالباری کے مقدمہ میں آپ رقم طراز ہیں کہ ”طلبۂ دورۂ حدیث نے بارہا دریافت کیا کہ حضرت! کیا دیکھوں؟ کسی شرح کی رہنمائی فرمادیجیے! احقر نے ہمیشہ “اصح السیر“ کا مشورہ دیا؛ چوں کہ شیخ العرب والعجم، شیخی و استاذی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رضی اللہ تعالی عنہ جلدِ ثانی کیلیے اصح السیر دیکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے؛ لیکن حدیثِ پاک کا ترجمہ اور وہ اشکالات جو دورانِ درس سامنے آتے تھے، ان اشکالات کا حل، ترجمۃ الباب کی حدیثِ پاک سے مطابقت وغیرہ باقی رہ جاتی، تو احقر نے باوجودِ احساسِ تہی دامنی اور کم علمی کے جلدِ ثانی کی شرح بنامِ ”نصرالباری شرحِ بخاری“ رب العالمین پر بھروسہ کرکے شروع کردی“ـ
نصرالباری کی شکل میں آپ نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا؛ جو اس سے پہلے کسی نے بھی انجام نہیں دیا تھا؛ یہی وجہ ہیکہ کہ آپکی علمی بصیرت پر دال اس شہکار کتاب کو بجا طور پر اردو زبان میں بخاری شریف کی سب سے پہلی ”مکمل“ شرح ہونے کا اعزاز و امتیاز حاصل ہے، جس کی اشاعت ہندستان کے علاوہ پاکستان و بنگلہ دیش سے بھی ہوتی چلی آرہی ہے؛ تا آں کہ ایک سال میں کئی کئی ایڈیشنز چھپ کر ختم بھی ہوجاتی ہیں؛ جس سے طلبہ و اساتذہ میں اسکی منفعت، مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ خصوصا عالم نبیل، محدث جلیل حضرت علامہ و مولانا محمد یونس صاحب جونپوری (رحمہ اللہ) شیخ الحدیث مظاہر علوم (دارِ جدید) کا وہ یادگار جملہ خصوصی طور پر قابلِ ذکر اور لائقِ تعظیم ہے؛ جو انہوں نے نصرالباری کے دورانِ مطالعہ فرمایا تھا کہ ”اس کتاب پر خصوصی فضلِ رب ہے“ نیز اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ ”اگر اکتسابِ فیض مقصود ہو تو میرے پاس آؤ اور اگر حصولِ علم کا ارادہ ہو تو علامہ صاحب کے پاس جاؤ“ ان دو جملوں میں جہاں شیخ یونس صاحب نے حضرت علامہ کے اس مثالی کارنامے کو سراہا ہے وہیں انکے علم کی گہرائی و گیرائی اور رسوخ و وثوق کا اعتراف بھی کیا ہے؛ کیوں کہ ہیرے کی قدر کو جوہری خوب جانتا اور سمجھتا ہےـ
آپ کے قلم سے درجنوں کتابیں پردۂ عدم سے وجود میں آئی ہیں، جن میں نصرالباری شرحِ بخاری 13، فیض الامامین شرحِ جلالین 6، نصرالحیات شرحِ مشکوۃ، نصرالمنعم نوٹ: صحیح مسلم، نصرالمعبود نوٹ: سننِ ابی داؤود، التقریر الکافی نوٹ: بیضاوی، تحفۃ البہاری نوٹ: صحیح بخاری، مرات شرحِ مرقات، الشفاف نوٹ: کشاف، سقایہ نوٹ: ہدایہ، شرحِ قصص النبیین، شرحِ شرح عقائد النسفی، درایۃ الادب شرحِ ہدایۃ الادب اور آئینۂ حقوق خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں نیز کئی ایک کتابیں ایسی بھی ہیں جو صرف بنگال سے ہی چھپتی تھیں، جو اب وہاں بھی تقریبا نایاب ہو کر رہ گئی ہیں، لیکن کچھ کتابیں وہاں اب بھی دستیاب ہیں نیز بعض کتابیں تو ایسی بھی ہیں جن کے سرِ ورق سے مصنفِ علام کے نام کو ہی حذف، بلکہ غائب کر دیا گیا ہے؛ لیکن ان کتابوں کے حاشیے میں مرقوم: ”ع غ قاسمی“ یا پھر ”ع غ بہاری“ سے اصل مصنف کا علم ہوتا ہےـ
فقیہ الاسلام حضرت مولانا و مفتی مظفر حسین صاحب (رحمہ اللہ) نے آپکے تدین پر تیقن کرتے ہوئے اور آپکی تقوی شعاری کو تمغۂ استناد سے لیس کرتے ہوئے 11 شعبان المعظم 1406ھ بروز دو شنبہ بعد نماز عشاء خرقۂ خلافت سے نوازا تھا یہی وجہ ہیکہ آپ کو اپنے پیر و مرشد سے از حد ذہنی عقیدت و قلبی محبت تھی؛ چناں چہ جب کبھی بھی گجرات سے گھر کا ارادہ فرماتے تو ”زیارتِ بزرگاں کفارۂ گناہ“ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پہلے مفتی صاحب کے دیدارِ باصرہ نواز سے آنکھوں کو نور و نکہت اور دل کو سرور و فرحت کا سامان مہیہ کرنے کیلیے سہارنپور کا سفر بھی ضرور فرماتے اور کئی دنوں تک حاضرِ خدمت رہتے؛ لیکن پھر بھی ”ایک دو بوند سے رندوں کا بھلا کیا ہوگا“ کی شکایت باقی رہتی، انکے جذبات کو نئی حرارت مل جاتی اور فرطِ محبت میں بہ زبانِ حال یہی کہتے ہوئے نظر آتے:
