عورت کے درجات اور مذہبِ اسلام
ایس ایم عارف حسین
اسلامی تعلیمات کے بموجب اللہ تعالیٰ نے باواے آدم علہ کی پسلی سے عورت یعنی حوا علہ کو پیدا کیا اور بیوی کا درجہ دیا۔ پھر وہ ایک ماں بنائی گئی۔ اس سے بیٹی کو جنم ملا اور بہن کا درجہ بھی حاصل ہوا۔ ان انسانی رشتوں کو دنیا کا ہر نفس محسوس کرتا ہے اور ہر مذہب انکے احترام کی تاکید کرتا ہے جو رہتی دنیا تک قائیم رہینگے بلکہ یہاں کے بعد کی دنیا میں بھی ان رشتوں سے پکارا جائیگا۔
بیوی کا مقام اور اسکے حقوق
نکاح کے عمل کیساتھ ہی ایک لڑکی کو بیوی کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ بیوی بننے کیلئے ایک لڑکی کو اپنے ماں باپ کے گھر کو وداع کہنا پڑتا ہے جو اسکی زندگی کا بڑا ہی کڑوا مرحلہ ہے۔ اس بات کو ہر نفس محسوس کرتا ہیکہ ایک لڑکی کو بیوی کا مقام حاصل کرنیکے لئے کتنا ذہنی دکھ سہنا پڑتا ہے۔ کیا کیا جاسکتا ہے یہ ایک فطری ضرورت ہے۔
ھمارے رسول ص کی نجی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہیکہ آپ ص اپنی زوجہ کی دلجوعی کیلئے انکے ساتھ کھیلا کرتے اور انکو خوش کرنے کیلئے کھیل میں جان بوجھکر ہارا کرتے۔ یہ وہ عمل ہے جو انسانی رشتہ میں محبت کو اضافہ کرتا ہے۔ رسول ص نے کہا کہ "مجھے دنیا میں عورت اور خوشبو پسند ہے”۔ اس بات سے پتہ چلتا ہیکہ بیوی چاہنے کی چیز ہے ناکہ ظلم کرنیکی۔ دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے بیویوں کے حقوق دلاے ہیں چاہے وہ مہر و نان نفقہ کا ادا کرنا ہو یا وراثت کی تقسیم ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں کہا کہ”بیویاں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم انکے لئے”(البقرہ)۔ یعنی تم ایک دوسرے کی عزت اور حفاظت کا سامان بھی ہو جیساکہ لباس کے استعمال کا مقصد ہوتا ہے۔ جہاں تک ایک سے زاید بیویوں کے حق کے ادا کرنے کا تعلق ہے رسول ص نے عملی طور پر تربیت دی ہیکہ طبعی ضرورت کو باری باری سے پورا کرتے ہوے مساویانہ حق ادا کریں۔
"بیوی” کی ذمداری پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہیکہ وہ اپنے شوہر کی حددرجہ خدمت کرے اور ہر لحاظ سے اسے خوش کرے۔ یہ امر بھی اسلام میں واضح کردیا گیا کہ اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ کا حکم دیاجاتا تو وہ ایک بیوی کو اپنے شوہر کیلئے ہوتا۔ رسول ص نے بیویوں کو آگاہ کیا کہ اپنے شوہر کے کسی زخم کو اپنی زبان سے صاف کرے جبکہ وہاں سے پیپ بہے رہا ہو تب بھی شوہر کا حق ادا نہیں کرسکتیں۔ مزید تاکید کی گئی کہ شوہر کی ضرورت پورا کرنیکے لئے نفل روزہ اور نماز کو بھی ترک کردیں۔
کیا آجکے تعلیمی یافتہ دنیادار و دین دار شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ہمدردانہ اور محبت کا سلوک کرتے ہیں؟ افسوس کہ معمولی غلطی پر بیوی پر ظلم کیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہنا بیجا نہ ہوگا کہ لڑکی کے سسرال والے اپنی بہو کو ایک نوکرانی سے بڑھکر مقام نہیں دیتے جب تک کہ خود اسکے بچے بڑے ہوکر اپنی ماں کی مدافعت نہیں کرتے۔ افسوس کہ ہندوستانی تہزیب میں بیوی کو پیر کی جوتی تک سے تقابل کیا گیا اور اگر شوہر کا انتقال ہوجاتا تو بیوی کو بھی ساتھ جلایا جاتا جو اسانی ظلم کی انتہا تھی۔
اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے انسانوں کے حقوق دلاے اور خاصکر لڑکیوں پر کئے جانے والے ظلم کا خاتمہ کیا۔ اللہ ظلم کرنے والے شوہر اور سسرالی لوگوں کو توفیق دے کہ وہ کسی اور گھر کی لڑکی کو بیوی کے روپ میں زندگی کی ساتھی اور بہو کے روپ میں بیٹی سمجھیں۔ آمین۔
ماں کا درجہ
