غزل – اک گلِ تر بھی شرر بھی نکلا
راجیندر رمنچندہ بانی
اک گلِ تر بھی شرر بھی نکلا
بسکہ ہر کام ہنرسے نکلا
میں ترے بعد پھر اے گم شدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا
اے صف ابر رواں تیرے بعد
اِک گھنا سایہ شجر سے نکلا
راستے میں کوئی دیوار بھی تھی
وہ اِسی ڈر سے نہ گھر سے نکلا
ذکر پھراپنا وہاں، مدت بعد
کسی عنوانِ دگر سے نکلا
ہم کہ تھے نشۂ محرومی میں
یہ نیا درد کدھر سے نکلا
ایک ٹھوکر پہ سفر ختم ہوا
ایک سودا تھا کہ سر سے نکلا
ایک اِک قصۂ بے معنی کا
سلسلہ تیرے نظر سے نکلا
لمحے، آدابِ تسلسل سے چھٹے
میں کہ امکانِ سحر سے نکلا
سرِ منزل ہی کھلا اے بانی
کون کس راہ گذر سے نکلا
تبصرے بند ہیں۔