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
نیز اسی طرح کے احساسات اپنی نئی امنگ و ترنگ کے ساتھ نہاں خانۂ دل میں پیوست و جاگزیں ہوجاتے؛ بالآخر آپکے خوابوں کو تعبیر مل ہی گئی، تمنائے نیک دل پوری ہو ہی گئی، شامِ ہموم کے بعد سحرِ انبساط ہو ہی گئی اور ”ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو“ سچ ثابت ہو ہی گیا اور 1988ء میں مفتی مظفر حسین صاحب نے آپ کے نام ایک خط لکھا اور گجرات سے مظاہر علوم (وقف) آنے کا حکم دیا؛ چناں چہ آپ حکم کی تعمیل کرتے اور انکے قریب رہنے کے موقعے کو غنیمت سمجھتے ہوئے سہارنپور کی طرف جادہ پیما ہوئے اور 9 شوال المکرم 1409ھ کو مظاہر علوم (وقف) میں آپکی تقرری عمل میں آئی اور پھر سانسوں کی ڈور کٹنے (22 سال) تک مظار میں ہی اپنے بحرِ علمی سے تشنگانِ علومِ نبویہ کی سیرابی کاسامان فراہم کرتے و تشنہ کامی کے آگے علم و آگہی کے جام لنڈھاتے رہے اور بخاری شریف، مسلم شریف، طحاوی شریف، مؤطا امام محمد، مشکوۃ شریف ………. وغیرہ جیسی متعدد وقیع و گراں مایہ کتابوں کی تدریسی خدمات انجام دے کر طلبہ کو فیضیاب و نفع یاب کرتے اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائے مشک ریز سے مشامِ جاں کو معطر کرتے رہے، آپ دورانِ درس نہ اتنی لمبی تقریر کرتے کہ جس کو طلبہ سن سن کر سن پڑ جائیں اور ان کے اذہان پر افسردگی اپنی چادر تان دے اور وہ آرام طلبی کے متقاضی ہوجائیں اور نا ہی اس قدر اختصار سے کام لیتے کہ کوئی جزو تشنۂ تشریح رہ جائے، آپ کا اندازِ تدریس اتنا شستہ شگفتہ اور اس قدر سلیس و سہل ہوتا کہ آپ کے تلامذہ اسکو گھول کر پلا دینے سے تعبیر کیا کرتے تھے………… تا آں کہ آپ اپنی زندگی کی نوے بہاریں دیکھ کر اپنے منتسبین و فیض یافگان کو رنجور و ملول چھوڑ گئے اور ایک لمبی علالت کے بعد 13 جنوری 2011ء مطابق 13 صفر المظفر 1432ھ کو ”ایں جہانی رہ کے بھی آں جہانی ہوگئے“ اور جمعرات کی صبح 4 بجے آپکی زندگی کی شام ہوگئی اور آپ کے صاحب زادۂ گرامی حضرت الحاج قاری محمد عمران عثمانی (حفظہ اللہ) نے مظاہر علوم (وقف) کے وسیع و عریض صحن میں جنازے کی نماز پڑھائی اور وصیت کے مطابق سہارنپور کے ہی ”حاجی شاہ کمال الدین“ نامی قبرستان میں مفتی مظفر حسین صاحب کی آغوشِ مبارک میں مدفون ہوئے:
دنیا میں ہوا سب کو تیری موت کا صدمہ
پہروں ملک الموت نے بھی ہاتھ ملے ہیں
آپ کی وصال کو سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے؛ لیکن آپ کے ہزاروں با فیض شاگردوں کی قطار اور ہر طرح کی علمی و دینی خدمات کے انبار نے آپ کیلیے آبِ حیات کا کام کیا کہ آپ کے چلے جانے کے بعد بھی آپکا فیض جاری و ساری ہے اور آپکی تصنیفات و تالیفات لوگوں کی خاص توجہ کا محور بنی ہوئی ہیں؛ یہی وجہ ہیکہ آپ آج بھی صرف کتابوں میں ہی نہیں، لوگوں کے دلوں اور انکے ذہنوں میں بھی زندہ و تابندہ ہیں اور حیاتِ ابدی کی انگنت سانسیں لے رہے ہیں ـ یقینا آپ ایسی متنوع صفات ہستی اور مختلف الجہات شخصیت کے حامل تھے، جو بجا طور پر اپنے وقت کے گوہرِ یکتا اور دُرِّ فرید کہے جانے کے مستحق تھے:
زمانہ ہوگیا گزرا تھا کوئی بزمِ انجم سے
غبارِ راہ روشن ہے بشکلِ کہکشاں اب تک
اس احساس و اعتراف کے ساتھ کہ:
ایک سورج تھاکہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیاشخص زمانے سے اٹھا
پھرکوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا
کیسامہتاب مرے آئینہ خانے سے اٹھا
تبصرے بند ہیں۔