پیام عید

الطاف جمیل ندوی

عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال بھر میں ایک یا ایک سے زیادہ دن ایسے ہونے چاہئیں جن میں لوگ روز مرہ کاروبارِ حیات کومعطل کرکے عمدہ لباس پہن کر کسی مرکزی جگہ اکٹھے ہوں اور مختلف تقریبات منعقد کرکے اپنی حیثیت و شوکت کی نمائش کریں۔ایسے تہواروں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور تاریخ و دن کا تعین قوموں نے اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یادتازہ رکھنے کے لئے کیا ہے۔ مثلاً ایرانیوں کی ایک عید یاتہوار کا نام مہرجان ہے جو فریدون بادشاہ نے اپنی ایک فتح عظیم کی یادگار کے طور پر منانے کا حکم دیا تھا۔

بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کی ہدایت پر فرعون کے مظالم سے یومِ نجات کو یومِ عید قرار دیا۔ حضرت موسیٰ  اس دن روزہ رکھتے اور عبادت میں مصروف رہے۔ رات کوعید کے دوسرے تقاضے یعنی خوشی و مسرت وغیرہ پورے کرتے  اَکل و شرب میں توسع فرماتے۔آنحضرتﷺکی مدینہ منورہ میں آمد تک یہ عید منائی جاتی تھی۔ قریش بھی اس دن کی عزت کرتے اور کعبہ پر غلاف چڑھاتے لیکن جس طرح حضرت موسیٰ کی اُمت نے ان کی شریعت کا ستیاناس کردیا تھا،اسی طرح اس عید کی حقیقی روح کوختم کردیاتھا۔

غیرمسلم اور قدیم اقوام چونکہ اپنے سامنے کوئی نظریہ نہ رکھتی تھیں۔ اس لئے ان کی یہ عیدیں سوائے لہو و لعب کے اور کچھ نہ ہوتیں۔ مثال کے طور پر اہل مصر جو عہد قدیم سے عیدیں مناتے چلے آرہے تھے، ان کی عید نو روز جسے قرآن نے یوم الزینة سے تعبیر کیا ہے، ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا، دور دور سے لوگ رقص و تماشا میں حصہ لینے کے لئے آتے۔عورتیں بن سنور کر خوشبوئیں لگا کراور بھڑکیلے لباس زیب تن کر کے میلے میں شریک ہوتیں اور مردوں کواپنی طرف مائل کرنے کے لئے اپنے جسم کے بعض حصوں کو عریاں رکھتیں پر ہماری عیدین  اس سے الگ ہیں ان کا پس منظر کچھ یوں  ہے۔

ایک عید بھوک کی یادگار ہے رمضان المبارک خوراک کے عادت سے ہٹ کرجاری نظام کے ساتھ ختم اس امتحان میں کامیابی کے بعد ایک دن مسرتوں کے لئے وقف ہوگیا۔ دوسری عید میں حضرت ابراہیم  حضرت اسماعیل ، حضرت ہاجرہ  کی جفاکشی اور ہجرت اور ان مصائب میں کامیابی پر مسرت فرمائی گئی۔ اس پاکیزہ خاندان کی وفاداریوں، اور صبرآزمایوں کو تاریخی حیثیت عنایت فرما کربقاءِ دوام عطا فرمایا گیا ﴿وَتَرَ‌كنا عَلَيهِ فِى الءاخِر‌ينَ ١٠٨ سَلـٰمٌ عَلىٰ إِبر‌ٰ‌هيمَ ١٠٩ ﴾…. سورة الصافات
ملت کو اَغیار کی نقالی سے بچایا اور اپنی تاریخ کوعملاً زندہ فرما دیا گیا۔ اَکابر کی قربانیاں آنے والوں کے لئے اُسوہ اور زندگی کا پیغام بن گئیں۔

فضائل

حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کے دو دن مقرر تھے جن میں کھیل کود کرتے تھے . آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ان دونوں دنوں کو اللہ تعالی تمھارے دو بہتر دنوں سے بدل دیا ہے . عید الأضحی اور عید الفطر سے.

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم عید الفطر اور عید الأضحی کوجب نماز کیلئے نکلتے تو سب سے پہلے نماز پڑھتے پھر لوگوں کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوتے ، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے آپ انھیں وعظ فرماتے اور حکم دیتے .

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ عید کے لئے پیدل چلکر جائے اور نکلنے سے قبل کچھ کھا کر نکلے.