مذہب اسلام نے رسول ص کی حدیث کے ذریعہ اطلاع دی کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے جسکے حصول کیلئے انسان زندگی بھر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ یہاں واضح ہوجاتا ہیکہ ماں کی ہستی کتنی محترم ہے۔ "ایک ماں ہی ہے جو نو مہینے اپنے بچہ کا بوجھ تھک تھک کر اٹھاے پھرتی ہے اور اسکو جنم دینے کے بعد دوسال تک دودھ پلاتی ہے”(احقاف)۔ اندازہ لگائیے حمل سے لیکر دوسال دودھ پلانیکی مدت تکمیل کرنے کے دوران ایک ماں کتنی تکالیف کا سامنا کرتی ہے اور کھانے پینے اور رہنے سہنے میں کتنی قربانیاں دیتی ہے۔ ایک جگہ رسول ص نے کہا کہ ماں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرو۔ اسپر صحابی نے دوسری اور تیسری بار پوچھا تب بھی رسول ص نے ماں کہا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر کہا کہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اندازہ لگائے کہ ماں کی کتنی اہمیت ہے۔ رسول ص نے کہا کہ اولاد جتنی بار محبت سے اپنے والدین پر نظر ڈالتی ہے اللہ مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ آپ ص نے کہا کہ جہاد میں جانے سے بہتر اپنی ماں کی خدمت ہے۔ آپ ص نے کہا کہ والد کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے "سورہ اسراء” میں تاکید کی کہ اپنے ماں باپ کو ” اْف” تک نہ کہو۔ پر افسوس کہ آجکی اولاد اپنے ماں کو اف تو کجا جھڑکیاں دیتی ہے اور اپنی کمائی کے بلبوتے گھر سے باہر تک نکال دیتی ہے۔ رسول ص نے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ دوسرے گناہوں کی سزا قیامت میں دیگا پر” ماں باپ” سے قطع تعلق کی سزا موت سے پہلے زندگی میں ہی دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ آجکے ترقی یافتہ دور کی اولاد اپنی تعلیمی و دیگر قابلیت کے نشہ میں ماں باپ کو اپنے سے دور کررہے ہیں جبکہ انکی قابلیت میں انہی ماں باپ کے خون پسینہ کا بہانا اور مختلف قربانیاں دینا شامل ہوتی ہیں۔ آجکے بیٹے ایک جانب جوانی اور کمائی کے نشہ میں تو دوسری جانب اپنی بیوی کی اندھی محبت میں ماں باپ سے قطع تعلق کرتے پاے جارہے ہیں اور جہنم کو اپنا ٹھکانا بنارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ بیٹوں کی ذہنی آنکھ کو کھول دے اور آخری سانس تک ماں باپ کی خدمت کی توفیق دے۔ آمین۔ یقیناْ یہ عمل جنت میں جانیکا سبب بنیگا جیسا کہ "رسول ص نے آگاھ کیا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک ہے”
بیٹی کا درجہ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہیکہ”اللہ جسکو چاہے بیٹے دیتا ہے۔ جسکو چاہے بیٹیاں دیتا ہے۔ جسکو چاہے بیٹے و بیٹیاں دیتا ہے۔ اور جسکو چاہے اولاد سے محروم رکھتا ہے”(شوریٰ)۔ اسکی مصلحت وہی خوب جانتا ہے۔ اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ کہتا ہیکہ "جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ماں باپ کا چہرہ سیاح ہوجاتا ہے جو کہ بْرا فیصلہ ہے”(النخل)۔
رسول ص نے اطلاع دی کہ جسکے تین یا ایک بیٹی ہو اور وہ انکے ساتھ حسنِ سلوک رکھے یعنی ان کی بہتر پرورش کرے اور انکی شادی کی ذمداری نبھاے اسکے لئے جنت ہے۔ اور ایک جگہ رسول ص نے کہا کہ لڑکیاں باپ کیلئے جہنم کی آڑ بنینگی اور جنت میں داخلہ کا سبب بنینگی۔ آپ ص نے کہا کہ بیٹیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وجہ سے جنت میں رسول ص کے ساتھ ایسے ہونگے جیسے دونوں ہاتوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ملانے کے بعد نظر آتی ہیں۔ جہاں تک بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا تعلق ہے رسول ص کے عمل پر غور کریں تو آنکھ کھل جایگی۔ جب بھی آپ ص کسی سفر پر باہر نکلتے جب سب سے آخر میں اپنی بیٹی فاطمہ رض سے ملتے اور جب واپس ہوتے تب پہلے اپنی بیٹی سے ملتے۔
مذہب اسلام نے یہ بھی تعلیم دی کہ جب باپ زندہ ہوتو بیٹے و بیٹی کو برابر کا حصہ دے۔ چاہے تعلیم دلوانا ہو یا شادی بیاہ کرنا ہو۔ ہاں باپ کے انتقال کے بعد وراثت میں بیٹی کو بیٹے کے مقابل نصف حصہ دینیکی ہدایت دی گئی اگرچیکہ وہ نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر ہی رہتی ہو۔
افسوس کہ دورِ جہالت کی مانند آج بھی کسی گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ماں باپ کے چہروں پر وہ خوشی نظر نہیں آتی جو ایک بیٹے کی پیدائش پر ظاہر ہوتی ہے۔ ان حالات کا ذمدار آجکا معاشرہ اور اسکے ظالمانہ مطالبات ہیں جو ایک لڑکی کے رشتہ کے موقع پر اسکے ماں باپ سے کئے جارہے ہیں۔ جب ماں باپ ایک لڑکی کی تلاش میں نکلتے ہیں تب خوبصورتی اور دولت کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ازخود اس معاملہ میں انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ آجکے مسلم معاشرہ کے عمل کا جہاں تک تعلق ہے وہ صرف ظاہری وضع و لباس اور مسجدوں میں محفل نکاح کے انعقاد تک محدود ہوکے رہےگیا ہے اور شرعی پابندیوں سے بہت دور ہے۔ اللہ مسلم معاشرہ کے ہر فرد کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونیکی توفیق دے۔ آمین
بہن کا مقام
مذہب اسلام نے بہن کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی اور اسکو ماں کے بعد کا مقام دیا۔ ویسے بھی دنیا کا ہر مذہب و تہزیب بہن کے ساتھ اچھا برتاو کرنیکی طرف توجہ دلاتا ہے۔
مذہبِ اسلام نے والد کے گزرجانے پر بھائیوں کو تاکید کی کہ وراثت کے حصہ کے علاوہ ہمیشہ خیال رکھیں۔ جب بہن اور بھائی کی محبت کا ذکر آتا ہے تو اس موقع پر ھمارے رسول ص کی منہ بولی و رضاعی بہن شیما کی آپ ص سے محبت کا ذکر لازم ہوجاتا ہے۔ آپ ص کے بچپن ہی میں آپکی منہ بولی بہن یہ کہتی تھیں کہ آج میرا بھائی” بچوں کا سردار” ہے اور کل "نوجوانوں کا سردار” ہوگا۔ ایک دفعہ شیما اپنے قبیلہ کے افراد کو رہا کروانے آپ ص کے پاس تشریف لایں تو اپنی چادرِ مبارک بچھاکر آپ ص نےاستقبال کیا۔ اس وقت اپکے آنسو بہے رہے تھے۔ آپ ص نے بہن کی سفارش پر بغیر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کئے قیدیوں کو رہا کردئیے اور بعد میں اسکا ذکر کیا تو ساتھیوں سے کئیے جسکو ساتھیوں نے بخوشی قبول کیا۔ جب منہ بولی بہن وداع ہورہی تھیں تو آپ ص بنفسِ نفیس خیمہ سے باہر تشریف لاکر وداع کئیے اور ساتھ میں خوب سارا سامان بھی دئیے۔ آپ ص نے کہا کہ جسکے تین یا دو بیٹیوں یا بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ سبحان اللہ۔
ایک نیک شخص کا واقعہ اسطرح ہیکہ وہ دیگر عبادات کے ساتھ روزانہ طوافِ کعبہ کرتے۔ اپنی بہن کو چھوڑکر ہجرت کر گئے اور وہیں موت واقع ہوئی۔ پر تعجب کہ انکے ایک ساتھی کو عذاب میں پاے جانیکی بشارت ہوئی۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی بہن کو اکیلا چھوڑکر یہاں آے تھے۔ لھذا یہ بات واضح کی گئی کہ ایک بہن کی پرورش عبادت و ہجرت سے ذیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مذہبِ اسلام نے بہنوں کو بعد شادی کے بھی باپ کی وراثت کا حقدار قرار دیا ہے اور بھائیوں کو نصیحت کی گئی کہ ہمیشہ اپنی بہنوں کا خیال رکھیں۔
کیا آجکے بھائی اپنی خونی رشتہ کی بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کررہے ہیں؟ بہن کی شادی ہوتے ہی اسکو گھر سے بالکلیہ غیر تصور کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہیکہ روز مرہ زندگی کی ضروریات تو درکنار باپ کی وراثت میں بہن کا شرعی حق دینے میں بھی کمی کررہے ہیں جیساکہ وہ اس باپ کی اولاد ہی نہیں ہے۔ بسااوقات صرف معمولی معمولی باتوں پر آپس میں بات چیت تک بند کردیتے ہیں جبکہ ایک بھائی والد کے بعد باپ کا مقام رکھتا ہے۔ تو بتائے ایک بہن کیوں اپنی دنیاوی ضرورت کیلئے اپنے سگے بھائی کے بجاے غیروں کو بھائی بنانے پر کیوں مجبور نہیں ہوگی ؟ کیا یہی بھائی اپنی خود کی بیٹی کو اتنا مجبور ہوتے برداشت کرسکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ اللہ دنیا کے تمام بھائیوں کو اپنی بہنوں کو باپ جیسی محبت دینیکی توفیق دے۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں۔