حضرت أم عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم دو شیزاوں {جوان کتواری لڑکیاں } اور حائضہ عورتوں کو عیدین کے لئے نکالیں ، وہ مسلمانوں کی دعاوں اور امور خیر{نماز وغیرہ}میں شریک ہوں ، البتہ حائضہ عورت نماز گاہ سے الگ رہے .

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الہہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اسکے بعد.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضیی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : عید الفطر کے دن پہلی رکعت میں سات بار تکبیر کہنا ہے اور دوسری رکعت میں پانچ بار اور قرائت دونوں رکعت میں تکبیر کے بعد ہے۔

پیغام عید  

برادارن ملت ضرورت ہے کہ آج کی عید کوزندہ عید کی صورت دی جائے۔ ہمارے ہاں عید کی خوشی میں خباثت اور بداخلاقی کے دفترکھل جاتے ہیں۔ دن میں کئی کئی شو ہوتے ہیں۔ اخلاقی انارکی سے نوجوان ذہن ماؤف ہوتا ہے۔ عیاشی کی راہ سے طبائع پر وہن اور جبن کا استیلاء ہوتا ہے۔ نوجوان جرأت و شجاعت کی بجائے ذلیل حرکات پراُتر آتے ہیں۔جوکچھ ان شیطانی گھروندں میں دیکھتے ہیں، اسے عملی صورت دے کر اپنے لئے موت او رماں باپ کے لئے شرمساری کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ یہ معکوس ترقی ہے جس کی طرف اکابر ملت اور قیادتِ کبریٰ کوجلد سے جلد توجہ دے کر اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ معلوم ہے کہ یہ کام نہ علماء کا ہے، نہ عوام کا۔ عوام کے اَخلاق کی حفاظت کے لئے حکومت کو قانون بنانا چاہئے اور ایک اسلامی مملکت کی تشکیل ناممکن ہے جب تک اس میں اخلاق کے تحفظ کو لازمی مقام نہ دیا جائے۔

"نبی کریمﷺ فحش گو نہیں تھے دوسری قوموں کی نقالی قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے یہ بات حدیث شریف کے اَلفاظ «قدأبدلکم الله بهما خيرا» سے بخوبی ظاہر ہے۔ آنحضرتﷺنے سابق رواج کو یکسر بدل دیا۔ قوی استقلال کے لئے ضروری ہے کہ غیر مسلم قوموں کی نقالی اور فساق و اہل فجور کی مشابہت سے بچا جائے۔ یہی ایسا مقام ہے جہاں عصبیت کی ضرورت ہے، قومیں اسی طرح قوموں کوہضم کرجاتی ہیں۔آج ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور یورپ زدہ طبقہ اسی نقالی کامریض ہے۔ کوئی فیشن کتنا قبیح کیوں نہ ہو، ہمارے نوجوان اور ہماری مستورات فوراً اس پر لپکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جدت پسندی نے اسلامی رسوم و عقائد کے ساتھ وابستگی کم کردی ہے اور اس عصبیت کا فقدان ہمیں اسلام کی روح سے بھی ناآشنا کر رہا ہے۔

ہمارے ایک خاص فرقہ نے ملک میں کئی بدعتیں ایجاد کی ہیں۔ اسلام اور ائمہ اسلام کے اُسوہ میں اس کی کوئی سند نہیں، اس لئے وہ غیر مسلم اَقوام کی سنت سے استناد کرتے ہیں۔ حالانکہ غیر مسلم قوموں کی عادات ہمارے لئے قطعاً اقتدا اور استدلال کے قابل نہیں  اور اب تو یہ عادات تفاحش اور بے حیائی کی حد تک پہنچ رہے ہیں۔ اگر اس تفاحش کو بروقت نہ روکا گیا تو یقینا مزید خطرات کا موجب ہوگا۔

جاہلیت کی عیدوں میں عبادت اور ذکرالٰہی کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ زیادہ سے زیادہ اس میں شاعری کی راہ سے زبان کی خدمت ہوتی تھی اوروہ بھی آئندہ جنگ کاپیش خیمہ ہوتاتھا۔ آنحضرت ﷺ فداہ ابی و امی نے عید کے موقع پرمختصر سی عبادت و ذکر الٰہی کا التزام فرمایا۔ مردوں اور عورتوں کو تاکید فرمائی کہ وہ عید کے اجتماع میں شریک ہوجائیں لیکن اس اجتماع کو بھی جاہلی جلوسوں سے ممتاز رکھا۔بلکہ ہر آدمی انفرادی طور پر مقامِ عید پرپہنچ کرنماز میں شریک ہو۔

نماز سے فارغ ہو کرانفرادی طور پر واپس گھر پہنچ جائے نہ جلوس نکلنے کے لئے مقام کا تعین فرمایا،نہ جلوس کے اختتام کے لئے کوئی میدان مقرر فرمایا گیا۔ اجتماع کو صرف عبادت تک محدود رکھا پورے دن کی مسرت، لباس، خوراک ،خوش طبعی کی انفرادی مجالس تک محدود ہوگئی اور ہنگامہ بپا نہ کیا گیا۔

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی بچیاں پرانی جنگوں کے واقعات کو اَشعار اور نظموں کی صورت میں خوش الحانی سے پڑھتی تھیں۔ اس میں بھی مبالغہ آمیزی، غلو اور فحش گوئی ممنوع تھی۔ ایک لڑکی نے آنحضرت ﷺ کی تعریف میں فرمایا: وفينا نبی يعلم ما في غد "ہمارے نبی کل کی باتیں جانتے ہیں” تو اسے روک دیا۔چھوٹے بچے، نابالغ بچیاں اپنے قومی محاسن اور مشاعر کو نظموں میں پڑھیں، خوش آوازی سے پڑھیں، اس میں کچھ حرج نہیں۔ملی ذہن کو عبوست اور بدمزاجی سے بچانا چاہئے۔ یہی عید کی روح ہے۔

آج کی عید 

عید کے دن بڑی بڑی اقدار کی یاد دہانی ہوتی ہے جن میں یہ بھی شامل ہے کہ : اسلام مسلمانوں کے مابین سچی محبت اور مسلمانوں کے درمیان خالص مودت کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنا چاہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ} بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10] اور اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ} مومن مرد اور مومن خواتین ایک دوسرے کے سہارا ہیں۔[التوبہ: 71]

اس لیے عید کے تہوار کو باہمی رابطہ، محبت اور تعلق کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنانا چاہے، اس دن کو دل سے بغض اور کینہ نکالنے کا تہوار بنائیں، نبی ﷺ کا فرمان ہے: (مؤمنوں کی باہمی محبت اور شفقت کی مثال ایک جسم جیسی ہے)
عید ہمیں دوسروں کے دلوں میں خوشی اور مسرت پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہے، عید کی وجہ سے دل میں خدا ترسی، احسان اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فطرانہ فرض قرار دے کر فرمایا: (عید کے دن غریبوں کو مانگنے سے بے نیاز کر دو) دار قطنی۔ یہ بھی یاد رہے کہ

برادران اسلام : ہم میں سے اکثر اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ امت اسلامیہ پر یہ عید ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ یہ امت تقریبا زندگی کے ہر شعبہ میں ذلت, پستی, پسماندگی ,تنزلی , تخلف و انحطاط کے ایک انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے۔اوریہ امت مختلف قسم کے زخموں سے چور چور ہے ۔ اس کے پورے بدن سے خون رس رہا ہے ۔ اور اس کی حالت ایسے ہی ہے جیسا کہ اس شعر میں کہا گیا ہے کہ :

تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم

یعنی پورا جسم چھلنی و زخمی ہے تو پھاہا کہا ں کہاں رکھوں ۔ بالکل یہی مثال آج کے زمانہ میں اس امت کی ہے۔ایسی صورت میں ایک مسلمان اپنی حقیقی عید کس طرح سے منا سکتا ہے جبکہ وہ دیکھ اور سن رہا ہے کہ اس کے بھائیوں پر دنیا کے بہت سارے ملکوں عراق, سیریا, برما , فلسطین, مشرقی ترکستان, برما , یمن وغیرہ میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے:مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم كمثل الجسد الواحد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر یعنی مومنوں کی باہمی شفقت , محبت اور رحمت کی مثال ایک انسانی جسم کی مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا پورا بدن درد سے تڑپ اٹھتا ہے(مسلم, کتاب البر و الصلۃ, باب تراحم المؤمنین و تعاطفہم و تعاضدہم, حدیث نمبر 2586).

اس لیے ضروری ہے کہ عید کی اس خوشی میں اپنے ان مظلوم بھائیوں کو نہ بھول جائیں ۔ ان کے لیے دعائیں کریں اور ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرنے کی کوشس کریں۔اسی طرح اپنی سوچ کو صرف اپنی ذات یا سماج و معاشرہ یا ملک تک محدود نہ کریں بلکہ اپنی امت کی بھی فکر کریں۔اس کے بارے میں ہمیشہ سوچیں اور اس کو ان ابتر حالات سے باہر نکالنے کی تدبیریں کریں۔

تبصرے بند ہیں۔